All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

سدا بہار اور خوش مزاج ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی شخصیت (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343)

Share the post

جو قوم اپنی تاریخ اور سماج میں مختلف خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک شخصیتوں کو فراموش کر دیتی ہے جنھوں نے معاشرے میں مختلف جہات سے اپنی خدمات انجام دی ہیں تو اس قوم کے ہونہار افراد کی تاریخ اور ان کے کارناموں کو مٹانے کا سبب کوئئ اور نہیں بلکہ ہم خود ہوتے جارہے ہیں ، ایسے ہی ایک ہونہار ، سدا بہار اور خوش اخلاق و خوش مزاج شخصیت ڈاکٹر جناب عبد القدوس صاحب مرحوم کی تھی جنہوں نے اپنے ڈاکٹری کے پیشہ کو آج کے اکثر و بیشتر ڈاکٹروں کی طرح مال و دولت جمع کرنے اور مریضوں کو مختلف طریقوں سے لوٹنے کا ذریعہ نہیں بنایا تھا ، اس زمانے کے ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ساتھ اپنے گھر کے افراد کی طرح پیش آتے تھے اور مریضوں کا آدھا مرض ڈاکٹر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی سے ہی دور ہو جاتا تھا ، ڈاکٹری کا پیشہ کسی زمانے میں بہت ہی مقدس اور قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا ، اپنے مریضوں کے تئیں لوگ اللہ کے بعد ڈاکٹروں کے علاج و معالجے پر بھروسہ اور یقین رکھتے تھے ، غیر مسلموں نے تو ڈاکٹروں کو بھگوان کا درجہ دے رکھا تھا

، ڈاکٹر عبد القدوس صاحب رانچی شہر کے ایسے ہی ایک خوش اخلاق ، خوش مزاج اور مریضوں کے اعتبار و یقین پر کھرا اترنے والے سدا بہار ڈاکٹر تھے جو کڈرو رانچی کے رہنے والے تھے اور ان کی ڈسپینسری ( کلینک) مین روڈ میں جناب محمد صابر صاحب مرحوم کی بلڈنگ میں کرانے کی مشہور و معروف دوکان گپتا بھنڈار کے نزدیک اور اے ، ڈی ، پال ٹیلر کے بالکل سامنے تھی ، انھیں کے بغل میں رانچی کے ایک اور مشہور و معروف ڈاکٹر سنہا کی بھی ڈسپینسری ( کلینک) تھی ، دونوں ڈاکٹر کی ڈسپینسری مشہور زمانہ (بوس ) جناب صابر صاحب مرحوم کی بلڈنگ کے نیچے ہوا کرتی تھی ، اس زمانے میں عام طور پر سب سے بڑی بیماری ٹائفائیڈ تھی جس میں تیز بخار مہینوں رہا کرتا تھا جس کی وجہ سے ڈائفائیڈ کا مریض مسلسل بخار کی اور اس کی شدت کی وجہ سے کمزور ہو جایا کرتا تھا اور اس کے سر کے بال جھڑ جایا کرتے تھے ، دوسری بڑی بیماری ٹی ، بی ، تھی ، اس بیماری میں مبتلا مریض سے گھر کے سارے لوگ اسی طرح دوری بنائے رکھتے تھے جس طرح کرونا کی بیماری میں مبتلا مریض سے ہم نے دوری بنائے بنائے رکھا تھا تاکہ یہ بیماری پھیل نہ جائے ، پورے رانچی میں ڈاکٹر عبد القدوس اور ڈاکٹر سنہا ہی دو ایسے مشہور و مقبول ڈاکٹر تھے جن کے علاج سے مریضوں کو چند ہی دنوں میں شفاء حاصل ہو جاتی تھی ، اس زمانے میں دوا کی شیشی میں کاغذ کی کٹی ہوئی خوراک کی نشان لگی ہوئی گلابی رنگ کے پینے کی دوا دی جاتی تھی جس کے پینے سے تیز بخار ، سردی کھانسی ، دست (لوزموشن) اور دوسری کئی بیماریاں دور ہوجاتی تھیں ، آج کی طرح کسی بھی قسم کی کوئی جانچ نہیں ، ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی کلینک میں مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی ، ان کی عادت تھی کہ وہ مریض سے بیماری اور اس کی کیفیت پوچھنے سے پہلے کچھ ہنسی مذاق کرلیا کرتے تھے تاکہ مریض ڈاکٹر سے مانوس ہو جائے اور کھل کر اپنی تکلیف ڈاکٹر کے سامنے بیان کر سکے ، گویا یہ ایک نفسیاتی طریقہ تھا جسے ڈاکٹر عبد القدوس صاحب بری پابندی اور بڑے اھتمام کے ساتھ اپنائے ہوئے ہوتے تھے

، آج کل کے ڈاکٹر تو مریض سے سیدھے منھ ذیادہ بات چیت کرنا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں ، تھوڑا بہت مزاح و تفریح کے بعد ڈاکٹر عبد القدوس صاحب مریض سے پوچھتے کہ کیا کھا لیا تھا کہ بیمار ہوگئے ، اتنا الٹا سیدھا کھانے کی کیا ضرورت تھی کہ دست(لوزموشن) جاری ہوگیا ، اتنا باہر کیوں گھومتے ہو کہ سردی کھانسی ہو گئی وغیرہ وغیرہ ، ایک مرتبہ ایک خاتون مریضہ اپنا علاج کرانے ائی تو ڈاکٹر عبد القدوس صاحب نے اس خاتون سے اس کا نام پوچھا ، اس نے اپنا نام ” مدینہ خاتون” بتایا ، نام سنتے ہی ڈاکٹر صاحب نے اس خاتون سے کہا کہ مجھے تو اپنے کلینک میں ہی مدینہ کی زیارت یوگئی ، پھر اس سے کہا کہ مہینے میں ایک دو بار آجایا کرو تاکہ مجھے مدینہ کی زیارت ہوتی رہے ، وہ خاتوں بھی ذہین تھی ، اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کہ مدینہ میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے ائی ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی مریض کے ساتھ بے تکلفی بہت مشہور تھی ، یہی وجہ ہے کہ مریض ڈاکٹر عبد القدوس کے یہاں جانے اور اپنا علاج کرائے میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا ، مرض کی پوری تشخیص کے بعد ڈاکٹر صاحب وہی خوراک کے نشان والی شیشی میں گلابی دوا پینے کے لئے دیتے تھے اور تاکید کرتے تھے کہ دوا پابندی سے پینا ، مریض آخر میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا ہے تو ڈاکٹر عبد القدوس صاحب ہر ایک مریض سے یہی کہتے کہ مجھے چھوڑ کر سب کچھ کھاؤ ، ان کا یہ جواب بہت مشہور و معروف تھا ، جب بھی کوئی مریض ان کی کلینک میں علاج کے لئے آتا تھا تو ڈاکٹر عبد القدوس صاحب اس مریض سے تھوڑا بہت مزاح و تفریح کرلیا کرتے تھے مثلاً نام پوچھتے ہی اس کی مناسبت سے کچھ مزاح کرلیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ ایک خاتون مریضہ اپنا علاج کرائے کے لئے ائی تو ڈاکٹر صاحب نے اس خاتون سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام ” مدینہ خاتوں” بتایا ، مدینہ نام سنتے ہی ڈاکٹر صاحب نے اس خاتون سے کہا کہ مجھے تو اپنے کلینک میں بیٹھے بیٹھے مدینہ کی زیارت ہوگئی ، دوا دینے کے بعد اس خاتون سے کہا کہ مہینہ میں ایک دوبار آجانا تاکہ مجھے مدینہ کی زیارت ہوتی رہے ، وہ خاتون بھی بڑی ذہین تھی ، اس نے ڈاکٹر عبد القدوس صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ مدینہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک اور درست رہے ، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اللہ تمہیں ہمیشہ تندرست رکھے ،

ڈاکٹر صاحب کے علاج کا یہ نفسیاتی طریقہ تھا جو بہت مؤثر تھا اور جسے ڈاکٹر صاحب بڑی پابندی اور اھتمام کے ساتھ اپناتے تھے ، آج کل کے ڈاکٹر تو مریض سے سیدھے منھ ذیادہ بات چیت کرنا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں ، ڈاکٹر صاحب مریض سے اس کی کیفیت پوچھنے اور وہی کاغذی خوراک لگی ہوئی گلابی رنگ کی پینے کی دوا دیتے تھے جسے پی کر مریض شفایاب ہو جاتا تھا ، آج کل کی طرح کسی بھی قسم کی کوئی جانچ نہیں ، مریض کا آدھا مرض تو ڈاکٹر صاحب کی خوش اخلاقی و خوش مزاجی اور ان کے طریقہ علاج سے ہی دور ہو جاتا تھا ، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ رانچی کے جتنے پولس اور سپاہی ہوا کرتے تھے وہ سب ڈاکٹر عبد القدوس صاحب سے ہی علاج کرایا کرتے تھے ، اسی رانچی شہر کے سکھ مذھب کے مرد و عورت اور جوان و بوڑھے سب ڈاکٹر عبد القدوس صاحب سے علاج کراتے تھے ، ڈاکٹر عبد القدوس صاحب صحیح معنوں میں ایک نیک اور شریف طبیعت کے مسلمان ڈاکٹر تھے ، صوم و صلوٰۃ کے بہت پابند تھے ، علماء و ائمہ مساجد اور بزرگوں کی بہت قدر کیا کرتے تھے ،
میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب سے ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کے بہت گہرے مراسم و تعلقات تھے ، ہمارے گھر میں جب بھی کوئی بیمار پڑتا تو سیدھے ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کے پاس لے جاتے تھے ، ان کے علاج و معالجے اور ان کی دوا سے الحمداللہ ٹھیک بھی ہو جاتے تھے ، ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کے متعلق ایک دلچسپ روایت بہت مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص ایمبیسیڈر کار میں آیا اور اپنے مریض کو گھر جاکر دیکھنے اور علاج کرنے گزارش کی ، ڈاکٹر صاحب اس شخص کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ گئے ، کافی دور جانے کے بعد ایک ندی ائی جس کنارے گاڑی رک گئی ، ڈاکٹر صاحب نے اس شخص سے پوچھا کہ مریض کہاں ہے ، اس شخص نے ندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہے اور پھر وہیں سے کافی دنوں بعد واپس ائے ، اس کے بعد سے ہی ان کی کلینک میں لوگوں کا آنا جانا کم ہونے لگا ، جناب صابر صاحب جب اپنی نئی عمارت بنانے لگے تو ڈاکٹر عبد القدوس صاحب اور ڈاکٹر سنہا کو خالی کرا دیا ، ڈاکٹر عبد القدوس صاحب مین روڈ پر واقع صابر صاحب کے مکان سے اپنی کلینک سنٹرل اسٹریٹ ہند پیڑھی رانچی لے گئے ، اس کے بعد تو ڈاکٹر صاحب بیمار رہنے لگے اور کلینک میں بیٹھنا بھی دھیرے دھیرے چھوڑ دیا ، لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسی جناتی واقعہ کا اثر تھا ، جن کے اٹھا کر لے جانے کا واقعہ کتنا صحیح ہے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ، جس طرح یہ واقعہ میں نے سنا اسی طرح جس لوگوں سے بھی میں نے اس واقعہ کی تصدیق چاہی تو ایک نے یہی کہا کہ میں نے بھی سنا ہے ، واللہ اعلم باالصواب

Leave a Response