Jharkhand News

ایک با صول ، ایماندار اور صاحب خیر تاجر کا انتقال، از _ آفتاب عالم ندوی

Share the post

 

از _  آفتاب عالم ندوی 
کلکتہ کے حاجی اسماعیل
 صاحب تمباکووالےکو ھندوستان میں دینی وملی کام کرنے والا شائد ہی کوئی ایسا ہو جو انہیں نہ جانتا ہو ، آج  17/مئی چار بجے صبح بیماریوں سے لڑتے ھوئے پچھتر سال کی عمر میں انہوں نے جان جان آفریں کے سپرد کرد ی ، سب کو اللہ ہی کے  پاس جانا ھے ، 
 مسلمانوں میں  بہتیرے  ہیں جنہیں اللہ نے دنیاوی خوشحالی و مادی ترقیوں سے  نوازا ہے لیکن ان میں کتنے  ہیں جو آخرت میں بدلہ پانے ، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اللہ کے کنبہ کو بغیر کسی دنیوی فائدہ کے نفع پہنچانے کے لئے خرچ کرتے ہیں ، سو میں ایک بھی نہیں ، یہانتک کہ زکاہ جس کا ادا کرنا فرض ھے کتنے لو گ حساب کرکے نکالتے ہیں ، آج ہرجگہ کے مسلمان ایمانداری سے صرف زکاہ نکال دیں تو کمزور مسلمانوں اور دینی تعلیمی و ملی اداروں کی پریشانی دور ھوجائے ، کسی ادارہ کو باہر جانیکی ضرورت نہ پڑے ، لیکن افسوس کہ ایک انتہائی قلیل تعد اد ہی زکوٰۃ نکالتی ہے ، پورے ملک کے مدارس و جامعات کی دل کھول کر جس طرح  حاجی صاحب مرحوم مدد کرتے تھے اس سے محسوس ھوتاھیکہ زکوٰۃ کے ساتھ عطیات سے بھی تعاون کیا کرتے تھے ، بہت سے اہل خیر صرف مشہور اور بڑے اداروں ہی کو معقول تعاون کرتے ہیں  یا جو لوگ کسی بڑی سفارش سے پہنچتے ہیں یا  جو لوگ ذاتی تعلقات بنالیتے ہیں صرف  وہی لوگ فیض یاب ہوپاتے ہیں لیکن حاجی اسماعیل کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا حاجی صاحب کی تعلیم معلوم نہیں کہاںتک تھی لیکن تھے بڑے ذہین اور معاملہ کی تہ تک پہنچنے میں انہیں دیر نہیں لگتی تھی ، صاف گو ،حق گو تھے ، وہ گھما پھراکر بات کرنے کے قائل نہیں تھے ، جامعہ ام سلمہ کا انکے یہاں چندہ نہیں تھا ، چند سال پہلے ایک صاحب سے جو اپنے ادارے کیلئے گئے ھوئے تھے ام سلمہ کا ذکر کیا انہوں نے مجھ سے بات کروائی ، حاجی صاحب ام سلمہ کو پہلے سے  جانتے تھے کیونکہ  انکے قریبی لو گوں کی  بچیاں ام سلمہ میں پڑھ چکی تھیں ،  بات ہونے کے بعد ھم نے ایک صاحب کو بھیجا اور اس طرح ام سلمہ کیلئے انکا تعاون شروع ہوا ، اسکے بعد اپنے عزیز کے یہاں دھنبادآئے تو میرے غائبانہ میں مدرسہ بھی  آئے ،  ہاسٹل اور اکیڈمک کیمپس کا معائنہ کیا اور   خوش ھوئے ، 
گذشتہ رمضان سے پہلے بائی روڈ گھر جاتےوقت مدرسہ سے قریب ہوٹل  شان پنجاب سے فون کیا کہ کہاں ہیں ، میں نے بتایا مدرسہ میں ہیں ، کہنے لگےھوٹل شان پنجاب میں آئیے ، ساتھ میں کھانا کھائیے ، ھم نے پہنچتے ہی کہا کہ آپ مدرسہ آجاتے ، ساتھ میں خواتین ہیں ، نماز کیلئے بھی  
مدرسہ میں سہولت ہوتی ، کہنے لگے آئندہ سفر میں انشاء اللہ ، اسکے بعد وطن  ویشالی کے سفر کے بجائے آخرت کا سفر ہوگیا جس سے کسی کو مفر نہیں ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سفر کی پہلے سے تیاری کر تے ہیں ، ابھی رمضان میں فون آیا کہ آنے کی ضرورت نہیں ، ھم ام سلمہ کا بھیجوا دے رھے ہیں ، اور انہوں نے اپنے ایک عزیز کے ذریعہ بھیجوا دیا ، 
ملک کے بیشتر اکابرین ملت سے انکے  تعلقات تھے ، انکا تعلق کسی ایک حلقہ تک محدود نہیں تھا ، ،
اگرچہ انکی رہائش اور کاروبار کلکتہ میں تھا لیکن وطن اور علاقہ سے انکا رشتہ  مضبوط  تھا ، شادی بیاہ کے فضول رسم ورواج اور لین دین کو ختم کرنے اور سماج کی اصلاح  کیلئے باقاعدہ ایک تنظیم کی سرپرستی کرتے تھے ، ایک مدرسہ بھی چلا رہے تھے ، آج 18/مئ کو اس مدرسہ کا جلسۂ دستار بندی ھے  ،  اسکے بعد حاجیوں کی ٹریننگ کا پروگرام تھا ، اور 21مئی کو غریب اور مالی اعتبار سے کمزور لڑکیوں کی اجتماعی شادی کی تقریب تھی ، اس تقریب کی خصوصیت  یہ ہیکہ مسلم لڑکیوں کے ساتھ  ضرورت مند غیر مسلم لڑکیوں کی بھی اس میں  شادی ہوتی ھے , ان تمام پروگراموں میں حاجی صاحب کو شریک ہونا تھا ، ٹکٹ بنا ہوا تھا ، لیکن قدرت نے دنیا میں آنے سے پہلے ہی 17/مئی بروز بدھ بوقت فجر کا  کنفرم ٹکٹ  بنوا دیا تھا ، یہ ساری تقریبات  طے شدہ پروگرام کے مطابق انکے محبوب بھائی  حاجی محمود صاحب کی سرپرستی میں  انجام پائینگی  ،بس حاجی صاحب نہیں ہونگے ، بعض پیسے والے خود تو دین دار اور ملی کاموں سے دلچسپی لیتے ہیں لیکن بچے انکے نقش قدم پر نہیں ھوتے ہیں ، لیکن حاجی صاحب کے بچے اور برادران دین پسند اور علماء کی عزت کرنے والے ہیں ، انتہائی غربت اور انتہائی مالداری میں اولاد کی اچھی تربیت بڑی مشکل ہوتی ھے ، حاجی صاحب اس دشوار کام کو انجام دینے میں کامیاب رہے ، حاجی محمود صاحب کو ہمیشہ انکے ساتھ پایا ،  میں نے ان سے  کل عرض کیا کہ آپ دونوں ایک شعر کی مانند تھے ،‌ اب صرف ایک  مصرعہ باقی رہ گیا ھے ، اللہ انہیں صحت وعافیت اور سلامتی کے ساتھ تادیر باقی رکھے ، روایتی دینی تعلیم نہ ھونے کے باوجود  حاجی محمود صاحب کے قلم سے کئ مفید کتابیں   نکلیں اور علماء سے بھی داد تحسین وصول کی ، 17/مئی دوپہر کے وقت نیو گوبراایک نمبر قبرستان میں حاجی صاحب کو سپرد خاک کیا گیا ، اور انکے بھائی حاجی محمود صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی ، پٹنہ ، ویشالی ، دھنباد ، معماری ، جیسے دور دراز علاقوں سے اہل تعلق جنازہ میں شریک ھوئے ، راقم کو اگر چہ قدرے تاخیر سے خبر ملی  لیکن حسن اتفاق ایک لیٹ ٹرین مل گئی اور جنازہ میں شرکت ھوگئی ، جنازہ میں وطن سے تشریف لائے معروف صاحب قلم عالم مولانا ثناء الھدی صاحب  قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ، مولانا قمر عالم ندوی ویشالوی  سے ملاقات ہوئی ، ھر آدمی کو  مغموم  اور انکی تعریف میں رطب اللسان پایا ،‌اللہ حسنات  کو قبول کرتے ہوئے  حاجی صاحب  کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے ،‌ انکی قبر کو جنت کا باغ بنادے , حاجی صاحب صحیح معنوں میں ایک چشمۂ خیر تھے ، اللہ انکے نیک کاموں کا بھر بدلہ عطاء کرے 
پسماندگان  اہلیہ محترمہ ، بیٹے نوشادعالم ، ارشاد عالم اور بھائی حاجی محمود صاحب ، حاجی اسرائیل صاحب ، بھتیجے خالد محمود ، ساجد محمود ، محمد شاھد ، محمد زاہد اور دھنباد کے اعزاء میں  غلام غوث صاحب وغیرہ کو اللہ صبر جمیل عطاء  کرے ، اورانہیں  حاجی صاحب  کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے،،
آفتاب ندوی ام سلمہ جھارکھنڈ 
18/مئی 2023
8002300339 واٹس اپ

Leave a Response