مدرسہ خیر العلوم چندوا میں الوداعیہ تقریب کا انعقاد
کوچ کر جانے کو ہے اب تو یہاں سے کارواں
کچھ مسافر لے رہے ہیں چپکے چپکے سسکیاں
مورخہ ۱۵ فروری ۲۰۲۴ مطابق ٤شعبان المعظم ۱۳۴۵ بروز جمعرات ، مدرسہ خیر العلوم چندوا لاتہار جھارکھنڈ میں ایک الوداعی پروگرام کا انعقاد ہوا ، اس موقع پر دار العلوم ندوۃ العلماء کے سالانہ امتحان میں شرکت کرنے والے طلبہ نے مقالہ و نظم کی شکل میں الوداعیہ پیش کیا اور تمام طلبہ مدرسہ کے اساتذہ کرام اور ذمداران اور خاص طور سے ناظم مدرسہ کا شکریہ ادا کیا اور دعائوں میں یاد رکھنے کی گزارش کی۔ مدرسہ خیر العلوم چندوا جھارکھنڈ کا مشہور و معروف ادارہ ہے ١٩٥٨ میں اس ادارہ کی بنیاد رکھی گئی اور ٢٠٢٣ میں اس اداره کا دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤسے الحاق ہوا ۔ بانیان مدرسہ خیر العلوم چندوا نے ابتداء سے یہاں کے نصاب تعلیم میں اسلامیات کے ساتھ عصری علوم کو زیادہ ترجیح نہیں دی لیکن سن 2010 میں اس ادارے کی نظامت کی ذمہ داری مولانا محمد رضوان دانش ندوی کو سونپی گئی اس کے بعد انہوں نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو شامل کیا۔ لہذا اس ادارہ میں جہاں ایک طرف ابتدائی تعلیم تا حفظ مکمل اور ثانوی درجات ( عالیہ اولی شریعہ ) تک قرآن و حدیث تفسیر فقہ نحو صرف اور عربی ادب کی تعلیم دی جاتی ہے وہیں دوسری طرف اردو ہندی، فارسی، انگریزی ، حساب ، سائنس، جنرل نالج اور کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔
عربی چھارم کے طلباء سالانہ امتحانات کے لئے جانے والے طلبہ کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیااوردعاوں کی گزارش کی، مدرسہ خیر العلوم کے صدر المدرسین مولانا مولانا محمد عرفان قاسمی ، مولانا محمد اظہار قاسمی مولانا محمد ابوبکر ندوی مولانا ظفر اقبال مظاہری نے بھی طلبہ کو اپنی قیمتی نصیحتوں اور دعاؤں سے نوازا اور طلباء سے مخاطب ہوکر فرمایا آنے جانے کا سلسلہ یونہی چلتا رہےگا لہذا تمام طلباء محنت ولگن کے ساتھ تعلیم حاصل کریں خاص طور سے عالیہ اولی کے طلباء آپ ایک ایسی جگہ پہ جا رہے ہیں جو علم کا سمندر ہے لہذا آپ وہاں کے اساتذہ کرام اور کتب خانہ سے ضرور فائدہ اٹھائیں اور اس کے بعد زندگی کے جس موڑ پربھی آپ رھیں قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کریں اپنا نام اپنے والدین اساتذہ کرام اور مادر علمی کا نام روشن کریں۔۔ تقریب میں ناظم مدرسہ مولانا محمد رضوان دانش ندوی نے فارغین کو مبارکباد پیش کی اور ان کی جدائی کو درد وغم کی گھڑی بتایااور نمناک آنکھوں اور دلگیر آہوں نیز خوشی وغم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ طلباء سے چند باتیں کی فرمایا کہ اصل خوشی اور اعزاز اس وقت ہوگا جب قیامت کے دن علماء کی فہرست میں نام پکارا جائے گا، ناظم مدرسہ نے اپنے صدارتی خطاب میں علم دین کی اہمیت، دینی ماحول کے اثرات پر پُرمغز خطاب فرماتے ہوئے موجودہ نصاب تعلیم و نظام تعلیم کے ذریعہ بگڑتے حالات کو اخلاقی گراوٹ کے اسباب و محرکات قرار دیا، نیز مختلف واقعات کی روشنی میں دینی تعلیم کی کمی کے نقصانات بیان کرتے ہوئے علم دین کی نعمت عظیم پر شکر خداوندی بجالانے کی تلقین کی، اور فرمایا کہ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے علم دین کا سیکھنا ہر ایک پر ضروری ہے، نیز فرمایا دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم میں وہی نسبت ہے جو دین کو دنیا سے ہے، علم آخرت سمندر ہے اور علم دنیا قطرہ ہے، دونوں یکساں نہیں ہوسکتے۔دنیا ایک ذریعہ ہے اور دین مقصد زندگی۔اپنے علم پر خود اعتمادی کے ساتھ باقی رہیں، سرپرستوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری نیتیں خالص ہوں، دنیا کمانا نہ ہو، اگر ہم اپنے بچوں کے دین کی فکر کریں گے، ان کے لیے سہولیات فراہم کریں گے تو اللہ ہمیں دونوں جہاں کی سعادتوں سے نوازے گا، بچوں کے حق میں دعا کرتے رہیں اس لیے کہ بچوں کا مستقبل سرپرستوں کی دعاؤوں سے نکھرتا ہے۔ اخر میں ناظم مدرسہ اس شعر کے ساتھ
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
بعد نماز عشاء مولانا سلمان صاحب ندوی کی نگرانی میں فارغین (عبد الحسیب مانڈر محمد اسجد کونچی محمد اسامہ چندوا محمد عمار اٹکے)طلبہ کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے لیے رخصت کیا گیا
اس موقع پر مدرسہ خیر العلوم کے اساتذہ کرام ( مولانا محمد رضوان دانش ندوی مولانا محمد عرفان صاحب قاسمی مولانا محمد سلمان صاحب ندوی مولانا ابوبکر صاحب ندوی مولانا اظہار صاحب قاسمی مولانا ظفر اقبال مظاہری حافظ محمد دانش حافظ علیم الدین ) اور دور دراز سے آئے ہوئے علماء کرام مہمانان عظام اور طلبہ مدرسہ خیر العلوم کی ایک بڑی تعداد شریک رہے