All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

صلاحیتیں جو کام نہ آسکیں (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

اب تک میں نے رانچی کے دو درجن سے زائد نام بنام ایسی شخصیتوں کا تعارف اور ان کی خدمات کا مختصر تجزیہ پیش کیا ہے جنہیں ان کی سیاسی ، سماجی ، فلاحی اور دینی خدمات کی بنیاد پر آج بھی یاد کیا جاتا ہے ، لیکن کچھ صاحب حیثیت لوگ ایسے بھی ہوئے اور ہیں جنھوں نے اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو مسلم معاشرے کے لئے بہت کچھ کر سکتے تھے جس سے ان کی ذات کو بھی فائدہ ہوتا اور معاشرے کو بھی فائدہ پہنچتا ، کہتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں جب اتا ہے تو خالی ہاتھ آتا ہے اور جب جاتا ہے تو خالی ہاتھ جاتا ہے ، انسان اپنی پیدائش کے وقت نہ تو کوئی مادی سامان لے کر آتا ہے اور نہ ہی کوئی مادی ساماں لے کر دنیا سے جاتا ہے ، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ” انسان خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ جائے گا ” جبکہ سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ انسان جب اتا ہے تو اپنی قسمت لے کر آتا ہے ، تقدیر الہٰی کے فیصلے لے کر آتا ہے اور جب اس دنیا سے جاتا ہے تو ایمان و عمل اور اخلاق و کردار ساتھ لے کر جاتا ہے ، انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کا جو زمانہ ہے وہی اس کی زندگی کا اصل سرمایہ اور اصل پونچی ہے، اسی کے درمیان انسان اپنی مختلف صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے انسانی معاشرے کو یا تو بہت فائدے پہنچاتا ہے یا پھر نا تلافی نقصان پہنچاتا ہے ، انسانی معاشرے میں اکثریت ہمیشہ عوام کی ہوتی ہے اور خواص کی تعداد عوام کے مقابلے میں کم ہوتی ہے ، لیکن یہی خواص کے طبقے نے ہمیشہ عوام کی کسی نہ کسی صورت میں خدمت کی ہے ، ایک بادشاہ کو پوری رعایا کا خیال رکھنا پڑتا ہے ، ایک امام اپنے تمام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے ، اللہ نے جنہیں علم و ہنر ، تقریر و تحریر ، بیاں و خطابت ، زبان و ادب ، مال و دولت ، فکر و نظر ، حکمت و دانائی اور قیادت و رہنمائی کی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے ، ایسے ہی لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اپنی مختلف صلاحیتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ ، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہو ، مثلآ علم و ہنر والوں کو حکم ہے کہ اپنے علم و ہنر سے دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ ، تقریر و تحریر اور بیان و خطابت کی صلاحیت رکھنے والوں کو حکم ہے کہ بلا کسی خوف و طمع اور کسی کی لعنت و ملامت کی پرواہ کئے بغیر تمہارے ذریعے ہمیشہ حق اور سچائی سامنے اتی رہنی چاہئے ، اللہ کا دین قرآن و حدیث کی روشنی میں امت کے سامنے صاف صاف اور واضح طور پر بیان کرتے رہو ، مال و دولت والوں کو حکم ہے اپنے مال و دولت کی زکواۃ و فطرات اور صدقات و عطیات کے ذریعے فقیر ، مسکین ، یتیم ، بیوہ ، قرض دار ، مجبور اور پریشان حال غریب انسانوں کی مدر کرو اور اپنی جان و مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہو ، اسی طرح فکر و نظر ، حکمت و دانائی اور قیادت و سیادت کی صلاحیت رکھنے والوں کو حکم ہے کہ عوام کی صحیح رہنمائی کرو ، معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیشہ آگے رہو اور اپنی دولت خرچ کرو ، بخالت اور کم ہمتی سے کام نہ لو ، کہیں تمہاری موقع پرستی ، مفاد پرستی اور خود غرضی پر مبنی غلط سیاسی و سماجی رہنمائی کے ذریعے لوگ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس نہ کریں ، مختلف شہروں میں جن میں خصوصیت سے رانچی بھی شامل ہے کئی ایسے لوگ ہوئے اور آج بھی ہیں جنھوں نے اپنے مال و دولت ، دینی و دنیاوی علوم و فنون اور اپنی قیادت و رہنمائی کے ذریعے معاشرے کے لئے بہت کچھ کیا اور آج بھی کر رہے ہیں جس کی بنیاد پر رانچی کی عوام آج بھی ان کی خدمات کو یاد کرتی ہے ، جیسے حسین کچھی کے والد قاسم عمر کچھی اور دادا ہارون عمر کچھی صاحب نے رانچی ، لوہردگا اور پرولیا ضلع میں اسکول اور مدرسہ کے لئے اپنے ذاتی خرچ سے بلڈنگ اور کمرے تعمیر کروائے جس سے لوگ آج بھی فائدہ حاصل کر رہے ہیں ، اسی طرح جناب حبیب الرحمن خان بہادر صاحب نے اردو لائبریری کے لئے زمین وقف کی جہاں آج ملت اکیڈمی کی عمارت کھڑی ہے ، اپنی اہلیہ کے نام سے تسلیم مسجد کی زمین وقف کی ، انجمن پلازہ مارکیٹ کے پیچھے رحمانیہ مسافر خانہ کے نام سے زمین وقف کی اور مسافر خانہ تعمیر کروایا ، اسی طرح ظہور علی اور رمضان علی صاحب سابق ایم ، ایل، اے ، جو نظام علی اور امتیاز علی کے والد اور دادا ہیں جنھوں نے اپنی قیادت و رہنمائی سے عوام کو فائدہ ہی پہنچایا ہے ،انھوں نے اپنے سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کے ذریعے کبھی قوم و ملت کا سودا نہیں کیا ، رانچی کے سابق اہم ، ایل ، سی اور منجھے ہوئے سیاست دان اور انصاریوں کے رہنما امانت علی انصاری نے بنڈو میں ” امانت علی انٹر کالج” قائم کیا ہوا ہے جس سے عصری علوم کا فیض جاری ہے ، رانچی کے اربا میں جناب حاجی عبد الرزاق انصاری صاحب مرحوم کے لڑکے جناب منظور انصاری اور جناب سعید انصاری صاحب بڑے پیمانے پر اپنی ذاتی محنت و کوشش سے ٹریننگ کالج اور معیاری کینسر ہوسپیٹل چلا رہے ہیں ، اسی طرح رانچی کے جناب ایم سعید صاحب نے انجمن اسلامیہ رانچی کے صدر منتخب ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی اپنی دولت کے ذریعے انجمن اسلامیہ اور انجمن اسلامیہ اسپتال اسپتال اور شہر و مضافات کے دوسرے بہت سارے تعلیمی و فلاحی اداروں اور تنظیموں کی مدد کی ہے اور کرتے رہتے ہیں ، ہر موقع پر غریبوں ،مسکینوں اور ضرورت مندوں کا مالی تعاون کیا اور آج بھی کر رہے ہیں ، ہند پیڑھی میں اپنی ذاتی زمین پر اپنے خرچ سے ” رانچی پبلک اسکول ” قائم کیا جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے ، اسکول کے پیچھے اپنی زمین پر اپنے ذاتی خرچ سے انٹر کالج کے لئے عالیشان چار منزلہ عمارت بن کر تیار کرایا ہے ، رانچی کے نیوری بستی کے رہنے والے جناب عبد الحسیب انصاری صاحب رانچی کے اوینا علاقے میں اپنی بیس ایکڑ زمین میں صاحب شاہین گروپ کے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب اور نوجوان تعلیمی اسکالر محمد ولی رحمانی کی نگرانی و سرپرستی میں اپنی بیس ایکڑ زمین میں میڈیکل اور انجنئیرنگ کالج بنا رہے ہیں ، جو مسلم معاشرے میں اعلی معیاری تعلیم کی کمی کو کسی حد تک پوری کرے گا ان شاءاللہ ، لیکن آئینے کا دوسرا رُخ اور دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ دوسرے شہروں کی طرح رانچی شہر و مضافات میں بھی ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اللہ نے بے انتہا مال و دولت فہم فراست ، عقل و شعور اور قیادت و رہنمائی کی صلاحیتوں سے نوازا ہے لیکن انھوں نے اپنی بے انتہا مال و دولت اور زمین و جائیداد کے ہوتے ہوئے معاشرے کے لئے ایک پرائمری اسکول یا ایک چھوٹا سا مکتب اور ایک چھوٹا سا کلینک بھی عوامی مفاد میں قائم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے فکر و نظر اور قائدانہ صلاحیتوں سے معاشرے کا کوئی بھلا ہوا ہے اور نہ ہونے والا ہے ، کیونکہ نہ ذہن میں وسعت ہے اور نہ دل میں مفاد عامہ کے لئے جگہ ہے ، ایسے لوگوں نے ہمیشہ ہمارے بزرگوں کے قائم کردہ اداروں اور تنظیموں میں بڑی چالاکی سے گھس کر اور عہدہ و منصب کی کرسی میں بیٹھ کر عوامی شہرت و مقبولیت حاصل کی ہے ، ایسے صاحب حیثیت لوگوں نے پہلے بھی اور آج بھی سماجی و فلاحی اداروں ، تنظیموں اور پنچایتوں کو اپنی شہرت و مقبولیت کے حصول کے لئے بطور زینہ استعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں ،پورے ملک میں عیسائی کمیونٹی کے لوگ تقریبآ دو فیصد ہیں لیکن ان کے مالداروں اور صاحب حیثیت لوگوں نے پورے ملک میں معیاری ہاسپیٹل اور اسکول کا جال بچھا دیا جہاں پڑھنے اور علاج کرانے میں لوگ اطمینان محسوس کرتے ہیں ، آر ، ایس ، ایس ، کے لوگوں نے اپنے مالداروں اور صاحب حیثیت افراد کے ذریعے پورے ملک میں ڈی ، اے ، وی ( D , A , V ) اسکول قائم کر کے عیسائی مشنریوں کے ذریعے چلائے جارہے اسکولوں سے اپنے بچوں کو بڑی حکمت و دانائی سے نکال لیا اور ان کے لئے ڈی ، اے ، وی ، اسکولوں کا متبادل کھڑا کردیا جبکہ ہم مسلمان اپنے بچے اور بچیوں کو اپنے معاشرے کے بڑے بڑے مالداروں اور صاحب حیثیت لوگوں کے ہوتے ہوئے معیاری مسلم اسکول قائم نہ کرنے کی وجہ سے عیسائی مشنریوں اور آر ، ایس ، ایس ، جیسے کثر ہندو تنظیموں کے ذریعے چلائے جارہے معیاری اسکولوں میں پڑھنے اور پڑھانے کے لئے مجبور ہیں ، ہمارے مسلم معاشرے کی سب سے بڑی خوبی یا خرابی یہ ہے یہاں بہت سارے لوگ سماجی رشتوں اور سماجی سرگرمیوں سے بالکل الگ رہ کر پہلے بے شمار مال و دولت کماتے اور جمع ہیں اور جب وہ بے انتہا مال و دولت کے مالک بن جاتے ہیں تب وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو جانیں ، ان کو شہرت و مقبولیت حاصل ہو اور ان کی شخصیت پر شہرت و مقبولیت کے چار چاند لگ جائیں ، اس کے لئے وہ مسجد ، مدرسہ جیسے مذہبی اداروں اور مختلف سماجی و فلاحی اداروں اور تنظیموں میں زبانی جمع خرچ کے ذریعے دلچسپی دکھانے لگتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بنا کر کر مسلمانوں کے اداروں اور تنظیموں میں عہدہ و منصب حاصل کرکے جھوٹے خواب دکھانے لگتے ہیں ، معاشرے کے ایسے بڑے بڑے لوگ اداروں اور تنظیموں کے عہدے و کرسی میں بیٹھ کر بے انتہا مال و دولت ، فکر و نظر ، رفتار و گفتار اور قائدانہ کردار و صلاحیت رکھنے کے باوجود نہ تو عوامی فلاح و بہبودی کا کوئی کام کر پاتے ہیں اور نہ ان اداروں اور تنظیموں کا ہی بھلا کر پاتے ہیں جن کے ذریعے انہیں شہرت و مقبولیت اور ذاتی فائدے حاصل ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے امراء اور صاحب حیثیت طبقے کے مسلمانوں پر بڑی ذمےداریاں عائد کی ہیں اگر وہی طبقہ مسلم معاشرے کی تعلیمی ، سیاسی ، سماجی ، فلاحی اور مذہبی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھے گا تو کون رکھے گا ؟ معاشرے کے ایسے لوگوں کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ” صلاحیتیں جو کام نہ آسکیں ،

Leave a Response