وقف کانفرنس میں پرسنل لاء بورڈ اور جھارکھنڈ کے نمائندگان کو نظرانداز کرنا افسوس ناک: مولانا الیاس مظاہری


امارت شرعیہ کے زیرِ اہتمام پٹنہ میں منعقد ہونے والی وقف کانفرنس پر جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے دینی حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ مولانا محمد الیاس مظاہری نے ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کانفرنس میں جھارکھنڈ کی نمائندگی کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، جو ایک افسوس ناک اور غیر منصفانہ رویہ ہے۔

مزید برآں، مولانا مظاہری نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے اہم اور مرکزی دینی ادارے کو بھی اس کانفرنس میں نظرانداز کیے جانے پر سخت حیرت و افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو بورڈ کے کسی سرکردہ ذمہ دار کو مدعو کیا گیا، اور نہ ہی اسٹیج پر بورڈ کے کسی بزرگ رکن کی موجودگی دکھائی دی۔ یہ طرزِ عمل اس بات کا عکاس ہے کہ کانفرنس میں باہمی مشاورت، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور وسیع تر نمائندگی کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا گیا، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔

مولانا محمد الیاس مظاہری کے مطابق کانفرنس میں جھارکھنڈ کے کسی اہم اور سرگرم عالمِ دین یا ادارہ جاتی نمائندے کو اظہارِ خیال کا موقع نہیں دیا گیا، صرف رسمی طور پر ایک آدھ شخص کو شامل کر کے نمائندگی کا دکھاوا کیا گیا۔ حالانکہ یہ ادارہ باضابطہ طور پر بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ تینوں صوبوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر امارت شرعیہ واقعی جھارکھنڈ کی بھی نمائندہ ہے، تو وقف جیسے اہم اور نازک مسئلے پر جھارکھنڈ کے اہل علماء، وکلا، یا متحرک افراد کو گفتگو کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں ہماری آواز شامل نہیں تھی، ہمارے مسائل شامل نہیں تھے، اور نہ ہی ہمارے ماہرین کی شرکت یقینی بنائی گئی۔

مولانا محمد الیاس مظاہری نے کانفرنس کے انعقاد اور شرکاء کی تعداد پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس بڑے اجتماع کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، وہ زمینی حقیقت سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھیڑ واقعی وقف کے مسائل سے سنجیدہ تھی یا پھر محض ایک تاثر قائم کرنے کے لیے جمع کی گئی تھی؟ اصل مسائل پر کتنی گفتگو ہوئی، یہ سب کو معلوم ہے۔

مولانا مظاہری نے پچھلی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس وقت سیاسی روابط کے ذریعے ایک ایم ایل سی سیٹ پکی کروائی گئی تھی، جس کی قلعہ کھل جانے کے بعد انہیں بڑی سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس بار کیا سودا طے پایا ہے؟ کیا یہ کانفرنسیں اب سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی سرگرمیاں امارت شرعیہ جیسے باوقار ادارے کی غیرجانبدارانہ حیثیت کو متاثر کرتی ہیں، اور عوام کے اعتماد کو متزلزل کرتی ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ جھارکھنڈ میں کئی اہل، دیانت دار اور دینی معاملات پر گہری بصیرت رکھنے والے علماء موجود ہیں۔ ان کو مسلسل نظرانداز کرنا صرف ناانصافی ہی نہیں، بلکہ جھارکھنڈ کی علمی فضا کے ساتھ زیادتی ہے۔ کیا یہاں کے علماء وقف جیسے بنیادی اسلامی ادارے پر اظہار خیال کے قابل نہیں؟ یا پھر پہلے سے طے شدہ اسٹیج پر صرف خاص افراد کو ہی جگہ ملتی ہے؟
مولانا محمد الیاس مظاہری نے کہا کہ کانفرنس کا مرکزی موضوع وقف تھا، لیکن اس کے زمینی اور پیچیدہ مسائل پر کھل کر کوئی بات نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وقف کی زمینیں قابضین کے نرغے میں ہیں، وقف بورڈ تقریباً غیر فعال ہے، اور وقف کی آمدنی کا حساب کتاب مبہم ہے، لیکن ان مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے رسمی تقاریر پر اکتفا کیا گیا۔

جھارکھنڈ کے علمی و سماجی حلقے اس رویے سے خود کو سخت ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ادارے سے جو خود کو تین ریاستوں کا نمائندہ کہتا ہے، اس طرح کی یک طرفہ اور متعصب روش کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ مقامی علماء اور کارکنان نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انہیں صرف تماشائی بنا کر رکھ دیا گیا۔ کانفرنس میں جھارکھنڈ کی حقیقی آواز غائب رہی، اور جو انداز اپنایا گیا وہ باہمی اعتماد کے منافی ہے۔ عوامی شرکت اور معنوی اثرات کے اعتبار سے بھی یہ پروگرام کل ملا کر فلاپ ہی ثابت ہوا، جس نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے محض “شکتی پردرشن” کی کوشش نظر آئی، اور یہ کوشش بھی بری طرح ناکام ہوتی نظر آئی۔
