Blog

ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار: مولانا ڈاکٹر محمد اصغر مصباحی

Share the post

جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ
رابطہ نمبر۔9709077374
ہندوستان کی تاریخ کے صفحات کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جنگ آزادی اور مسلمان دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر تحریک آزادی میں مسلمان شامل نہ ہو تے تو ملک آزاد نہ ہوتا اور نہ انگریزوں کو شکست ہو تی ۔ تحریک آزادی کے ہر موڑ پر مسلمانوں نے بھرپور نمائندگی کی ہے ۔ جلیانوالاباغ میں سینکڑوں مسلمان شہید ہو ئے ،کاکوری کیس میں مسلمان شریک ہوئے ، ہندوستان چھوڑو تحریک میں ، عدم تعاون تحریک میں اور حصول آزادی کے تمام تحریکوں میں مسلمانوں نے برادرانِ وطن کے شانہ بہ شانہ حصہ لیااور اپنی جانوں کو قربان کیا۔ سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر تاج بادشاہت پہننے کے بعد بھی ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرکے آزادی کے پرچم کو بلند کیا۔ ہندوستان کی آزادی کسی ایک گروہ یا ایک فرقہ کی جدو جہد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہاں کے رہنے والے ہندو، مسلمان،سکھ اور عیسائی سبھوں کی مشترکہ بے لوث قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے حصول کی جدو جہد میں جن علمائے کرام اور مسلمان قائدین نے نمایاں رول ادا کیا، ان میں حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین مدنی ؒ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادیؒ، حضرت مولانا حسرت موہانیؒ،حضرت مولانا محمد علی جوہر ؒ، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ،حضرت مولانا حفظ الرحمن ؒ،حضرت مولانا عبیدا للہ سندھیؒ، حکیم اجمل خان مرحوم،ڈاکٹر مختار احمد انصاری مرحوم، بدر الدین طیب جی مرحوم اور خان عبد الغفار خان وغیرہم شامل ہیں۔ آزادی کی تحریک میں ان حضرات کے کارنامے قابل قدر اور ناقابل فراموش ہیں۔علاوہ ازیںہندوستان کی تحریک آزادی میںجمعیۃ علماء ہند کی خدمات اور کارنامے ملک عزیز کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جسے اس ملک کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔وطن عزیز کی خاطر علمائے کرام نے جس بے خوفی ، بے باکی اور بہادری کے ساتھ اپنی جدو جہد کا سلسلہ جاری رکھا،سرزمین ہند میں کسی تحریک کی طرف سے ایسی منظم مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اسی علماء حق کی جماعت کے روح رواں تھے۔ مگر افسوس صد افسوس ملک کو آزاد ہوئے 77سال گزرنے کے بعد بھی جشن آزادی کی تقریبات اور دیگر مواقع پر علمائے کرام ، مسلمان مجاہدین آزادی اور مسلم قائدین کی بیش بہا خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز کرنے کا ایسا سوچا سمجھارویہ اختیار کیاگیا کہ آج کی نسل مسلمانوں کی ان نامور شخصیتوں اور آزادی کے سورمائوں سے واقف نہیں ہے۔ حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے عوام کے سامنے یک طرفہ تصویر پیش کی جاتی ہے۔ تمام ہندوستانی مورخین اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں یہاں کے علمائے کرام نے بے مثال قربانیاں دی ہیںاور یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آزادی کی تمام تحریکوں کا سرچشمہ ہندوستان کے علماء اور مشائخ رہے ہیں۔
انگریزوں نے جب منصوبہ بند سازشوں کے ذریعہ ۱۸۰۳ء میں دہلی کے تاج و تخت کمزور کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کردی اور یہ اعلان کردیاکہ ’’ملک کے بادشاہ سلامت کا حکم کمپنی بہادر کا ‘‘ اس اعلان کو سن کر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہمارا ملک غلام ہوگیا ،غلامی کو مٹانا اور حصول آزادی کے لیے جدو جہد کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا علمائے کرام کی قیادت اور سربراہی میں سامراجی طاقتوں کے خلاف سینہ سپرہونے کی بنا پر انگریزوں نے ان کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم دے دیا۔ جس کے نتیجے میں صرف پندرہ دنوں کے اندر تقریباً دو لاکھ مسلمان شہید ہو ئے ۔ جس میں باون ہزار صرف علمائے کرام تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دلّی میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس میں کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہو ، ان کربناک حالات کے باوجود علمائے کرام اور مسلم مجاہدین آزادی کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ ہندوستان کو انگریز سامراج کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ان کا اپنی جانوں کا قربان دینے کا جذبہ بڑا مقدس اور ولولہ انگیز تھا۔
مجاہد آزادی شیر میسور شہید ٹیپو سلطان ۱۷۹۹ء میں ہندوستان کی آزادی کی خاطر سری رنگا پٹنم کے میدان کارزار میں انگریزوں سے یہ کہتے ہوئے اپنی جان قربان کردی کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی طرح ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ ‘‘
مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خاں کو انگریز حکومت نے ۱۹۲۷ء میں جب پھانسی کی سزا سنائی تو پھانسی سے قبل انہوں نے جو جملے استعمال کیے وہ بھی تاریخ میںمحفوظ ہے۔ ’’اگر مجھے ایک ہزار بار پھانسی دی جائے اور ایک ہزار بار مر مر کر دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لیے مرمٹنے کا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا۔ مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر نے ۱۸۳۰ء کی پہلی گول میز کانفرنس میں انگریزوں کو یہ کہہ کر دہلادیا تھا کہ مجھے آزادی دو ،میں غلام ہندوستان میں دوبارہ جانا نہیں چاہتااور لندن میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے علمائے کرام اور مسلم قائدین کے ناقابل فراموش کارنامے تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ آج جب کہ ہمارا ملک 77واں جشن یوم آزادی منارہا ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد میں جہاں دوسرے برادرانِ وطن کی قربانیوں کا تذکرہ کیاجاتا ہے ، مسلمان مجاہدین آزادی اور قائدین کا بھی نام لیاجائے۔ تاکہ موجودہ نسل حقائق سے واقف ہوسکے ۔ یہ نہایت افسوسناک المیہ ہے کہ آزادی کے 76سال گزرنے کے بعد بھی ہم فرقہ پرستی اور تعصب سے آزادی حاصل نہیں کر سکے ۔ منافرت کا ماحول بدستور قائم ہے ،فرقہ پرست اور شرپسندوں کا بول بالاہے ۔ ہر سطح سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے ،اس ملک کو سب سے زیادہ خطرہ فرقہ پرست اور فاشسٹ قوتوں سے ہے۔ عوام کی توجہ اس طرف بھی دلاناضروری ہے تاکہ فرقہ پرستوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔
ستم بالائے ستم مسلمان ہندوستان کی آزادی کے لیے جن کی بے مثال قربانیوں کی لمبی چوڑی داستان تاریخ میں موجود ہے۔ ان کی حب الوطنی کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھاجارہا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مسلمان جس ملک میں رہتا ہے اس سے دشمنی نہیں کر سکتا۔ حب الوطنی ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ وہ وطن عزیز سے حد درجہ پیار کرتا ہے اور اسی جذبہ سے سرشار ہو کر وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک قربان کردیتا ہے۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں، اس لیے برادران وطن کو مسلمانوں کی وفاداری پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ آئیے ہم 78ویں جشن یوم آزادی کے موقع پر یہ عہد کریں کہ اپنے دشمنوں کی سازشوں کو نیست و نابود کردیں گے ، وقت آنے پر وطن عزیز کی بقاو تحفظ کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں گے ، آپسی منافرت کا ماحول اور بغض و حسد کا خاتمہ کریں گے ،آپس میں بھائی چارگی قائم کریں گے ،فرقہ پرستی اور تعصب کی لعنتوں سے ملک کو پاک و صاف کریں گے ،رشوت خوری ، جمع خوری ، قتل و غارت گری ،دہشت گردی، بے ایمانی اور بے انصافی سے ملک کو آزاد کرائیں گے ۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے ہندوستاں والوں تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

Leave a Response