All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

مولانا احمد علی قاسمی کی ہمہ جہت خدمات (مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343 )

Share the post

مولانا احمد علی قاسمی قصبہ سونس ضلع رانچی کے رہنے والے ایک ایسے عالم دین تھے جنہوں نے ایک گاؤں سے نکل کر اور اوپر اٹھ کر ملکی اور غیر ملکی پیمانے پر اپنی ایک الگ شناخت اور پہچان بنائی اور ایسے کارنامے اور خدمات انجام دئے جس کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے ، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ مولانا احمد علی قاسمی علیہ الرحمہ شروع سے ہی بہت ذہین و فطین ،نڈر و بیباک بولنے والے اور بڑی سے بڑی شخصیت سے کبھی مرعوب نہ ہوتے تھے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ذہانت و فطانت اللہ نے بچپن سے ہی عطا کیا ہوگا جس کی بنیاد پر اگے راہیں کھلتی گئی ہوں گی، مولانا احمد علی قاسمی علیہ الرحمہ غالباً رانچی ضلع کے پہلے قاسمی عالم دین تھے جہوں نے اس علاقے کی علمی تشنگی کو دور کرنے کی پہل کی اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ علاقے میں پھیلی ہوئی بے دینی اور مسلمانوں میں جڑ پکڑی ہوئی غیر اسلامی رسم و رواج کو ختم کرنے میں پہلا قدم بڑھایا ، مولانا احمد علی قاسمی علیہ الرحمہ کو اللہ نے ذہن و دماغ انقلابی اور تحریکی دیا تھا اس لئے انہوں اپنی اس خدا داد صلاحیت کا بھر پور استعمال کیا، ملک کی تمام بڑی تنظیموں اور اداروں کے وہ بنیادی اور اساسی رکن رکین رہے خواہ وہ امارت شرعیہ بہار بنگال اڑیسہ و جھارکھنڈ ہو یا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہو یا ال انڈیا مسلم مجلس مشاورت ہو بلکہ مسلم مجلس مشاورت کی تحریک تو رانچی سے ہی مولانا احمد علی قاسمی صاحب نے شروع کی اور اس کی بنیاد بھی رانچی میں ہی پڑی یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے تک مسلم مجلس مشاورت کی باگ ڈور بحیثیت جنرل سکریٹری مولانا احمد علی قاسمی صاحب ہی سنبھالتے رہے ، تقریری صلاحیت اور بات کرنے کا انداز غضب کا تھا ،اپنے اور قائدانہ کردار سے انہوں نے وہ مقام حاصل کرلیا تھا کہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے بڑی قربت اور نزدیکی حاصل ہو گئی تھی ،لوگ بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم راجیو گاندھی کو تم کہہ کر اپنی اولاد کی طرح مخاطب کرتے تھے ، شاید بہت ہی کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ مولانا احمد علی قاسمی صاحب صرف منبر و محراب پر کھڑے ہونے والے ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ وہ بیدار سیاسی ذہن و فکر بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے جب الگ جھارکھنڈ ریاست کی تحریک چلی تو مولانا احمد علی قاسمی صاحب اس کے اولین تحریک کاروں میں سے تھے ،انہوں ہے الگ جھارکھنڈ ریاست کی مانگ کی زوردار تحریک چلائی، جھارکھنڈ تحریک میں ان کی قربانی اور حصہ داری کے سلسلے میں مولانا آزاد کالج کے شعبہ تاریخ کے صدر اور جھارکھنڈ تحریک کے تجزیہ نکار ڈاکٹر الیاس مجید صاحب بتاتے ہیں کہ جئے پال سنگھ نے جھارکھنڈ پارٹی کا انضمام 1963عیسوی میں کانگریس پارثی میں کردیا جس کی بنیاد پر جھارکھنڈ تحریک ختم ہونے کے قریب ہوگئی تھی ایسے نازک وقت میں مولانا احمد علی قاسمی صاحب نے لال ہری ہر ناتھ شاھدیو ،لال رن وجئے ناتھ شاھدیو وغیرہ کے ساتھ مل کر جھارکھنڈ تحریک کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور این ،ای ہورو ،باگن سمرئی اور ڈیوڈ مجنی کے ساتھ مل کر جھارکھنڈ پارٹی کو زندہ رکھا جس کے نتیجے میں جھارکھنڈ تحریک میں جان اگئی لیکن اس کی پاداش میں مولانا قاسمی کو 19 ماہ جیل میں رہنا پڑا ،ڈاکٹر الیاس مجید اگے بتاتے ہیں کہ دہلی قیام کے دوران قومی اور بین الاقوامی سطح پر مصروف و مشغول رہنے کے باوجود وہ ہمیشہ جھارکھنڈ تحریک سے جڑے رہے اور لوگوں کو متحرک کرتے رہے ،جھارکھنڈ تحریک کو مضبوط کرنے پاداش میں اتنے دنوں جیل میں ریے کہ اتنے دنوں تک شیبو سورین یا جھارکھنڈ کا کوئی سیاسی رہنما جیل میں نہیں رہا ، جیل سے رہائی کے بعد مولانا نے دہلی کا رخ کیا اور بہترین صلاحیتوں کا استعمال دہلی میں رہ کر ہی کیا جس کی بنیاد پر آپ کو بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اور جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا بیٹا ملکی اور غیر ملکی پیمانے پر شہرت و مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچ گیا ،مولانا احمد علی قاسمی صاحب کی سیاسی پہنچ سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے لوگوں نے بہت فائدے اٹھائے لیکں رانچی کے شہری و دیہی حلقے کے لوگوں نے اپنی سادگی کی وجہ کر کوئی بڑا فائدہ حاصل نہیں کر سکے خود مولانا کے کسی لڑکے نے اپنے باپ کی مذہبی ، تعلیمی سیاسی ، سماجی اور معاشرتی خدمات کی وراثت کو قائم اور باقی نہیں رکھا ، مولانا کو زبان و بیان کے ساتھ ساتھ اللہ قلم کی طاقت سے بھی خوب نوازا تھا ، سید شہاب الدین نے جب انگریزی میں ” مسلم انڈیا ” نکالا تھا تو اسی زمانے میں مولانا نے اس کا اردو اڈیشن جاری کیا ،اس کے علاوہ ایک معیاری ماہانہ جریدہ” دعوت و عزیمت” شائع کیا جو ان کی زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا ، وہ جب بھی رانچی میں رہتے تو جمعہ کے دن ان کا بیان جامع مسجد رانچی میں ہوا کرتا تھا ، انجمن اسلامیہ رانچی کو ایک بار بہار سرکار نے براہ راست بہار وقف بورڈ کے حوالے کر دیا جس سے ایک ہیجانی کیفیت عوام میں پیدا ہوگئی تھی اس وقت انجمن اسلامیہ رانچی کو بہار وقف بورڈ کی تحویل سے نکالنے مین مولانا احمد علی قاسمی صاحب کی ذہانت کام آئی انہوں راتوں رات شہر کے چند لوگوں کو جمع کیا اور فوری طور پر ایک دستور کی تشکیلِ ہوئی جس میں دکھایا گیا کہ انجمن اسلامیہ رانچی خالص ایک عوامی ادارہ ہے جو عوامی تنظیموں، پنچایتوں اور کمیٹیوں کے ذریعہ منتخب کمیٹی سے چلتی ہے ،اس طرح انجمن اسلامیہ رانچی کو بہار گورمنٹ کی تحویل سے نکالا گیا ، مسلم پرسنل لا بورڈ یا امارت شرعیہ بہار بنگال اڑیسہ و جھارکھنڈ یا مسلم مجلس مشاورت کے اجلاس میں مولانا احمد علی قاسمی صاحب کو سننے کے لئے لوگ منتظر رہتے چونکہ مولانا کی گفتگو کسی بھی موضوع پر بلا کسی لاگ لپیٹ کے بالکل دو ٹوک اور کھری کھری ہوا کرتی تھی جسے کچھ علماء اپنی انا کی راہ میں رکاوٹ محسوس کرتے تھے ، مولانا احمد علی قاسمی صاحب کی ہمارے والد حضرت مولانا محمد صدیق مظاری علیہ الرحمہ اور میرے نانا حافط جمال الدین علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی علیہ الرحمہ سے بہت گہرے مراسم و تعلقات تھے ،

Leave a Response