Ranchi JharkhandRanchi Jharkhand News

فاطمہ اکیڈمی، مولانا نسیم انور ندوی کی علم و فکر کی شاندار یادگار.

Share the post

فاطمہ اکیڈمی کیا ہے؟ اس سوال میں بہت بڑی تاریخ اور بہت بڑا درد پوشیدہ ہے جس کا احساس کوئی دوسرا نہیں کرسکتا، رانچی کے اٹکی شہر میں مولانا نسیم انور ندوی نے جس کی بنیاد محض لللہیت پر رکھی، جو نہ صرف ایک علمی اور فکری ادارہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور دینی فکر کا اہم مرکز بھی ہے۔ مولانا نسیم انور ندوی نے اپنی علمی قابلیت، دینی شعور اور اصلاحی کوششوں اور فکر بوالحسنی کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے بچوں اور بچیوں کو اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور معاشرے کو ایک صالح معاشرہ بنایا جائے تاکہ وہ آنے والے وقت میں معاشرے کی قیادت سنبھال سکیں۔

اکیڈمی کا قیام اور مقاصد

فاطمہ اکیڈمی کے قیام کا عین بنیادی مقاصد میں سے اول مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے جو دینی اور دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج ہو۔ فاطمہ اکیڈمی کا بنیادی مقصد اسلامی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو اس نہج پر استوار کرنا تھا جس سے وہ دینی و دنیاوی دونوں میدانوں میں کامیاب ہوں۔ حضرت والا کا یہ خواب تھا کہ طالبات طلباء میں دینی علوم کے ساتھ جدید سائنسی اور سماجی علوم کا شعور بھی بیدار ہو، تاکہ وہ بہتر شہری اور مومن بن سکیں۔

تعلیم و تربیت

فاطمہ اکیڈمی میں نصاب کا انتخاب انتہائی غور و خوض کے بعد کیا گیا ہے۔ یہاں قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم جیسے ریاضی، سائنس، اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے ۔ اس طرح، طلباء کو نہ صرف دینی بنیادوں پر مضبوط کیا جاتا ہے بلکہ وہ دنیاوی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔

مولانا نسیم انور ندوی ظل مجدہ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ علم کا مقصد صرف حصولِ روزگار نہیں ہونا چاہیے بلکہ علم کو کردار سازی، تقویٰ اور اخلاقیات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر فاطمہ اکیڈمی میں طلباء کی شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہاں اسلامی اخلاقیات اور شریعت کی روشنی میں بچوں کی تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔

مولانا نسیم انور ندوی ایک انسانیت ساز شخصیت!

مولانا نسیم انور ندوی کی شخصیت اور ان کی فکری بصیرت نے فاطمہ اکیڈمی کو صرف جھارکھنڈ ہی نہیں بلکہ پورے دوستان میں ایک منفرد تعلیمی ادارہ بنایا۔ ان کا عزم اور محنت اس ادارے کی ترقی میں نمایاں ہیں ۔ انہوں نے اپنے علم و حکمت کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا کہ اکیڈمی کے طلباء کو ایسی تربیت ملے جو انہیں ہر میدان میں کامیاب اور دین کے محافظ بنائے۔

ادارے کی خدمات اور مستقبل

فاطمہ اکیڈمی نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک ہزاروں طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے کہیں ڈاکٹر تو کہیں ٹیچر بن کر تو کہیں مبلغہ بن کر معاشرے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس ادارے کی کامیابی کا راز اس کے نظام تعلیم اور اساتذہ کی مخلصانہ محنت میں مضمر ہے۔ یہاں کا ہر طالب علم مولانا نسیم انور ندوی کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تربیت یافتہ ہوتا ہے۔آج نتیجے کے طور پر
فاطمہ اکیڈمی ایک بےمثال ادارہ بن کر کھڑی ہے جس نے اسلامی تعلیمات کو جدید تعلیم کے ساتھ جوڑ کر ایک کامیاب اور بامقصد نظام تعلیم پیش کیا ہے۔ حضرت والا کی محنت اور کوششوں کا ثمرہ ہے کہ یہ ادارہ آج پورے آب وتاب کے ساتھ علم و حکمت کے مینارے کے طور پر قائم ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

از قلم: گلزار احمد ساجد القاسمی خادم مدرسہ صوت القرآن الخیر ایجوکیشنل اکیڈمی توپسیا کولکاتا

Leave a Response