آہ ! شجر سایہ دار سے محرومی از : محمد شہاب الدین قاسمی
میرے خسرِ محترم جناب مولوی عبد الجلیل انصاری طویل علالت کے بعد 31 مئی بروز جمعہ ایک بج کر سترہ منٹ میں 82 سال کی عمر میں اپنے معبودِ حقیقی سے جاملے۔إنا لله وإنا إليه راجعون ۔ان کی رحلت نے خاندان کے چھوٹے بڑے ہم سب کو سوگوار کردیا۔
انہوں نے اگرچہ کسی مدرسہ میں باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی، البتہ علماء اور صلحاء کی صحبت اور دینی کتابوں کی کثرت سے مطالعہ کی وجہ انہیں ضروری اور صحیح دینی مسائل ومعلومات سے واقفیت تھی، اسی وجہ وہ مولوی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔
صلہ رحمی، ایثار ان کی زندگی کے تابناک پہلو ہیں، جن سے نہ صرف اہلِ خاندان واقف تھے بلکہ بستی اور معاشرہ میں بھی ان کی اس خوبی کی مثال دی جاتی تھی۔
دینی مزاج کارنگ اس قدرغالب تھاکہ تعلیم کے سلسلہ میں اٹھتےبیٹھتے نصیحت کرنے سے نہ تھکتے، جس علاقہ سے ان کاتعلق تھا، وہاں کوئی دینی مدرسہ یامکتب نہیں تھا، تاہم انہوں روزوشب جہدِ مسلسل سے اپنے تین بیٹوں کو حافظ قرآن مجید اور عالمِ دین بنایا، اپنی چھوٹی بیٹی جو میری شریکِ حیات ہیں کو عالمیت تک کی تعلیم اور مثالی تربیت دی۔ اس حیثیت سے وہ اپنےعلاقہ میں تعلیمِ نسواں کے بھی محرک اور علمبردار تھے۔
خاندان میں دینی تعلیم کے فروغ کے لیے جنون کی حدتک جدوجہد کرتے، انہوں نے روایتی طور پر اگرچہ دینی تعلیم کے لیے کوئ مدرسہ یا مکتب نہیں بنایا، لیکن اپنے بیٹوں اور نواسوں کوحافظ وعالم بنایا جن کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔چھوٹی بیٹی سمیت دسیوں نواسیوں اور بھانجیوں کو عالمیت تک کی تعلیم وتربیت دلائی، افرادسازی اور نسلوں کی تعمیر میں وہ نہ تھکنے والے دین کے سپاہی تھے، اپنے سب سے چھوٹے اورعزیز بھائ جناب مولانا آفتاب عالم ندوی پرجان چھڑکتے تھے، اور ان کے تعلیمی کارناموں سے حددرجہ خوش ہوتے، مجلسوں میں ان کا تذکرہ کرتے نہ تھکتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دینی تعلیم وتربیت سے آراستہ جو افراد تیار کیے،آج ان میں کوئی استاذ ہے، توکوئی مصنف وخطیب۔
مہمان نوازی میں انہیں خوب لطف آتا، مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داروں، اساتذہ اور کارکنان سے عشق کے درجہ تک تعلق تھا، جس کی ایک جھلک ان کی نمازِ جنازہ میں نظر آئی، ایسا محسوس ہورہاتھا کہ متعدد اضلاع کے نامور اور مقتدرعلماءکرام ان کے جنازہ میں شریک ہوکر قلبی سکون حاصل کررہے ہوں، ان کی آنکھوں میں عقیدت ومحبت کی جھلک صاف نظر آرہی تھی۔
ان کی زندگی کا ایک روشن نمایاں پہلوان کی دنیاسے حددرجہ بے رغبتی اور بےاعتنائی تھی،حضرت مولانا سید اسجد مدنی زید مجدہ جب بھی ان سے ملے، ان کے اس وصف کو رشک کی حدتک سراہا، وہ مجھ سے ہمیشہ کہتے اپنےخسرصاحب سے میرا سلام کہواور دعاکےلیے کہو۔
ان کے پڑھے ہوئے پانی کو دور دراز سے لوگ اپ ے مریضوں کے لیے جاتے، اور خوب فائدہ بھی ہوتا، ہم لوگ بھی گھروں میں بچوں اس پانی کو استعمال کرتے ، اہلیہ محترمہ ہمیشہ اپنے گھر سے اپنے دونوں بیٹے اسامہ اور عبادہ کے لیے اپنےابامرحوم سے پانی پڑھواکر گھر میں رکھتی، متعدد مرتبہ ایسا ہواہے کہ خسر صاحب سے صرف دعاکے لیے ہی سسرال کاسفر کیا، اور ان سے دعاکی درخواست کرکے قلب کو راحت ملی۔
میری سسرال میں حاضرجوابی موروثی وصف ہے، تاہم ان میں یہ وصف کمال کے درجہ تک حاصل تھا، الزامی جواب میں غیر معمولی مہارت تھی، مجھ سے دیر تک علمی سوال وجواب کرتے، اور کتابوں میں نشان زدہ عبارتوں کا حل پوچھتے، ملک کے اکابر اور ان کی خدمات و سرگرمیوں سے بہت حد تک واقف رہتے۔
وہ ایک بہترین سماجی خدمت گار بھی تھے، جس سے دور قریب کے لوگ فیضیاب ہوتے رہتے تھے، اسی خوبی سے متأثر ہوکر جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سربراہ جناب شیبوسورین کا ان سے گہراتعلق تھا،جھارکھنڈ تحریک کے وہ ایک سپاہی بھی تھے۔ان کے کرداروگفتارسے قومی یک جہتی اور باہمی رواداری کی تصویر صاف نظر آتی تھی۔
ان کی زندگی میں سلام کی کثرت تھی، چھوٹوں بڑوں کو سلام کرنے میں پہل ان کی فطرت تھی۔
مرحوم۔نے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں جو سب باحیات ہیں، بڑے بیٹے حافظ مولانا شکیل اختر ندوی جامع مسجد پچگڑھی دھنباد کے امام وخطیب ہیں، منجھلے بیٹے مولانا مفتی جمیل اختر جلیلی کرناٹک کے ایک بڑے ادارے میں حدیث وفقہ کے استاذ ہیں، اور متعدد کتابوں کے مؤلف بھی، نیز اسلامی ماحول میں عصری تعلیم۔کے فروغ کے لیےبلیاپور دھنباد میں ہدی پبلک اسکول بھی کامیابی سے چلارہے ہیں، تیسرے بیٹے حافظ مبین اخترجامعہ ام سلمہ فردوس نگر دھنباد خدمت انجام دے رہے ہیں۔
میری تعلیمی اور تحریکی سرگرمیوں سے بہت خوش ہوتے، اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئےاسے اصلاحِ معاشرہ کے ایجنڈے میں شامل کرنے کو کہتے، اور جب بھی ان سے واپسی کی اجازت لیتا، کہتے شہاب بابو میرے لیے خاتمہ بالخیر کی دعا کروگے، اسی جملے کے ساتھ رخصت کرتے۔
ان کی رحلت سے ہم سب غمزدہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو ان کی روایات کا امین بنائے، انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطاکرے۔
ذاتی طور پرمیری اربابِ مدارس، علماءکرام اورائمۂ مساجد سے مرحوم کے لیے دعاءِ مغفرت اورایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔