صاحب کرامت بزرگ حضرت مولانا پیر عرفان مظاہری چشتی قادری اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے
جنازے میں ہزاروں کا جم غفیر، نم آنکھوں کے ساتھ لوگوں نے حضرت کا آخری دیدار کی.
گڈا جھارکھنڈ
ضلع گڈا کے صاحب کرامت بزرگ شیخ طریقت عارف باللہ حضرت مولانا پیر عرفان صاحب مظاہری چشتی قادری نور اللہ مرقدہ و ادام فیوضہ نے جس محبوب حقیقی کی یاد میں مستغرق رہ کر اپنے جسم و جان کو فنا کر رکھا تھا بالآخر اس محبوب نے حضرت کو اپنے گھر بلا لیا، اور حضرت قدس سرہ ہزاروں مریدین، محبین، متعلقین،منتسبین خلفاء کرام اور اعزہ و اقارب کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون،
حضرت کی طبیعت کوئی بہت زیادہ ناساز بھی نہیں تھی، معمولی سردی کھانسی تھی، البتہ کچھ نقاہت و کمزوری تھی، جمعہ کی نماز پڑھ کر آءے اور قبل اس کے کہ کھانا کھاتے، کچھ دیر آرام کے لئے لیٹے تو رحمت کے فرشتے ہمیشہ آرام کے لئے ان کو لے گئے، رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ،.
یہ خبر تمام محبین و متعلقین اور بطور خاص مریدین کے دلوں پر بجلی بن کر گری، جس نے بھی سنا آنکھیں اشک بار ہو گئیں کہ اچانک یہ کیا اور کیسے ہوگیا، لیکن چونکہ یہ فیصلے منجانب اللہ ہوتے ہیں، جس طرح نبی کا جب کام مکمل ہو جاتا ہے تو اللہ پاک ان کو اپنے پاس بلا لیتے ہیں اسی طرح جب کسی ولی کا کام ہو جاتا ہے تو اللہ پاک ان کو اپنے پاس بلا لیتے ہیں، حضرت پیر طریقت کا مشن تھا اصلاح و تزکیہ کا اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کا، بحمد اللہ جب تک اللہ نے چاہا تو خلق خدا کی ایک بڑی تعداد ان سے استفادہ کرتی رہی، اور جب تک اللہ کو منظور ہوگا ان کے فیوض و برکات سے دنیا مستفید ہوتی رہے گی، ان شاء اللہ. حضرت کے بیس سے زائد خلفاء ہیں جو یوپی، کرناٹک آندھرا، تلنگانہ، کرناٹک، بہار، جھارکھنڈ اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ سب حضرت کے مشن کو آگے بڑھاتے رہیں گے.
.حضرت قدس سرہ شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید تھے اور مولانا شاہد صاحب ،مولانا طلحہ صاحب مولانا زبیر صاحب اور مولانا احمد گورا کے درسی ساتھیوں میں سے تھے، ان کی پیدائش 1951 میں ہوئی، انھوں نے کافیہ قدروری تک کی تعلیم مدرسہ رحمانیہ جہازقطعہ سے حاصل کی، جہاں مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی شرف تلمذ حاصل کیا، اور حضرت والا ان کے خاص شاگرد تھے، 1970 میں مظاہر علوم سہارنپور سے فراغت حاصل کی، اور فراغت کے فوراً بعد مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ سے بیعت ہوءے،انھوں نے مختلف مدرسوں میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا، اور کہیں پر انتظامی فرائض بھی انجام دئیے، جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ کے ناظم عمومی کی حیثیت سے بھی کافی خدمات انجام دیں، احسان و سلوک کی لائن میں ان کا بڑا اونچا مقام تھا، اس لائن میں انھوں نے کافی مجاہدات و ریاضات کئے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ اللہ کی خصوصی عنایت ہوئی، حضرت کی باطنی پاکیزگی کو دیکھتے کئی اولیاء کرام و بزرگان دین نے آپ کو خلعت خلافت عطا کی، چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی کے سلسلے سے مولانا عبد اللہ فاضل نے اور مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی کے سلسلے سے حضرت حکیم نسیم الدین نے اسی طرح مولانا عبد المجید اور قاری نعمت اللہ صاحب نے آپ کو خلافت و اجازت سے سرفراز کیا ،وہ اخلاص، سادگی اور شیریں بیانی کے پیکر تھے، اللہ کی یاد میں ہمیشہ مستغرق رہتے، شہرت و ناموری کو پسند نہیں کرتے تھے، ہہی وجہ ہے کہ صاحب کرامت بزرگ ہونے کے باوجود ان کی کرامات ان کے خلفاء و مریدین کے حلقوں تک محدود رہیں، بیس سے زائد ان کے خلفاء ہیں اور مریدین کی ہزاروں تعداد ہے جو ملک کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھتی ہے، الغرض حضرت کی ذات سے خلق خدا کی بڑی تعداد فیضیاب ہو رہی تھی ، ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی وطن جھارکھنڈ کے ضلع گڈا کی معروف بستی جہازقطعہ میں ادا کی گئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی. جنازہ میں ایک بڑا جم غفیر تھا جس میں علاقہ کے تمام مشاہیر علماء کرام شامل تھے نیز حضرت قدس سرہ کے بہت سے خلفاء کرام مولانا بشیر الدین صاحب پاکوڑ مولانا شفیق قاسمی کٹیہار ، جناب عبد السبحان صاحب آندھرا ماسٹر عبد القدوس اربا رانچی ،مولانا عثمان صاحب پاکوڑ، فیض احمد صاحب کشن گنج مولانا اویس صاحب مظاہری بھاگلپور،کمال الدین صاحب اربا رانچی وغیرہ وغیرہ شریک تھے، جنازہ کی نماز حضرت پیر طریقت کے فرزند و جانشین مفتی محمد سفیان قاسمی نے پڑھائی، حضرت کی توجہات کا مرکز خانقاہ عرفانیہ جہاز قطعہ گڈا میں قرآن خوانی کی گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے