حضرت مولانا اختر حسین المظاہری کی وفات پر تعزیتی جلسہ منعقد


حضرت مولانا اختر ایک اچھے مہتمم کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ہمدرد قوم ملت تھے: قاری اشرف الحق
رانچی ( عادل رشید) درجنوں مدرسہ کے سرپرست نیز مدرسہ عالیہ عربیہ کانکے پتراٹولی کے مہتمم حضرت مولانا اختر حسین المظاہری کی وفات پر آج 24 مئی 2025 کو مدرسہ عالیہ عربیہ کانکے احاطہ میں زیر اہتمام حضرت مولانا قاری اشرف الحق المظاہری کی صدارت میں تعزیتی جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ حضرت مولانا اختر ایک اچھے مہتمم کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ہمدرد قوم ملت تھے۔ آپ بہت ہی نرم گفتار تھے، آپ کے اندر سمندر جیسا سکوت اور پہاڑ جیسی بلندی تھی۔

پروگرام کے آغاز میں حضرت مولانا منصور عالم نے تمام شرکاء کا استقبال کرتے ہوئے مولانا اختر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے مولاناکی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ مولانا کی تدریس کا اسلوب بہت جاذب اور اچھا تھا جسے ہم بھلا نہیں سکتے۔ تعزیتی جلسے کا آغاز قاری مظفر حسین کے تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ نعت نبی مدرسہ کے فارغین امارت شرعیہ کے مفتی داؤد نے پڑھی۔ تعزیتی نظم حضرت قاری صہیب احمد مدرس مدرسہ عالیہ عربیہ نے پڑھی۔ جب قاری صہیب احمد نے پڑھا کہ” حضرت اختر ہمارے درمیاں سے کھو گئے، دین کے جو پاسباں تھے آج رخصت ہوگئے۔ خوبصورت خوب سیرت، تھے بڑے ہی با کمال، گفتگو تھی نرم جتنی تھے بڑے ہی بے مثال”

۔مدرسہ ہٰذا کے نایب مہتمم حضرت مولانا قاری اشرف الحق المظاہری نے اپنے تعزیتی کلمات میں اپنے مظاہر العلوم کے زمانہ طالب علمی کا تذہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا محمد اختر علیہ الرحمہ ایک مشفق دوست تھے۔ 63 سال ہو گیا ہم اور مولانا اختر ساتھ ساتھ تھے۔ مکتب سے لیکر مدرسہ اور مدرسہ سے لیکر اب تک ساتھ رہے۔ اب مولانا اختر صاحب جو اپنے ساتھ لیکر چلتے، نیک مشورہ دیتے اب وہ ہمارے بیچ نہ رہے۔ اللہ انکو کروٹ کروٹ جنت الفردوس دے۔ وہیں حضرت مولانا صابر موہنپوری صدر مجلس علماء جھارکھنڈ نے کہا کہ حضرت مولانا اختر حسین رحمۃ اللہ علیہ نے درس وتدریس کے ساتھ مختلف سماجی خدمات انجام دیتے رہے۔ جنھیں ہمیشہ یاد کیا جائے کا، آپ نے مولانا سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا علیہ الرحمہ کی شخصیت بڑی ہر دلعزیز شخصیت تھی اس کا اندازہ آپ کی نماز جنازہ میں ازدحام سے لگایا جاسکتا ہے۔

وہیں کانگریس کے سینیر لیڈر منظور احمد انصاری اربا نے اپنے تعزیتی کلمات میں مولانا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی حیثیت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سایہ کی جیسی تھی، آپ ایک اچھے استاذ اور قائد اوربہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اپنے استاذ کا عزت واحترام کرنا ہے۔ وہیں سابق ضلع کونسلر عین الحق انصاری نے کہا کہ مولانا اختر صرف دو بیٹا کو چھوڑ کر نہیں گیے بلکہ ہزاروں لڑکا کو چھوڑ گئے ہیں۔ وہیں حضرت مولانا مفتی عمران ندوی نے کہا کہ کتابی شکل میں حضرت کے سوانح کو مرتب کیا جاے۔ ملت اسلامیہ نے ایک مجاہد کھویا ہے۔ وہیں حضرت مولانا سمیع الحق المظاہری نے کہا کہ وہ بچوں کے اندر ہمت و طاقت پیدا کرتے تھے۔ وہیں مولانا عبدالمنان اصلاحی نے کہا کہ مولانا اختر تنہاایک انجمن تھے۔ حاجی معظم نے کہا کہ مولانا اختر کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہیں حضرت مولانا مفتی طلحہ ندوی نے کہا کہ ہر لحاظ سے انکی خدمات نمایا ہے۔

وہیں مولانا فیروز نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ فراغت کے بعد مولانا علیہ الرحمہ نے مجھے جو نصیحت کی تھی وہ اب بھی یاد ہے، آپ اخلاق، تواضع و خاکساری کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ پتراٹولی کے باشندگان سے انہوں نے درخواست کی کہ آپ حضرات اگر حضرت رحمۃ اللہ کے علوم و فیوض برکات باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ہر گھر سے حافظ عالم اور قاری بنانے کے لیے اپنے بچوں کو داخل کراے۔ وہیں مولانا شہاب الدین نے مولانا اختر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کے اندر تحمل اور بڑی ایمانداری تھی، آپ سادگی کو پسند فرماتے تھے۔ وہیں حضرت کے صاحبزادے مولانا مکرم نے کہا کہ میرے والد محترم حضرت مولانا اختر صرف دین کے لیے کام کیا۔ مولانا نے گھر مکان دھن و دولت پر دھیان نہیں دیا بلکہ دینی تعلیم کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ وہیں حضرت مولانا امتیاز قاسمی نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوں حضرت کی زیر نگرانی کی بنیاد پر ہی ہوں۔ حضرت نے پوری زندگی مدرسہ کے ترقی کے لیے مصروف رہے۔ ہم 13 لوگوں سے ہی فارسی اور جلالین شروع ہوی۔ اس موقع پر حضرت مولانا قاری اشرف الحق المظاہری، مولانا صابر موہنپوری، مولانا فیروز قاسمی، قاری عبدالرؤف، مولانا طلحہ ندوی، مولانا منصور عالم مظاہری، مولانا شہاب الدین مظاہری، مولانا احمد حسین قاسمی، مولانا مصطفی، قاری خالد سیف اللہ، مولانا معین، مولانا شہامت حسین، مفتی طلحہ ندوی، مفتی محمد اللہ قاسمی، مولانا محمد فاروق، قاری صہیب احمد نعمانی، مفتی داؤد، مولانا مرتضی، قاری مظفر، مولانا مکرم، عین الحق انصاری، منظور انصاری اربا، فیروز انصاری اربا، حافظ عبدالحسیب، مفتی معزالرحمان، مفتی محمد عمران ندوی، مولانا عبدالمنان اصلاحی، حافظ عبدالقدوس، حافظ محمد عرفان، حاجی محمد اصغر، محمد احمد حسین، مولانا محمد امتیاز، مولانا مظفر اوینا، مولانا خالد، قاری منور جمشید پور، مولانا سمیع الحق، قاری مجیب اللہ، مولانا ساجد اللہ سمیت سینکڑوں لوگ تھے۔
