تنظیم علمائے اہل سنت ضلع لاتیہار کی نشست کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر


بتاریخ 27 اپریل 2025 بروز اتوار 10 بجے دن دارالعلوم قادریہ جمال رضا انصار نگر کرکٹ لاتیہار میں تنظیم علماء اہل سنت ضلع لاتیہار کے زیر اہتمام ایک اہم نشست وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاجی صورت کی تشکیل کے لیے دانشوران اور معزز شخصیات کے درمیان منعقد ہوئی جس کی صدارت مخیر قوم وملت جناب شمس الہدیٰ صاحب نے فرمائی۔

جس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مفتی محمد محسن اعظم امجدی صاحب نے کہا کہ آج ملک کے جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم وبربریت ہو رہا ہے اس کے تدارک کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات انہوں نے کہا کہ ہمیں منظم، تعلیم یافتہ، اور بیدار ہونا ضروری ہے۔
اج موجودہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے انتھک کوششیں کی جا رہی ہیں۔کبھی اذان اور نماز پر پابندی کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی مساجد و مدارس خانقاہوں اور درگاہوں پر بلڈوزر چلایا جاتا ہے۔ کبھی ہمارے دینی اداروں کو دہشت گردی کا اڈہ بتا کر اسے بند کرانے کی سازشیں رچی جاتی ہیں۔ کبھی خواتین اسلام کو بے پردہ کرنے کے لیے ان کے برقع اور حجاب پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ کبھی گاؤ کشی اور گورچھک کے نام پر قربانی جیسی عظیم عبادت سے ہمیں محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔ کبھی (Uniform civil code) یونی فارم سول کوڈ کے نام پر

ہمارے مذہبی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی چلتی ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں ہمارا نام پوچھ کر اور ٹوپی داڑھی کو دیکھ کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ کبھی ہاسپٹلوں میں نام معلوم کر کے مسلم مریضوں کا علاج و معالجہ سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ کبھی مسلمانوں کی مادری زبان اردو کو مٹانے کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی (N.R.C./ C A A) این آر سی / سی ڈبل اے کے نام پر مسلمانوں کی شہریت منسوخ کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی Triple Talaq (طلاق ثلاثہ) کے نام پر قانون شریعت میں مداخلت کی جاتی ہے۔ اور یہ سب کچھ جو میں بتا رہا ہوں وہ فلسطین اور شام وعراق و افغانستان کی بات نہیں بلکہ ہندوستان کی بات ہے۔ جس ملک میں ہم اور آپ رہتے ہیں۔ ہماری نگاہوں کے سامنے یہ سارے واردات ہو رہے ہیں پھر بھی ہم خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔چند ایم ایل اے ،ایم پی کے علاوہ کوئی بھی لب کشائی کی جسارت نہیں کر رہا ہے۔ گونگے، بہرے، اندھے بن خاموشی اختیار کیے تماشہ بیں بنے ہوۓ ہیں ۔ ہمیں ضرورت ہے منظم ہوکر مسلکی جھگڑے کو بالائے طاق رکھ کر بنام اسلام ،بنام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے ظلم وتشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کی جس کی گونج ایوانِ پارلیمنٹ تک پہونچے کیونکہ حکومت کی نظر میں بلا تفریق ہم سب مسلمان ہیں۔
جب حکومت کا بلڈوزر کسی گاؤں،محلہ یا شہر میں عمارتوں کو مسمار کرنے کے لیے داخل ہوتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ کون سنی ،شیعہ، قادیانی، رافضی،صلح کلی، چکڑالوی، مودودی، بوہرا، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، اہل قرآن ہے۔ بس وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ مسلمان ہے یہ انکی عمارت ہے اسے مسمار کیا جائے۔ یہ مسلمانوں کی دکان و مکان ہے اسے جلا دیا جائے۔ یہ مسلمانوں کی بستی ہے اسے لوٹ لیا جائے۔
اسے تباہ و برباد کر دیا جائے۔
ایسی صورتحال میں بلا تفریق مسلک ہم لوگوں کو بنا م اسلام ،بنام مسلمان ایک قطار میں کھڑے ہو کر ظالم حکومت کو لگام دینا ہوگا۔ ورنہ ایک ایک کرکے مارے جائیں گے کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا۔ اور (Acts) دفعات کو ترمیم کے نام پر قانون بنا کر نافذ کرتا چلا جائے گا۔ ایسی صورت میں ہماری آنے والی نسلوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج اگر ہم نے ظالم حکومت کے خلاف آواز بلند نہیں کیا اور کالے قانون کو بننے سے نہیں روکا تو ہماری آنے والی نسلیں کل ہماری قبر پر
آ کر فاتحہ و درود کے بجائے لعنت و ملامت کریگی اور کہے گی یہ ہیں میرے باپ دادا کی قبریں جن کی نگاہوں کے سامنے اسلام اور مسلمان کے خلاف حکومت کی جانب سےطرح طرح کے قوانین نافذ ہوتے رہے یہ سب جیتے جی تماشائی بن کر دیکھتے رہے ان کی زندگی پر تف ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ہمارا نیک نامی زندہ رہے اور ہماری آنے والی نسلیں خوشحال رہیں تو آپ کو سخت جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اس لیے اگر آپ زندہ قوم ہیں تو کالے قانون کی مخالفت کر کے اپنی زندگی کا ثبوت دیجئے کیونکہ۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
ایک ہو جائیں تو ہم بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے آپ حضرات اس غفلت میں نہ رہیں کہ آج میوات، گجرات، مظفر نگر، میانمار میں فسادات ہو رہے ہیں ہمیں اس سے کیاسروکار۔ میرے بھائیو ! کل ہمارے صوبہ (جھارکھنڈ) میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ہمارے ضلع ہمارے شہر ہمارے بستیوں ہمارے قصبوں میں بھی ایسے واردات ہو سکتے ہیں کیونکہ (بی جے پی حکومت) کی یہ(Target) ھدف ہے کہ ہمیں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنا ہے جہاں جہاں ان کی حکومت ہے وہاں وہاں ظلم و ستم عروج پر ہے۔
لہٰذا آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ دن آنے سے پہلے اپنے آپ کو چوکس و چوکنا کر لیں اور صرف آپ ووٹ دینے والا نہ بنیں بلکہ اوٹ لینے والا بھی بنیں یعنی آپ سیاست میں بھی حصہ دار بنیں یقیناً حکومت میں خودبخود آپ کو حصہ داری مل جائے گی جیسا کہ آج (جھارکھنڈ) میں وزیر اقلیت حفیظ الحسن صاحب ہیں اور وزیر صحت عرفان انصاری صاحب ہیں تو اگر آپ جدوجہد وکوشش جاری رکھیں گے تو انشاءاللہ عزوجل آپ کے ضلع لاتیہار سے بھی کہیں شمس الہدیٰ صاحب تو کہیں آفتاب عالم صاحب تو کہیں قاری برکت اللہ رضوی صاحب تو کہیں ڈاکٹر مفتی محسن اعظم امجدی صاحب ریاست و حکومت کی کرسیوں پر تخت نشیں نظر آئیں گے لیکن ضرورت ہے ہمیں رہبری تسلیم کرنے کی اور جتنے بھی سرکاری ملازمین حضرات ہیں، صاحب ثروت حضرات ہیں ان کی ذمےداری ہے کہ جو لوگ کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتے ہیں ان کی وہ مدد کریں کیونکہ جب تک ہمارا کوئی لیڈر ہمارا کوئی رہبر و رہنما نہیں ہوگا تب تک ہمارا یہی حال ہوگا جو ہو رہا ہے۔ آج آئین ہند کے اندر ترمیمات ہو رہی ہیں (Amendment) کے نام پر مسلمانوں کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ آئین ہند میں جو دفعات ہیں اس میں ترمیمات کرنے کے لیے برسر اقتدار رولنگ پارٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس سیاسی جماعت کے ممبر آف پارلیمنٹ (ایم پی) زیادہ ہوں گے وہ آئین ہند کے دفعات میں چند وجوہات کی بنیاد پر ترمیم کر سکتا ہے۔ آج پارلیمنٹ میں بی جے پی کے ایم پیز کی اکثریت ہےاس لیے انہیں آج یہ موقع ملاہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی سیاست میں حصے دار بننے کی ضرورت ہے اگر ہمارے پاس کوئی اپنی سیاسی جماعت نہیں ہے تو پھر جو سیکولر پارٹیاں ہیں اسے جوائن کر کے ہم سیاست کا حصہ دار بنیں اگر ریاست و حکومت میں حصہ داری چاہیے تو سیاست میں حصہ لینا پڑے گا۔
نشست میں متفقہ طور پر مندرجہ ذیل باتوں پر فیصلے لیے گئے
(1) پہلگام دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے ان کی یاد میں شام کو 6/بجےکینڈل مارچ (V Mart) بھی مارٹ سے لے کر ضلع کلکٹریٹ تک نکالا جائے گا۔
(2) بتاریخ 3 مئی 2025 بروز سنیچر دوپہر میں وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا اور میمورینڈم ڈپٹی کمشنر کو سونپا جائے گا ۔
نشست میں خصوصیت کے ساتھ شامل ہونے والے علمائے کرام و دانشوران اہل سنت کا نام مندرجہ ذیل ہیں
حضرت قاری برکت اللہ رضوی صاحب (سرپرست اعلٰی)
حضرت ڈاکٹر مفتی محسن اعظم امجدی صاحب (نائب سرپرست)
حضرت مفتی مدثر عالم امجدی صاحب (سیکریٹری)
حضرت قاری ضیا الدین شمسی صاحب (نگراں)
حضرت قاری جاوید رضوی صاحب (خازن)
حافظ زبیر عالم کلیمی صاحب میڈیا انچارج تنظیم علماء اہل سنت (لاتیہار)
حضرت مولانا نذیر القادری صاحب
حضرت قاری عرفان رضا ضیائی صاحب
حضرت مولانا غلام غوث برکاتی صاحب
حضرت قاری ادریس صاحب
حضرت حافظ عبد الوکیل صاحب
حضرت حافظ منیر الدین صاحب
حضرت حافظ طارق انور صاحب
حضرت حافظ اختر قادری صاحب
حضرت حافظ ہارون رشید صاحب
حضرت حافظ افضل حسین صاحب
حضرت حافظ امروز عالم صاحب
محمد آفتاب عالم صاحب
محمد آزاد عالم صاحب
محمد ایوب انصاری صاحب
عبدالغفور صاحب
محمد نظام صاحب
ماسٹر شمشیر عالم صاحب
محمد فیضان رضا
محمد ضیاء الحق صاحب
محمد شفیق احمد صاحب
اسلم انصاری صاحب
قیام الدین انصاری صاحب
محمد متین انصاری صاحب
عبدالقیوم انصاری صاحب
محمد اکبر انصاری صاحب
اور بھی دیگر علمائے کرام و دانشوران اہل سنت نے شرکت کی۔
