قربان استاد کی شخصیت کے مختلف پہلو ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343



جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں مختلف خوبیوں اور صلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنالیا تھا ، جن کی شہرت و مقبولیت پورے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی ، انھیں لوگوں میں سے ایک اہم شخصیت ڈورنڈہ رانچی کے رہنے والے جناب محمد قربان استاد کی تھی ، قربان استاد بنیادی طور پر بیلدار محلہ ڈورنڈہ رانچی کے رہنے والے تھے جن کی پیدائش 1895ء میں ہوئی تھی ، بچپن سے ہی بہت تیز طرار واقع ہوئے تھے ، محمد قربان صاحب کئی خوبیوں کے مالک تھے ، جس کی بنیاد پر وہ محمد قربان سے قربان استاد بن گئے اور ” استاد” ان کے نام کا حصہ بن گیا ، وہ اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی قربان استاد کے نام مشہور و مقبول ہوگئے ، وہ دراصل فن سپہ گری ، گھڑسواری ، تلوار بازی ، تیر اندازی ، تیراکی ، پہلوانی کے ماہر تھے ، اس کے دوسری سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہاتھ ، پاؤں کے موچ آ جانے ، ناف کے اکھڑ جانے ، بدن کے کسی بھی حصے کی ہڈی کے بے جگہ ہوجانے اور اعصاب کے ادھر ادھر ہوجانے کی اصلاح بڑی مہارت اور کامیابی کے ساتھ کردیتےتھے ، آج اگر کسی کے ہاتھ پاؤں میں موچ آ جائے ، ہاتھ پاؤں یا کمر کی ہڈی کھسک جائے ، بدن کے کسی حصے کا اعصاب دب جائے تو آدمی ان کی وجہ سے بے چین و پریشان ہوجاتا ہے ، ہڈی اور اعصاب کے ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کرتا ہے ، ڈاکٹر کئی قسم کی جانچ کرواتے ہیں ، جانچ رپورٹ دیکھنے کے بعد علاج کرتے ہیں ،جس پر کافی روپئے خرچ ہوتے ہیں ، مگر قربان استاد مذکورہ تکالیف کو دور کرنے میں اتنے ماہر اور باصلاحیت واقع ہوئے تھے کہ اپنے ہاتھوں سے ہی پکڑ کر اور دبا کر بڑی سے بڑی ہڈی کھسکنے ، ہاتھ ، پاؤں اور گردن کے موچ کو ٹھیک کردیا کرتے ، آدمی کو دوبارہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، لوگ کہتے تھے کہ قربان استاد کے ہاتھوں میں جادو ہے ،
قربان استاد صاحب کے اس فن اور اس خوبی کو ان کے تیسرے لڑکے جناب حاجی محمد اسلام صاحب بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور اپنے والد محترم کی اس وراثت کو قائم رکھے ہوئے ہیں ، قربان استاد صاحب فن سپہ گری کے بھی بہت ماہر تھے ، محرم الحرام کے مہینے میں نوجوانوں کو تلوار بازی اور لاٹھی چلانے کی مختلف طریقوں کی تعلیم دیتے تھے ، انھیں سے سیکھے ہوئے بہت سارے لوگ بعد اپنے اپنے علاقوں کے استاد کہلائے ، قربان استاد صاحب کو شروع سے پہلوانی کا بڑا شوق تھا ، اس کے لئے وہ کثرت سے ورزش کرتے اور پہلوانی کے مختلف ہنر سیکھتے رہے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ رانچی کے مشہور و معروف پہلوانوں میں شمار کئے جانے لگے ، اپنی زندگی میں انھوں نے رانچی اور رانچی سے باہر کئی ضلعوں میں منعقد ہونے والے کشتی اور پہلوانی کے مقابلے میں حصہ لیا اور ہمیشہ کشتی اور پہلوانی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے ،
کشتی اور پہلوانی کا آخری مقابلہ بقول ان کے بڑے لڑکے جناب محمد علاؤ الدین صاحب غالباً 1948- 49 ء میں ڈورنڈہ ہاتھی خانہ میدان میں ہوا تھا جسے دیکھنے کے لئے لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی ، کشتی اور پہلوانی کے اس آخری مقابلے میں بھی قربان استاد صاحب کامیاب ہوئے ، تالیوں کی گڑگڑاہٹ اور ” قربان استاد زندہ باد ” کے نعروں کے ساتھ توصیفی سند اور انعامی رقم سے نوازا گیا ، انعامی رقم کو قربان استاد صاحب نے اسماعیلیہ مؤمن اردوگرلس اسکول کی تعمیر و ترقی میں لگا دیا ، واضح رہے کہ قربان استاد صاحب اسماعیلیہ مؤمن اردوگرلس اسکول کے بانیوں میں سے تھے ، انھوں نے ساری زندگی اسکول کی تعمیر و ترقی میں لگے رہے ،
اسکول سے انھیں ایک جذباتی لگاؤ تھا ، اسماعیلیہ مؤمن اردوگرلس اسکول ہاتھی خانہ ڈورنڈہ کی بنیاد میں قربان استاد صاحب جیسے لوگوں کا خون پسینہ پیوست ہے ، قربان استاد کے انتقال کے بعد ان کے بڑے لڑکے جناب علاؤ الدین صاحب فاونڈر سکریٹری رہے اور اسکول کی تعمیر و ترقی میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے رہے اور ان کے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے میں لگے رہے اور آج بھی لگے ہوئے ہیں ، قربان استاد صاحب کا تعلق انصاری برادری سے تھا اور وہ انصاری برادری میں ایک بڑا مقام اور مرتبہ رکھتےتھے اس لئے وہ رانچی ضلع جمیعۃ المؤمنین کے تاحیات سرپرست رہے ، قربان استاد صاحب کافی زمین و جائیداد کے مالک تھے ،
منی ٹولہ ڈورنڈہ رانچی میں اپنی وسیع وعریض زمین پر کاشتکاری کروانے کے علاوہ جانوروں کی خرید وفروخت اور دودھ کا کاروبار وسیع پیمانے پر کرتے تھے ، سماجی و فلاحی اور اصلاحی کاموں میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے اور کافی دلچسپی لیتے تھے ، غریبوں ، مسکینوں اور معاشی اعتبار سے کمزور لوگوں کی مدد نام و نمود اور دکھاوا کے بغیر کیا کرتے تھے ، ان کی چھوٹے لڑکے جناب محمد رضوان صاحب بتاتے ہیں کہ ڈورنڈہ و رانچی میں ایک بڑا نام و مقام اور مرتبہ رکھنے کے باوجود والد محترم کے اندر کبر و غرور اور انانیت کا کوئی شائبہ نہیں تھا ، قربان استاد صاحب کی سیاسی و سماجی خدمات کے اعتراف میں بطور مجاہد آزادی انھیں رانچی کے کانگریس بھون میں اعزاز سے نوازا گیا تھا ، ان کی سیاسی و سماجی خدمات کے چرچے اور تذکرے رانچی سے پٹنہ تک ہوا کرتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ بہار کے سابق وزیراعلی جناب کرپوری ٹھاکر کسی موقع پر جب رانچی تشریف لائے تو انہوں نے جناب قربان استاد صاحب سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی اور وہ قربان استاد صاحب سے ملنے ان کے گھر ڈورنڈہ تشریف لے گئے اور کافی دیر تک دونوں میں سیاسی و سماجی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی جس کی خبر مقامی اخباروں میں تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ، قربان استاد صاحب ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کے بہت بڑے علمبردار تھے ، ڈورنڈہ بازار کی مرکزی مسجد کے سامنے سے رام نومی کے جلوس گزرنے کو لے کر ہر سال ہندو مسلم کے درمیان تناؤ اور کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی جسے قربان استاد صاحب جیسے لوگ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بغیر کسی اپسی ٹکراؤ کے حل کر لیا کرتے تھے جس سے پولس انتظامیہ کے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا تھا ، قربان استاد صاحب کے سات لڑکے اور دس لڑکیاں تھیں ،
ان کے ایک لڑکے محمد فقیرا اور چار لڑکیاں قربان استاد صاحب کی زندگی میں انتقال کر گئیں ، ان کے مشہور و معروف لڑکوں میں بڑے لڑکے جناب محمد علاؤ الدین صاحب جن کی سماجی خدمات محتاج تعارف نہیں ہیں ، دوسرے لڑکے جناب محمد سرفراز صاحب جو رسالدار شاہ بابا مزار کے تقریبآ تیس پینتیس سالوں تک ایک ذمےدار کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ، تیسرے لڑکے حاجی محمد اسلام صاحب اپنے والد کے فن اور ہنر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ، چوتھے لڑکے محمد روشن صاحب اور پانچویں لڑکے آعظم احمد صاحب سیاست سے تعلق رکھنے کی وجہ کر مختلف سیاسی تحریکوں میں سرگرم رہتے ہیں ، جبکہ سب سے چھوٹے لڑکے محمد رضوان صاحب ڈورنڈہ مؤمن پنچایت سے جڑے ہوئے ہیں اور مختلف سماجی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، قربان استاد صاحب ڈورنڈہ رانچی کے ایک بڑے زمیندار اور بڑے کاروباری تھے اگر وہ چاہتے تو عیش و آرام زندگی گزار سکتے تھے لیکن اتنی بڑی زمینداری اور کاروباری ہونے کے باوجود انھوں اپنی پوری زندگی سیاسی و سماجی خدمات انجام دینے میں گزار دی اور آخرکار 25/ مئی 1992ء کو تقریبآ 106 سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے ، جنازے کی نماز منی ٹولہ قبرستان میں ہوئی جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے ، جنازے کی قاری جان محمد رضوی صاحب نے پڑھائی اور منی ٹولہ ڈورنڈہ کے قبرستان میں نم آنکھوں سے آپ کو سپرد خاک کیا گیا ، اللہ تعالیٰ قربان استاد صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین
