دعوت وتبلیغ کی محنت
مولانا عبدالواجد رحمانی چترویدی
دعوت تبلیغ کی عمومی محنت جو پورے عالم میں رائج ھے مجھے ذاتی طور پر اس سے بڑی محبت ھے میرا تعلق تبلیغی جماعت سے اسی زمانے سے ہے جبکہ میں ابھی طفل مکتب تھا جیسے جیسے ہوش عقل و شعور کے در وا ہوۓ اس میں مزید پختگی آتی گئ میں نے جماعت کے کئ چلے مہینے اور عشرے لگاۓ اجتماعات جوڑ اور دیگر جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کی سعادت بھی فضل الہی سے ملتی رہتی ھے
دعوت تبلیغ کا کام تو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا خاص مقصد ھے انبیاء کرام کی آمد اسی غرض سے ہوتی رہی ھے بھٹکے ہوۓ انسانوں کو صحیح راہ دکھائیں اور انھیں انکے مالک سے جوڑ دیں سلسلہ نبوت کی آخری کڑی حضرت محمد ﷺ ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا مگر دعوت وتبلیغ کا کام جاری رھے گا دنیا کے تمام انسانوں تک دین پہونچاناامت کے علماء اور امت محمدیہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ھے
مروجہ تبلیغی جماعت کے کام آغاز ء میں اس دور میں شروع ہوا جب ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک جسے شدھی تحریک کہتے ہیں زوروں پر تھی شدھی تحریک کے نمائندے کمزور مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسا کرمرتد کر رہے تھے بانئ تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی علیہ الرحمہ نے بڑے اخلاص کے ساتھ مسلمانوں کے ایمان ویقین کو مضبوط کرنےکا بیڑا اٹھایا اور بنگلے والی مسجد بستی حضرت نظام الدین اولیاء سےنکل کر میوات کی بنجر اور شرک بت پرستی بدعات وخرافات میں ڈوبی ہوئی سرزمین سے اس کام آغاز فرمایا اور لوگوں کی خوشامدیں کرکے بنگلے والی مسجد میں لا کر تربیت کرنے لگے اور جماعتوں کی شکل بنا کر گاؤں گاؤں پھر کر دین کی تبلیغ کرنے لگے مولانا الیاس کاندھلوی رح کی اس محنت کو قبولیت حاصل ہو گئ اور انکا یہ مشن کامیاب
ہوا اللہ کے بندے اس سے جڑتے چلے گیے بقول شاعر
اکیلے ہی چلے تھے جانب منزل مگر
راہ رو آتے گیے کارواں بنتا گیا
تبلیغ یہ کارواں پورے ملک میں پھر تا رہا اور نام کے مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنانے کی سعی کرتا رہا ھے
اس کارواں کو پھرتے ایک صدی کا عرصہ گذر گیا اس یک صدی میں دنیا بڑے نشیب وفراز ہوۓ منظر بدلا طوفا آۓ زلزلوں نے اسکی جڑوں کو کمزور کرنے کی انتھک کوشش کی لیکن
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے مصداق تبلیغ یہ کارواں ہر اک طوفان کا رخ موڑ کر زلزلوں کو عبور کرتے ہوۓ آگے بڑھتا رہا اور ہر ایک دل میں ایمان کی شمع روشن کرنے کی فکر میں آگے بڑھتا رہا
اس میں جو کوئی شامل ہوتا رہا اسکا مقصد اللہ کی خاطر اپنا مال اپنا وقت اپنی صلاحیت کو قربان کرنے کی نیت سے ہی شامل ہوتا رہا ھے یہاں تو انھیں ہی اجازت ھے جو اپنے تمام چیزیں قربان کرنے کا جذبہ دل میں پالے ہوۓ ہیں جنھیں زندگی سے مال و متاع سے پیار ہو اس�