ہندوستان کا موقف ہر دور میں فلسطین کی حمایت کا رہا ہے، اسرائیل کی حمایت ہندوستان کی قدیم قدروں کی پامالی ہے: ادارہ شرعیہ
مرکزی ادارہ شرعیہ کے صدر سابق ایم پی اور ایم ایل سی حکومت بہار مولانا غلام رسول بلیاوی نے ایک پریس بیان جاری کر کہا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ رہی ہے کہ ہردور میں مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی مخالفت کی ، ملک کا وز یر اعظم خواہ جس کسی بھی پارٹی کا رہا ہو ہندوستان کی روایت رہی ہے کہ فلسطین کی حمایت اور تائید کیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے سابق وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپائی جیسے لیڈران جن کا ملک کے آرایس ایس سے گہرا رشتہ ہونے کے باوجود ہندوستان کی روایات کو باقی رکھا اور دبلی کے رام لیلا میدان کے اسٹیج سے فلسطین کی حمایت کی ہار پوری دنیا نے سنا۔ لیکن انہیں کی تیار کی ہوئی پارٹی کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل کے موجودہ حکمراں فلسطین کی زمین پر صرف پناہ گزیں ہیں مالک نہیں بلکہ غاصب ہیں پھر بھی ملک کے قدروں کو پامال کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت میں اعلان دینا امن پسند افراد کے فہم و گمان سے باہر ہے۔ بلیاوی نے واضح لفظوں میں کہا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو اسرائیل کی جنتی نگر ہے کاش اپنے ملک کے منی پور کے شہریوں کی تھوڑی سی بھی گھر ہوتی تو شاید پوری دنیا میں منی پور کو لیکر جو رسوائی ہوئی ہے وہ نہ ہوتی۔ بلیاوی نے مسلم نو جوانوں سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں بلکہ ہوش کے ناخون لینے کا ہے یہ
یہودیوں اور انگریزوں کی خاندانی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی کوئی اپنا حق ملکیت خاصیوں سے لینے کی تحریک چلائی ہے اسے دہشت گرد قرار دیا گیا ہے لیکن تاریخ بدلی ہے اور ضرور بدلے گی۔ بلیاوی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کو اکسانے کی ایک بڑی سازش چل رہی ہے اس سے ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ بلیاوی نے ان شر پسند عناصر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی حمایت میں فلسطین جانے کی بات کہنے والوں کو چاہیے کہ پہلے
منی پور جا ئیں وہاں ان کی سخت ضرورت ہے۔
مولا نا بلیاوی نے ملک کے وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی قدیم روایات اور پہچان کو تار تار نہ ہونے دیں اس سے ملک کا عالمی وقار مجروح ہورہا ہے مل کا کچھ فائد ہ تو ہوگا ہیں البتہ عالمی تے پر نقصان ضرور ہوگا اور ملک کو نقصان پہونچانے کا حق
کسی کو نہیں ہے، اس سے ہٹ کر ملک کی تعمیر وترقی کی فکر کریں