Blog

مجلس علماء جھارکھنڈ و زیر انتظام نوجوانان کمیٹی مانڈر میں ایک مشاورتی نشست بعنوان: اصلاح معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں میں منعقد ہوئ

Share the post

ہر گاؤں میں تعلیم بالغاں کا نظام شروع کیا جاۓ۔ اور مستقل طور پر اس نظام کو بھی مکتب سے جوڑ دیا جاۓ۔

آج بتاریخ 18/اگست بروج اتوار 10/بجے دن ۔ مسجد حرا مانڈر میں ۔ زیر اہتمام مجلس علماء جھارکھنڈ و زیر انتظام نوجوانان کمیٹی مانڈر ۔ ایک مشاورتی نشست بعنوان: اصلاح معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں جناب مولانا صابر حسین صاحب صدر مجلس علماء جھارکھنڈ کی صدارت میں منعقد ہوئ اور مولانا طلحہ ندوی جنرل سکریٹری مجلس علماء جھارکھنڈ نے نظامت کا فریضہ انجام دیا۔

جس میں تقریبا پر کھنڈ کے تمام گاؤوں کے ذمہ دران أئمہ وخطباء اور علاقے کے علماۓ کرام نے شرکت کی اور انہوں نے اپنی قیمتی مشورے سے بھی نوازہ۔

تقریبا 11/بجے دن میں جناب قاری صہیب صاحب کی تلاوت قرآن پاک سے نشست کی شروعات ہوئ۔
جناب مفتی عزیر صاحب مدرس مدرسہ قاسمیہ کی تہمیدی گفتگو ہوئ۔ مولانا نے بڑی مؤثر انداز میں اپنی گفتگو میں شادی بیاہ میں جو غلط رسم رواج پھیلی ہوئی ہیں ان کی نشاندہی کرتے ہوۓ خاتمہ کی تدابیر پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا :آج کل شادی بیاہ میں عورتوں کا عمل دخل کافی حد تک بڑھ گیا ہے اس کو کم کیا جاۓ۔ نکاح کی مجلس مسجد میں ہی منعقد کی جاۓ۔ اور والدین اپنی بیٹی کا نکاح ہر حال میں سنت کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔

مولانا تبریز بخاری ندوی نے اپنا قیمتی مشورہ دیتے ہوۓ کہا :
۔ موجودہ دور میں چونکہ برائیاں کافی گہری جڑیں پکڑیں ہوئ ہیں اور ایک گمبھیر صورت اختیار کر لیں ہیں۔اس لئے اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کر نے کے لئے پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا جاۓ اور مستقل پائداری کے ساتھ ڈٹ کر فلڈ میں کام کیا جاۓ ۔ ۔جب سے دنیا بنی اس وقت سے اب تک ہمیشہ دنیا کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوۓ ان برائیوں کے خاتمہ کے لئے منفی پہلو کے بجاۓ مثبت پہلو اختیار کیے جائیں۔شر اور برائ کے خاتمہ کے لئے سب سے اہم اور مؤثر ذرائع وہی ہیں، جن کا ذکر قرآن اور احادیث مبارکہ میں ہے۔ مثلا :شراب خوری، زنا کاری اورجوا وغیرہ کے خاتمہ کےبارے میں جن اسلوب کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے۔ انہی اسلوب کو اپنایا جاۓ۔ ان برائیوں کے روک تھام کے لئے سخت سے سخت بات کی جاتی ہے۔ یہ تجویز جزباتی کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہے۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جاۓ اس جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سماج کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہو سکتا ہے لیکن محض قانون سے ان کا سد باب نا ممکن ہے۔

مولانا طلحہ ندوی جنرل سکریٹری مجلس علماء جھارکھنڈ نے اپنا اہم مشورہ دیتے ہوۓ فرمایا :موجودہ دور میں نشہ خوری بڑی تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے اس کا سد باب ہر حال میں ضروری ہے انہوں نے کہا : اس کو علماۓ کرام اپنا موضوع بنائیں۔ ہر گاؤوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کمیٹی تشکیل دی جاۓ اور پھر وہ نوجوان اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ۔ مخدرات کے نقصانات کو عملی طور پر ڈرامے یا مسریحہ کی شکل میں عام لوگوں کو بتائیں۔ دیواری پرچے وغیرہ تیار کریں۔ نکڑ، چوک چوراہا، اور اسکول کالج ، عام پبلک پیلس پر اس کو چسپاں کریں۔ آڈیو ویڈیو وغیرہ لوگوں کو دیکھائیں اور اس کی نقصانات کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح سے اور بھی مشورے میں برائ کے انسداد کے لئے جو تدابیر نکل کر سامنے آئیں ہیں انتہائ اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

پر کھنڈ سطح پر جو بھی اصلاحی امور انجام پائینگے وہ مجلس علماء کی سرپرستی اور ہدایات و رہنمائ میں ہوگی۔

نگرانی پر کھنڈ انجمن کی ہوگی۔

پرکھنڈ سطح پر چار زون بنائیں جائیںگے۔ ہر زون کا ایک کنوینر اور ایک معاون کنوینر ہونگے۔
مانڈر پر کھنڈ میں اصلاح معاشرہ کے کنوینر کے طور مولانا نور اللہ حبیب ندوی صدر مانڈر پر کھنڈ و مولانا اشتیاق صاحب مانڈر کا انتخاب عمل میں آیا۔ مجلس نے اصلاح معاشرہ کے عنوان سے ایک مجلہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے ایڈیٹر مولانا شریف احسن مظہری ہوں گے اور معاون ایڈیٹر مفتی عمران ندوی, مولانا تبریز بخاری، مفتی ابو عبیدہ قاسمی، مولانا عبدالمنان اصلاحی ہوں گے۔

۔ ہر مسجد میں درس قرآن کا انتظام کیا جاۓ۔

معاشرے میں پھیلی ہوئ تمام برائیوں کی جب پوسٹ مارٹم کی جاتی ہے تو اس کا ماحصل اور نتیجہ جہالت اور اگیانتا سے جا ملتا ہے۔
یقینا اس ترقی یافتہ دنیا میں تعلیم ہے۔ جگہ جگہ پر اسکولز و کالجج ہیں . ہم اپنے گھروں میں بیٹھے اکسفورڈ کی چھپی ہوئی کتابیں اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں، لیکن تربیت کا پہلوثرے سےمفقود ہے۔

۔ ہر گاؤں میں مکاتب کے جو جال بیچھے ہوۓ ہیں۔ الحمد للہ ہمارے اکابرین نےاسی کام کے لئے قائم کئے تھے۔ مساجد اور مکاتب ہمارے لئے تربیت گاہ ہیں۔

۔آج سے پچاس سال پہلے مکاتب کے جو نصاب اور نظام مرتب کئے گئے تھے ۔ آج بھی اسی پر ہم اکتفا کئے ہوۓ ہیں۔ بمشکل کسی طرح سے قرآن پاک پڑھنا سکھادیا جاتا ہے۔ مکاتب کے نظام اور نصاب کو درست اور ایڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اخلاق، سیرت ،فقہ ، تجوید تاریخ وغیرہ مضامین کو بھی نصاب میں شامل کیا جاۓ۔

۔ ہر گاؤں میں تعلیم بالغاں کا نظام شروع کیا جاۓ۔ اور مستقل طور پر اس نظام کو بھی مکتب سے جوڑ دیا جاۓ۔

۔ہر انجمن میں (بنیادی دینی تعلیم )کو اول درجہ دیا جاۓ۔

۔ہر گاؤں کے غیر شادی شدہ بچے اور بچیوں کو مکتب میں تیار کردہ نصاب کو پڑھنا اور سکھنا لازمی قرار دیا جاۓ۔

۔ان امور کو انجام دینے کے لئے گاؤں میں الگ سے ایک کمیٹی کی تشکیل دی جاۓ۔

۔ بہت سارے گھر کے بچے ایسے ہیں جو مکتب نہیں جانا چاہتے یا پھر ان کے والدین کسی وجہ سے مسجد کا مکتب جانے نہیں دیتے ان کے لئے پر کھنڈ انجمن کے آفس سے اون لائن دینی تعلیم کا آغاز کیا جاۓ۔

۔ عورتوں کے مابین کم سے کم ہفتہ میں ایک دن ہر گاؤں میں تعلیم اور سیکھنے سکھانے کا انتظام لازمی طور پر کیا جاۓ۔

۔ ہر دو یا تین مہینے میں گاؤں میں ایک عام دینی بیداری مہم چلائی جاۓ۔ جس میں چھوٹے موٹے مجلس کا انعقاد کیا جاۓ۔

۔اپنے گھروں میں نفلی عبادتوں اور ذکر و اذکار تعلیم و مطالعہ کے لئے ایک جگہ مختص کیا جاۓ جس سے ایک اچھا ماحول بنے گا۔

۔مساجد صرف نماز کے لئے نہیں بنائ گئ ہیں بلکہ مساجد کے کردار کو دوبارہ بحال کیا جاۓ۔ نکاح، طلاق، حبہ، وراثت نیز ہر طرح کی مسائل کے حل کے لئے مسجد کا انتخاب کیا جاۓ۔

۔ ہر انجمن میں تقریبا ایک بیت المال کا نظام ہے۔ اس کا دائرہ کار کو بڑھایا جاۓ۔ صرف عطیات اور ایصال صواب کی ہی رقم نہیں بلکہ فطرہ، زکاۃ ،عشرہ اور ہر طرح کی صدقات وغیرہ کی رقم کا بھی انتظام کیا جاۓ۔ اور انجمن کے بیت المال سے ہی مدارس مکاتب، غریبوں، ناچاروں و یتیموں اور بیواوں کی مدد کی جاۓ۔
الحمد للہ مجلس بحسن وخوبی جناب صدر کی دعا سے قبل ظہراختتام تک پہونچی۔ اللہ پاک تمام لوگوں کو عمل کی توفیق عطاء فرماۓ۔ اس موقع پر مولانا صابر حسین مظاہری، مفتء طلحہ ندوی، مولانا عبدالحکیم ندوی، مولانا عبدالجلیل، مولانا نوراللہ حبیب ندوی، مولانا ابوالکلام مظاہری، مولانا غازی صلاح الدین مظاہری، مولانا اشتیاق قاسمی، مولانا حسیب الرحمان، مولانا یوسف ملتی، قاری صہیب احمد، مولانا عبدالمنان اصلاحی، مولانا تبریز بخاری ندوی، مفتی عرفان، مفتی عزیز قاسمی انکے علاوہ مختلف پنچایتوں کے ذمہ داران اور علماء موجود تھے۔

Leave a Response