All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

میرے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951443)

Share the post

جو قوم اپنی تاریخ ، اپنے اکابرین کے کارناموں ان کی ہمہ جہت خدمات کو فراموش کر دے تو اس قوم کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں سے کسی قسم کے ایسے کارنامے کی امید نہیں کی جاسکتی ہے جس سے معاشرے میں تبدیلی اور سماجی برائیوں کے خلاف حیرت انگیز انقلاب پیدا ہو جائے ، جبکہ آج سے چالیس پچاس سال قبل اسی رانچی شہر و مضافات میں ایسی شخصیتیں گزری ہیں جن کی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی اور مذہبی خدمات آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ، جنہوں نے اپنی ہمہ جہت خدمات اور کارناموں سے اپنے اپنے علاقوں میں ایک مثال قائم کر دیا تھا، ایسی ہی ایک مٹالی شخصیت رانچی سے دس کلومیٹر دور کیدل بستی کے جناب مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جو میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب کے والد اور میرے دادا تھے جن کی پیدائش 1910عیسوی کو بی ، آئی ، ٹی میسرا کے قریب واقع کیدل بستی میں ہوئی تھی ، ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار گلزار میاں سے حاصل کی ، آپ کا گھرانہ شروع سے صوم و صلوٰۃ کا پابند ایک دیندار گھرانہ تھا ، مولویت کی تعلیم بہار کے گیا ضلع کے ایک مدرسہ غالباً سراج العلوم سے حاصل کیا تھا ، معلوم نہیں اب وہ مدرسہ آج قائم اور باقی ہے بھی یا نہیں ؟ میرے دادا پورے علاقے میں مولوی عبد الرحمن کے نام سے مشہور و معروف تھے ، کسی زمانے میں اہل علم کو “ملا ” کہا جاتا تھا ، جیسے ملا علی قاری ، اورنگزیب عالمگیر کے استاد”ملا جیون رحمۃ اللّٰہ علیہ ” اس کے دینی تعلیم حاصل فیضیاب کو “مولوی” کہا جانے لگا جیسے مولوی اسماعیل دہلوی ، وغیرہ ، اب تو کسی عالم دین کو ” ملا ” اور “مولوی ” کہہ دیا جائے تو اپنی توہیں سمجھے گا اور اسے اپنے لئے گالی خیال کرے گا ، تعلیم سے فراغت کے بعد میرے دادا کی شادی رانچی کی مشہور و معروف مسلم بستی اربا کے بہت ہی مشہور و معروف زمیندار عہدار خاندان میں ہو گئی ، اس اعتبار سے اربا رانچی میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ننھیال تھا ، ان کے ننھیالی رشتےدار آج بھی عہدار خاندان میں موجود ہیں ، میرے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ بنیادی طور پر ایک کسان تھے ، خود کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ، اس کے علاوہ کپڑا بننے کا کام بھی کیا کرتے تھے ، ھر ہفتہ بدھ کے دن کیدل سے پیدل چل کر رانچی اپر بازار میں ان کپڑوں لا کر فروخت کرتے ، اس اعتبار سے میرے دادا کسان بھی تھے اور تاجر بھی تھے ، میرے دادا کے چار بھائی تھے ، ان چاروں بھائیوں میں میرے دادا سب سے بڑے تھے ،

مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے چاروں دادا کی زمینیں مشترکہ تھیں ، کبھی زمین و جائیداد کے بٹوارے کا جھگڑا نہیں ہوا ، چاروں دادا کے درمیان زمین و جائیداد کا بٹوارہ بہت بعد میں ہوا ہم پوتوں کے ہوش وحواس میں ہوا اور کسی بھی قسم کا کبھی کوئی آپسی اختلاف و انتشار ان کے درمیاں پیدا نہیں ہوا ، آپسی اتحاد اور بھائی چارگی کی کسی زمانے میں ہمارے خاندان اور بزرگوں کی روایت اور پہچان تھی جو اب کہیں نہیں رہی الا ما شاءاللہ ، اب تو شہر و قریہ ھر گھر میں زمین و جائیداد کے بٹوارے کو لے کر آپسی اختلاف و انتشار ہے اور آپس میں ہی مار پیٹ اور مقدمہ بازی ہورہی ہے اور مسلمان ہی اپنا مال ودولت خرچ کر کے ایک دوسرے کو مٹانے اور برباد کرنے میں مصروف ہے ، جس دور میں میرے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دینی تعلیم حاصل کی اس دور میں جھارکھنڈ کے علاقے میں عام طور پر حافظ ، قاری ، عالم اور مفتی کا وجود آج کی طرح کثرت سے نہیں ہوا کرتا تھا ، کہیں کہیں کسی مسلم بستی میں خال خال کوئی حافظ یا مولوی ہوا کرتا تھا تو اس پورے علاقے کے لئے بہت غنیمت تھا ، ایک حافظ رمضان المبارک کے مہینے میں دو دو یا تین تین جگہ تراویح پڑھاتا تھا ، باقی علاقوں میں کسی طرح سورہ تراویح لوگ پڑھ لیتے تھے ، بعض علاقوں میں تو صرف روزہ رکھ لینا ہی کافی سمجھا جاتا تھا ، میرے دادا بتاتے تھے کہ بے دینی اور دین سے دوری کی وجہ کر لوگ جمعہ کی نماز بھی پورے طور پر نہیں پڑھتے تھے ، ایسے لوگوں کو جمعہ کی نماز سے رغبت دلانے کی خاطر جمعہ کی نماز کے بعد شیرنی کے نام سے گڑ تقسیم کیا جاتا تھا ، اس شیرنی کی وجہ سے لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے آتے تھے ، میں نے اپنے بچپن میں کیدل بستی میں جمعہ کے بعد شیرنی کے نام پر گڑ تقسیم کرنے کا وہ دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، ایک دن میں نے اپنے دادا سے پوچھا تھا کہ دادا آخر اس دور کے مسلمان نماز روزہ چھوڑ کر اتنا مطمئن ہوکر زندگی کیسے گزارتے تھے تو میرے دادا نے بتایا تھا کہ بیٹا اس میں بھی ان نادان مسلمانوں کو پیری مریدی کے نام پر گمراہ کرنے کے بڑے مجرم اور ذمےدار جاھل پیر ہی تھے جنھوں نے پیری مریدی کے وقت ان جاھل مسلمانوں سے کہہ رکھا تھا کہ کل تمہارا پیر جنت میں تنہا نہیں جائے گا بلکہ اپنے مُریدوں کو ساتھ لے کر جائے گا ، جاھل پیروں کی پھیلائ ہوئی یہ بدعقیدگی آج بھی ان علاقوں میں رائج ہے جہاں جہالت و بے دینی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے ، میرے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ساری زندگی کیدل بستی میں جمعہ اور پنج وقتہ نماز کی امامت وخطابت کی ذمےداری بلا کسی معاوضہ اور تنخواہ کے اس وقت تک نبھاتے رہے جب تک میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب سہارنپور سے اپنی دینی تعلیم مکمل کر کے نہیں آگئے ، اپنے زمانے میں میرے دادا ہی پورے علاقے کی دینی رہنمائی اور دینی خدمات انجام دیتے رہے ، پورے علاقے میں میرے دادا کو بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، ہندو اور مسلمان سب آپ کی بہت قدر کیا کرتے تھے ، ساری زندگی ہندو مسلم اتحاد قائم رکھنے اور پورے علاقے کو ہمیشہ آپس میں متحد رکھنے میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا تھا ، میرے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ بتاتے تھے کہ دین اور دینی تعلیم سے دوری کا یہ عالم تھا کہ بہار اور اتر پردیش کے علاقوں سے آئے جاھل پیروں کا ہر سال جھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں دورہ ہوتا تھا ، وہ اس علاقے کے مسلمانوں کی جہالت و بے دینی اور دینی تعلیم سے دوری کا بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے ، جہالت کا یہ عالم تھا کہ مسلمان عام طور پر بسم اللّٰہ پڑھ کر جانور ذبح کرنا نہیں جانتے تھے کیوں کہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو نسلی اور خاندانی مسلمان نہیں تھے بلکہ ان کے باپ دادا نے صوفیاء کرام اور اولیائے عظام کی دعوت و تبلیغ اور ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا نہ کہ قرآن و حدیث کی کتابیں پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا ،

ایسے مسلمانوں کی بے دینی اور جہالت فائدہ اٹھا کر جاھل پیر انھیں ان کی چھریوں میں ” بسم اللّٰہ” پڑھ کر اور پھونک کر دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ سال بھر میری ” بسم اللّٰہ ” پڑھی ہوئی اسی چھری سے ہر قسم کے جانور ذبح کرنا ،جاھل مسلمان پیر کی عقیدت و محبت میں مست پیر کی ” بسم اللّٰہ ” پڑھی ہوئی چھری سے سال بھر اپنے چھوٹے بڑے جانور ذبح کرتے تھے ، اگلے سال جاھل پیروں کا دورہ پھر ہوتا اور چھریوں میں پڑھی ہوئی” بسم اللّٰہ” کی تجدید کر کے چلے جاتے ، بدلے میں نذر ونیاز کے نام پر دولت بٹور کر لے چلے جاتے تھے ، میرے دادا بتاتے تھے کہ جہالت و لاعلمی اور جاھل پیروں کے ذریعے پھیلائی گئی بد عقیدگی اور شرک و بدعت کا زھر مسلم معاشرے میں تب تک چلتا رہا جب تک کہ جھارکھنڈ میں بھی مکاتب و مدارس کا جال قائم نہیں ہوگیا اور علماء و حفاظ کی کثیر تعداد ان مکاتب و مدارس کے ذریعے پورے علاقے میں پھیل نہیں گئی ، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت و تبلیغ کے کام نے تو جاھل پیروں کے ذریعے پھیلائی گئی شرک و بدعت کی ہوا ہی نکال دی ، دعوت و تبلیغ میں نکل کر اور وقت لگا کر اب مسلمان پیر کی بسم اللّٰہ پڑھی ہوئی چھری سے نہیں بلکہ اپنی چھری سے خود بسم اللّٰہ پڑھ کر جانور ذبح کرنے لگے لیکن جھارکھنڈ کے بعض علاقوں میں ان جاھل پیروں اور مولویوں کے دام فریب سے سیدھے سادے جاھل مسلمان اب بھی نکل نہیں پارہے ہیں ، میرے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ بتایا کرتے تھے جھارکھنڈ کا یہ پورا علاقہ آدی واسیوں کے علاقے سے مشہور و معروف تھا ، ھر گاؤں اور بستی میں مسلمان آدی واسیوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے کی وجہ سے ان کی تہذیب و تمدن میں گھل مل گئے تھے ، اکثر و بیشتر علاقوں میں مشترکہ تہذیب و تمدن کو اختیار کرنے کی وجہ سے پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا کہ ان میں کون مسلمان ہے اور کون عیسائی یا سرنا آدی واسی غیر مسلم ؟ یہی وجہ تھی کہ مجاھد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد انگریزی حکومت کے ذریعے نظربند ہو کر 1916ء میں جب رانچی ائے اور انھوں نے یہاں کے مسلمانوں کی زندگیوں کو قریب سے دیکھا تو انھیں اس بات کو سمجھتے دیر نہیں لگی کہ مسلمانوں کی بدتر زندگی کی اصل وجہ اور سبب تعلیم سے دوری ہے ،
اس جہالت اور بے دینی کو دور کرنے کے لئے ہی مولانا آزاد نے رانچی میں اپنی چار سالہ نظر بندی کے دوران اپر بازار رانچی میں ” مدرسہ اسلامیہ” قائم کیا تھا اور مسلمانوں کو متحدہ سماجی زندگی سے جوڑے رکھنے کے لئے ” انجمن اسلامیہ رانچی” جیسا ایک پلیٹ متحدہ فارم دیا ، یہ دونوں ادارے مولانا آزاد کے خواب تھے جسے بعد کے لوگوں نے اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی کے ہتھوڑے سے چکنا چور کردیا ، مسلمانوں کی جہالت و بے دینی اور جاھل پیروں کی پیری مریدی کے ضمن میں یہ باتیں ضمنا آگئیں ، میرے دادا بتایا کرتے تھے کہ دینی و دنیاوی تعلیم سے دوری کی وجہ کر مسلمان آدی واسیوں کی طرح اپنے مکان کی زمین گائے اور بھینس کے گوبر سے لیپا کرتے تھے جو ناپاک ہے ، آدی واسیوں کی صحبت میں رہنے اور ان کی تہذیب و تمدن اختیار کرنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر مسلمان بھی ھڑیا ( مقامی گھریلو شراب) پیا کرتے تھے ، میرے دادا نے اپنے علاقے میں ان سماجی برائیوں کو دور کرنے میں بڑی محنت و کوشش کی ہے ، وہ بتاتے تھے کہ جب تمہارے والد مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب مظاہر علوم سہارنپور سے تعلیم حاصل کر کے ائے تو انھوں اس پورے علاقے سے بدعات و رسومات کو ختم کرنے میں بہت محنت و مشقت سے کام کیا ہے ، اس پورے علاقے میں تمہارے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب ، حضرت مولانا قاری محمد علیم الدین قاسمی صاحب اور حضرت مولانا محمد اختر حیسن مظاہری صاحب رحمہم اللہ کی دینی زمین ہموار کی ہوئی ہے جس کے بعد ہی مکاتب و مدارس کے قیام کا راستہ ہموار ہوا اور دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑنے کا عوامی مزاج پیدا ہوا ، میرے دادا زراعت و تجارت کے ساتھ ساتھ پوری زندگی علاقے کے مسلمانوں کی دینی و دنیاوی رہنمائی کرتے رہے ، بات چیت میں بہت نرم اور اخلاق کے بہت بلند تھے ، میں نے اپنے دادا کو کسی پر غصہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب کے اندر بھی میرے دادا کی یہ صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ، اگر یہ کہا جائے کہ میرے والد کے اندر دادا کا عکس جھلکتا تھا تو غلط نہ ہوگا ، میرے دادا کے صرف تین لڑکے تھے ، سب سے بڑے میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب اور دوسرے الحاج مولوی بشارت حسین صاحب جن کا انتقال ہو چکا ہے ، تیسرے لڑکے مولوی محبوب عالم صاحب ہیں
جو میرے چھوٹے چچا ہوئے، الحمداللہ ابھی بقیدِ حیات ہیں ، میرے چھوٹے چچا جناب مولوی محبوب عالم صاحب نے بھی کیدل بستی میں برسوں جمعہ کی امامت وخطابت کی ذمےداری نبھائی ہے ، میرے دادا کا انتقال پچانوے سال کی عمر میں 2005ء میں ہوا ، جنازے کی نماز میں پورے علاقے کے لوگ کافی بڑی تعداد میں جنازہ پڑھنے آئے تھے ، جنازہ کی نماز میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب نے پڑھائی اور آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اس خوش خبری کے مستحق دونوں باپ بیٹے ہوئے جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” بڑا خوش نصیب ہے وہ میت جس کی نماز جنازہ اس کا ولی یا اس کا وارث پڑھا دے”
ہمارے دادا مولوی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ کی صحت و تندرستی کا عالم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تھا کہ پچانوے سال کی عمر میں بھی آنکھوں میں چشمہ لگانے کی نوبت نہیں آئی اور نہ ہی منھ کے دانت جھڑے تھے ، اللہ کے فضل و کرم سے چلتے پھرتے موت آئی اور بڑے ہی اطمینان قلبی کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، اللہ تعالیٰ میرے چاروں دادا ، میرے والد اور میرے چچاؤں کی مغفرت فرمائے اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ان حضرات کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطاء فرمائے آمین ، اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل و کرم ہے کہ چار پیڑھیوں سے ہمارے خاندان میں علم دین حاصل کرنے والے مولوی ، عالم ، حافظ ، قاری اور مفتی ہوتے چلے آرہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ راہ ہدایت پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہماری نسلوں میں دین کو باقی رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ثم آمین

Leave a Response