All India NewsBloghealthJharkhand News

سیمانچل، عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب اور قربانی کی داستان

Share the post

بقلم: معراج اشرف

سیمانچل میں اگر آج اویسی صاحب کا نام گونج رہا ہے تو یہ مولانا عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب کی برسوں کی قربانیوں، جدوجہد اور بے مثال محنت کا نتیجہ ہے۔ ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے تنقید، مخالفت اور طعنے برداشت کیے، مگر ایم آئی ایم کے جھنڈے کو کبھی جھکنے نہیں دیا۔ ہر جگہ جا کر سیمانچل کی آواز کو بلند کیا، اس خطے کی عزت و وقار کی حفاظت کی، اور آج اگر ہم بول سکتے ہیں تو اس کی بنیاد انہی نے رکھی۔ یہ صرف جدوجہد نہیں، بلکہ ایک قربانی کی داستان ہے، جس میں دن رات ایک کر کے اپنے علاقے اور لوگوں کی خدمت کو ترجیح دی گئی۔

اگر ٹکٹ نہیں دیا گیا تو دل کا دکھ فطری ہے۔ یہ کہنا کہ انہوں نے لالچ میں آکر پارٹی جوائن کی، سراسر زیادتی ہے۔ وہ گزشتہ آٹھ دس برس سے اسی مشن کے لیے دھکے کھا رہے ہیں، بدنامی سہہ رہے ہیں، اور اس وقت بھی اپنی قوم کے لیے سینہ سپر ہیں۔ ایم آئی ایم کا وجود سیمانچل میں ان کی محنت اور قربانی سے قائم ہوا ہے، یہ حقیقت کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔

ہم اویسی صاحب سے محبت کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ فیصلہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ آج تک اختر الایمان صاحب نے انہیں نظر انداز کیا، اور میں اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کر رہا ہوں۔ کہیں نہ کہیں علماء کے اعتماد اور دل کو ٹھیس پہنچی ہے، اور یہ باتیں قابل فراموش نہیں ہیں۔ اختر الایمان صاحب اندھے، گونگے یا بہرے نہیں ہیں۔ وہ عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب کی خدمت، قربانی اور محنت کو جانتے اور دیکھتے رہے۔ دن رات دنیا نے دیکھا، ہم سب نے دیکھا۔ کم سے کم سوچ سمجھ کے فیصلہ لینا چاہیے تھا، مگر ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی، اور یہ نظر انداز کرنے کی بات نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ ناقابل قبول بھی۔ دوسری دفعہ یہ غلطی دہرائی گئی، اور میں بذات خود اختر الایمان صاحب کے اس فیصلے کو صحیح نہیں سمجھتا۔

ہم اویسی صاحب سے محبت کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، مگر عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب کے لیے ہمارے دلوں میں عقیدت، محبت اور فخر ہے۔ وہ ہمارے بڑے ہیں، ہمارے رہنما ہیں، اور سیمانچل کی شناخت ہیں۔

آج اپنے علاقے کی حالت پر غور کیجیے۔ ہمارا خود بیرنگر، بسہریا اور آس پاس کے گاؤں کی بدحالی کسی سے چھپی نہیں۔ نہ سڑک ہے، نہ اسپتال، نہ ٹرین کی سہولت۔ بچے آکسیجن کے بغیر مر رہے ہیں، مائیں اپنے لخت جگر کھو رہی ہیں۔ نہ صحیح علاج ہے، نہ اسکول، نہ کالج، نہ یونیورسٹی، نہ فیکٹری۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں۔ یہ سب کچھ ہم لوگ پچھلے بیس سال سے دیکھ رہے ہیں، جب سے پیدا ہوئے ہیں، حالات آج تک نہیں بدلے۔

اور آپ پھر بھی کہیں گے کہ آر جے ڈی کو ووٹ دیجئے؟ ذرا بتائیے آر جے ڈی نے کیا کیا؟ لالو نے کیا کیا؟ نتیش نے کیا کیا؟ شہر پٹنہ کے لیے تو بہت کچھ کیا، مگر سیمانچل کے لیے، ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے کیا کیا؟

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا آپ سے نہیں ہو پائے گا، جلد بازی میں فیصلہ لے لیا گیا۔ کچھ یہ بھی بولتے ہیں کہ عبداللہ سالم قمر کے کچھ چمچے شور مچا رہے ہیں۔ پارٹی کا فیصلہ ہم سب کو قبول کرنا چاہیے، یہ باتیں بھی بن رہی ہیں۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں: بھائی، یہ بتائیے کہ جو انسان اٹھ نو سال تک خدمت انجام دے، جو ایک امید کی کرن ہے سیمانچل کے اندر، سیمانچل کو جتنا ہم لوگ جانتے ہیں، اتنے باہر کے لوگ نہیں جانیں گے، کیونکہ ہم نے وہ دن اور حالات دیکھے ہیں، برے دن گزارے ہیں۔

اگر آج بھی حالات اچھے نہیں ہیں، ہر اعتبار سے تعلیم کے لحاظ سے بھی پسماندہ ہیں، تو باہر کے لوگ کیا جانیں گے؟ بہرحال، بہت سارے لوگ بہت ساری باتیں بناتے ہیں۔ بھائی، آپ اتنی محنت کریں گے اور آپ کا دل ٹوٹے گا، تو بتائیں آپ کیا کریں گے؟ بار بار ٹھیس پہنچائی جائے، بار بار پریشان کیا جائے، وہ کام کرنے پر مجبور کیا جائے جو آپ نہیں کر رہے، عزت نفس پر بار بار وار کیا جائے، تو کہاں سے آپ پارٹی میں بنے رہیں گے؟ کہاں دل نہیں دکھے گا؟

میرے کچھ اپنے چاہنے والے، علماء کرام کے گروپ میں، کچھ لوگ عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ ارے بھائی، وہ ایک عالم دین ہیں۔ ان کی خدمت، قربانی اور محنت کے سامنے ہمیں سر جھکانا چاہیے، نہ کہ تنقید۔ ایک عالم دین کم از کم آگے بڑھ رہا ہے، لوگوں کے لیے روشنی بن رہا ہے، تو بجا ہے کہ ہم اس کی آواز بنیں، اس کی حوصلہ افزائی کریں، اور اس کے لیے دعائیں کریں۔

عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب نے سیمانچل کی آواز کو ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچایا۔ ارریہ ضلع کو، جو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، انہوں نے پورے ہندوستان میں معروف کروایا۔ سیمانچل کا تعارف کروایا، سیمانچل کے فنڈنگ اور اہمیت کو اجاگر کیا، اور اس علاقے کی پہچان بنائی۔ ان کی یہ قربانی کی داستان ہر کسی کے لیے سبق ہے۔

یہ سوچ بدلنی ہوگی، یہ رویہ بدلنا ہوگا، تاکہ ہم اپنے علماء کی عزت کریں، ان کی محنت کی قدر کریں، اور سیمانچل کے لیے خدمت کرنے والوں کے ساتھ انصاف کریں۔ عبداللہ سالم قمر چترویدی صاحب صرف ایک فرد نہیں، وہ سیمانچل کی غیرت اور خودداری کی علامت ہیں۔

آخر میں دعا ہے: خدا ایسے لوگوں کو صحیح سمجھ بوجھ دے، روحانی بصیرت اور درستی کی روشنی عطا کرے، تاکہ وہ لوگوں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنیں اور خدمت کا حق ادا کر سکیں۔ آمین۔

والسلام،
معراج اشرف، مقیم حال رانچی

Leave a Response