صحابہ و اہل بیت کی عظمت و عقیدت کے علمبردار مولانا عبد العلیم فاروقی نہیں رہے : از آفتاب ندوی دھنباد
————– چوبیس اپریل 2024مطابق چودہ شوال 1445بروزبدھ لکھنؤ کے ایک ہسپتال میں فجر سے پہلے ملک کے معروف خطیب وعالم دین جمعیت علماء کے سابق سکریٹری جنرل ، ندوۃ العلماء و دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری اور سنیوں کے دینی قائد ور ہبر مولانا عبد العلیم فاروقی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئ ، ھر آنے والے کا اس جہان فانی سے جانا ایک اٹل حقیقت ھے ، لیکن ھر جانے والا یکساں نہیں ہوتا ، کچھ لوگ اس طرح دنیا کو الوداع کہتے ہیں کہ بعض دفعہ پڑوسیوں تک کو خبر نہیں ہوتی ، کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی ، لیکن جانے والوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ لاکھوں لوگ انکے جانے سے سوگوار ہوجاتے ہیں ، مدتوں جام وپیمانے انہیں روتے ہیں ، مولانا فاروقی بھی اسی طرح کے عظیم لوگوں میں تھے ، انکے نامور دادا مولانا عبد الشکور فاروقی (1876 1961) نے صحابۂ کرام کی عظمت و محبت کو عام کرنے اور قرآن و حدیث میں انکا جو مقام ومرتبہ اور حیثیت عرفی ھے اسے بحال کرنے کی جو تحریک چھیڑی تھی اسے والد ماجد مولانا عبد السلام صاحب فاروقی بن مولانا عبد الشکور فاروقی (وفات 1973)کے بعد کبھی انہوں نے اسے کمزور ھونے نہیں دیا ، والد ماجد کی وفات کے بعد
دار المبلغین کی ذمہ داری بھی انکے کاندھوں پر آگئ جسے اخیر وقت تک انہوں نے نبھائی ،لکھنؤ سے با ھر نکل کر جمعیت علماء ہند جیسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ملکی سطح پر ملت کی انہوں نے جو خدمت کی اسے بھی کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، اس آل انڈیا تنظیم کے مدتوں سکریٹری جنرل رہے ، دارالعلوم دیوبند و ندوہ العلماء جیسے مؤقر اداروں کے رکن شوری تھے ، نوابان اودہ کے اثر سے لکھنؤ تشیع کا ایک عرصہ سے مرکز چلا آرہا تھا ، دنیا کے گو شے گوشے تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے والے اصحاب رسول کو اعلانیہ سب وشتم کیا جاتا تھا ، سنی بھی جہالت کی وجہ سے ان رسوم و بدعات میں گلے گلے ڈوبے ہوئے تھے جنکا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، علامہ عبد الحی فرنگی محلی کے شاگرد رشید ، مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ کے بانی و مشہور شیخ طریقت مولانا سید عین القضاۃ حیدرآبادی تم لکھنوی کو اس صورتحال نے بے چین کردیا ، انہوں نے اپنے محبوب شاگرد مولانا عبد الشکور لکھنوی کو دلی سے بلواکر لکھنؤ کی سیاہی کو روشنی میں بدلنے کی مہم میں شریک کیا بلکہ اس مبارک مشن کی قیادت سونپ دی ، اس جوہر قابل نے اس ذمہ داری کو اس شان سے نبھایا کہ دنیا نے اسے امام اہلسنت کا خطاب دیا ،1898میں جب ندوہ العلماء کا قیام عمل میں آیا تو شروع میں جن چار شخصیتوں کا تدریس کیلئے انتخاب عمل میں آیا ان میں مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی بھی تھے ، مولانا عبد العلیم فاروقی اسی نامور دادا کے پوتے تھے ، پوتے نے دادا سے کسب فیض بھی کیا کہ دادا کی وفات کے وقت پوتا تیرہ سال کا تھا ، مولانا فاروقی مظاہر علوم سہارن پور اور دیوبند سے فیض یاب ہوئے تھے ، خانوادۂ علم اللہ رایے بریلوی کے داماد ہونے کی وجہ سے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے بھی مستفید ہونے کے مواقع میسر ھوئے ، مولانا فاروقی نے جلیل القدر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی تھی ، لکھنؤ کے ادبی و علمی ماحول میں پلے بڑھے تھے ، لکھنؤ کی ٹکسالی زبان ، محاورات اور ضرب الامثال کے ماہر تھے ، دوران تقریر جب خالص لکھنوی انداز میں طنز و تعریض کے تیر چلاتے اہل لکھنؤ جھوم اٹھتے اور ھر طرف سے دادو تحسین کی صدائیں بلند ہونے لگتیں ، قرآن کی آیات، سیرت کے واقعات ،فارسی اشعار ، آواز کے اتار چڑھاؤ ، کوثرو تسنیم میں دھلی لکھنوی زبان و محاورات سے سامعین کو مسحور کر لیتے ، مولانا کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ لکھنؤ کے تبرائی ماحول میں رہکر بھی اعتدال کا دامن کبھی ھاتھ سے نہیں چھوٹا ، صحابۂ کرام کی عظمت وشان کا جھنڈا بلند کرنے میں کبھی اہل بیت کی تعظیم تکریم میں کمی نہیں ھوئی ، جس طرح اصحاب رسول کے فضائل ومناقب بیان کرتے تھے اسی طرح شان اہل بیت کو اجاگر کرنے میں بھی انکا اپنا خاص انداز تھا ، لکھنؤ میں اصلاح عقائد اور رسم ورواج کو ختم کرنے میں احاطۂ شو کت علی کے جلسوں کا بڑا رول ھے ، یہ جلسے تقریبا ایک صدی سے ہورہے ہیں ، یکم محرم سے پندرہ محرم تک جوش وخروش کے ساتھ یہ اجلاس بڑی پابندی سے منعقد ہوتے ہیں ،جن میں ملک کے تمام بڑے علماء کی تشریف آوری ہوتی ہے ،
مولانا نے کچھ عرصہ تک ندائے سنت کے نام سے ایک پرچہ بھی نکالا ، مولانا کی تحریر خطابت کی طرح بڑی دلکش ہوتی ، اگر تصنیف و تالیف کو کچھ وقت دیتے تو مولانا ایک کامیاب مصنف بنتے ، دارالمبلغین کا جسے مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی نے قائم کیا تھا ابھی چند سال پہلے ندوہ العلماء سے الحاق کر وا یا تھا ، جب لکھنؤ کے قرب وجوار میں قادیانیت کے سرگرم ہونے کا مولانا علی میاں صاحب ندوی کو علم ہوا تو ندوہ کے شعبۂ دعوت وتبلیغ کو اس علاقہ میں طلبہ اور اساتذہ کو بھیجنے کی ہدایت کی ، طلبہ اور اساتذہ اپنا کھانا لیکر جمعہ کو گاؤں گاؤں جاتے ،لوگوں سے ملتے ، مسجد میں خطاب ہوتا , ان دوروں کا بڑا فائدہ ھوا ، لوگ تائب بھی ھوئے اور قادیانی مبلغین کی آمدو رفت بھی بند ھوگئی ، اسی طرح کے ایک دورہ میں ایک مرتبہ گاؤں کی ایک مسجد میں میں تقریر کر رہا تھا کہ مولانا عبدا العلیم فاروقی صاحب پہنچ گئے ، ان سے درخواست کی گئ کہ خطاب کریں لیکن انہوں نے تقریر جاری رکھنے کا حکم دیا ، امامت بھی نہیں کی ، ایک مرتبہ واپسی میں ھم لو گ اس علاقہ کے قادیانی مرکز میں پہنچ گئے ، ہمارے وفد کو دیکھ کر قادیانی مرکز والے گھبرا گئے ، کہنے لگے ہم لوگ تو آپکے اداروں میں نہیں جاتے ہیں ،آپ لوگ کیوں آئے ، اندر جانے کی اجازت نہیں ملی ، وہاں کشمیر کے کچھ نوجوان ملے ، مولانا فاروقی صاحب نے اس علاقہ میں ختم نبوت کے عنوان سے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے علاقہ کے مسلمانوں کو فتنۂ قادیانیت کی سنگینی کا اندازہ ہوا ، سنیوں کے رہبر وقائد ہونے کی وجہ سے انتظامیہ میں بھی انکی اہمیت تھی ، اس سے ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچاتے تھے ، اللہ انکی نیکیوں کو قبول کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلی مقام دے ، پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت کو انکا نعم البدل عطاء کرے ،،،
آفتاب عالم ندوی 8002300339