Jharkhand News

احباب زیر خاک سلا کر چلے گئے

Share the post

 

محمد قمر عالم قاسمی خادم التدریس والافتاء مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی جھارکھنڈ
خطیب حواری مسجد کربلا چوک رانچی
قاضی شہر رانچی جھارکھنڈ سرکار 
نہ جانے کتنے ہی مدرسوں ،مسجدوں ،خانقاہوں ، ضرورت مندوں ، بیکسوں و بے سہارا لوگوں کی گمنام خدمت کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت جناب الحاج اسماعیل صاحب نوراللہ مرقدہٗ آج ہم سے روٹھ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خلل 
احباب زیرخاک سلا کر چلے گئے
اے فرشتہ اجل! کیا خوب تیری پسند ہے
 پھول تونے وہ چنا جو گلشن کو ویران کر
گیا
موت ایک اٹل حقیقت ہے جس نے بھی اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے اسے موت کا مزہ چکھنا ہے ایسے موقع پر جبکہ داغ مفارقت دینے والا محسن و ہو تو صدمہ و قلق بھی فطری بات ہے لیکن اس صدمے کو برداشت کرنا اور صبر سے کام لینا عند اللہ مقبول و محبوب ہے کیونکہ ہمارے نفس،  ہمارے مال،  ہمارے گھر والے اور ہماری اولاد عزت و بزرگی والے کی خوشگوار عطیات ہمارے پاس رکھی ہوئی  عاریت و امانت ہیں، ہمیں ایک مقررہ مدت تک ان کے ذریعے نفع اٹھانے کی اجازت دی جاتی ہے پھر ان چیزوں کو ہم سے اٹھا لیا جاتا ہے خالق کائنات نے عطیات کے ملنے پر شکر اور اٹھا لینے پر صبر کو فرض کیا ہے۔ کہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ وحدہ و لاشریک لہ کی ہے اس دنیا کی ہر شخصیت خواہ وہ کتنی ہی دلکش،  کتنی پر بہار، کتنی ہردلعزیز اور کتنی زندگی افروز کیوں نہ ہو آخر میں اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے،  آگے اور پیچھے کا فرق ضرور ہے ہم میں سے کون ہے جو یہاں ہمیشہ رہنے کے لئے آیا ہے لیکن انسان کی غفلت کا عالم یہ ہے کہ وہ  اس سامنے کی حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کرکے اس کائنات اور اس میں پائے جانے والی رنگینیوں سے اس طرح دل لگا بیٹھا ہے جیسے اسے ان کے بقاۓ دوام کی کوئی ضمانت مل گئ ہو کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربك ذوالجلال و الاكرام  قرآنی ارشادات کا کوئی کٹر سے کٹر دہریہ بھی انکار کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔
اب نہیں لوٹ کے آنے والا
 گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا 

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
 شہر میں ایک چراغ تھا نہ
رہا
اللہ  تعالی نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ اس میں غم اور خوشی راحت و تکلیف دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں یہاں خالص خوشی ہی نہیں بلکہ غم اس کا جگری دوست بھی ہے اس لئے صدموں اور غم کا پیش آنا اچنبھے کی بات نہیں ہے لیکن بعض صدمے ایسے ہوتے ہیں کہ امت کے ایک طبقہ ہی نہیں بلکہ کئ طبقات اس سے متاثر ہوجاتے ہیں اور اس کا گہرا اثر ہوتا ہے ایسا ہی ایک صدمہ ہمارے حضرت حاجی اسماعیل صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی سانحہ ارتحال کی شکل میں پیش آیا ہے ؛کیونکہ زندگی اس قدر غیر یقینی ہے کہ ہنستے مسکراتے چہرے کو موت کب خاک میں ڈھانپ لے کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کبھی کسی کی موت کی خبر سنوں  تو بس دل یہی دعائیں کرتا رہتا ہے کہ کاش کوئی آ کر کہہ دے کہ یہ افواہ تھی یا مرنے کی خبر جھوٹی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن اپنے پیچھے  کہی ہوئی داستان اور ناقابل فراموش خدمات چھوڑ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دست بستہ دعا گو ہوں کہ اللہ حاجی صاحب مرحوmم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو انوار سے منور فرمائے،سچے امانت دار تاجر ہونے کی وجہ سے انبیاء، شہداء، صدیقین و صالحین کے ساتھ حشر فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ پسماندگان ، خویش و اقارب اور دوست و احباب کو صبر جمیل و استقامت عطا فرمائے آمین یارب العالمین

Leave a Response