تبلیغی جماعت کے امیر حاجی غلام سرور صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات(ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)


رانچی شہر میں کئی ایسے نامور لوگ ہوئے جنھوں نے توفیق الٰہی سے نور ہدایت ملنے کے بعد اپنی دینی و عملی خدمات کی بنیاد پر گمنامی کے اندھیرے سے نکل کر نیک نامی اور عوامی شہرت و مقبولیت کا درجہ اور مقام حاصل کرلیا انھیں میں سے ایک اھم اور بڑا نام تبلیغی جماعت کے امیر حاجی غلام سرور صاحب کا ہے ، جناب حاجی غلام سرور صاحب بنیادی طور پر ہند پیڑھی گوالہ ٹولی کے رہنے والے تھے اور گدی برادری سے تعلق رکھتے تھے ، تبلیغی جماعت سے منسلک ہونے سے پہلے ان کی زندگی لاابالی پن اور بے راہ روی کی تھی ، ان کو راہ راست پر لانے کی محنت جماعت کے کئی مخلص ساتھوں نے کی ،
جن میں جمشیدپور کے جناب حسن خان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، جناب حسن خان صاحب غلام سرور صاحب کو صبح کی نماز کی پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے صبح کی نماز سے پہلے بذریعہ سائیکل جمشیدپور سے چل کر رانچی آتے اور غلام سرور صاحب کے ساتھ روزانہ صبحِ کی نماز پڑھتے ، حسن خان صاحب کا یہ معمول اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ غلام سرور صاحب پورے طور پرئصبح کی نماز کے پابند نہیں ہوگئے ، جب وہ صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کے عادی ہوگئے اور نماز کی اہمیت و محبت ان کے اندر پیدا ہوگئی تو یہ سلسلہ حسن خان صاحب نے بند کر دیا کیوں کہ انھوں نے جب دیکھا کہ غلام سرور صاحب کے اندر دین کی وہ چنگاری جو پہلے سے ہر ایک مسلمان کے اندر موجود ہوتی ہے نماز کی پابندی اور دعوت کی محنت سے دھیرے دھیرے تیز ہونے لگی ہے اور چند مہینوں کے بعد ہی جب غلام سرور صاحب نے جماعت میں نکل کر چار مہینہ وقت لگایا تو اب ایک نئے غلام سرور نے جنم لیا ، جو اب دین کا زبردست داعی بن گیا تھا ،

جس کے بعد غلام سرور صاحب کی زندگی میں اچانک انقلاب آگیا اور انہوں نے پورے طور پر اپنے آپ کو بدل ڈالا اور جب عملی طور پر تبلیغی جماعت سے منسلک ہوئے اور اسی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اللہ نے وہ عزت و احترام اور مقام عطاء کیا کہ لوگ آپ کی پچھلی زندگی کو بھول گئے اور جن لوگوں نے آپ کی زندگی کے دونوں پہلو کو دیکھا تھا تو وہ عش عش کرنے لگے اور سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا یہ وہی غلام سرور ہے جو کبھی ہمارا ساتھی ہوا کرتا تھا اور جو لا ابالی پن اور بے راہ روی کی زندگی گزار رہا تھا اور آج خود ایمان و عمل کے راستے پر چل کر دوسروں کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے اور جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہزاروں انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنادیا ، حاجی غلام سرور صاحب ایمان و عمل کے بہت مضبوط انسان تھے ، آپ نے اپنے ابتدائی دور میں پیدل اور سائیکل میں گھوم پھر کر گاؤں گاؤں لوکوں کو کلمہ ، نماز اور مسجد سے جوڑنے کی محنت کی ہے اور ساری زندگی اسی دعوت و تبلیغ کی محنت سے جڑے رہے ، رانچی میں 1960 میں مولانا جمیل اختر صاحب کی محنت و کاوش سے ہند پیڑھی بڑی مسجد میں دعوت و تبلیغ کا مرکز قائم ہوا ، مرکز نظام الدین دہلی کی طرف سے مولانا جمیل اختر صاحب رانچی کے سب سے پہلے امیر جماعت نامزد کئے گئے لیکن بڑی مسجد کی امامت و خطابت اور مدرسہ دارالقرآن کی نظامت و اہتمام کی ذمےداریوں کے پیش نظر چند سالوں کے بعد آپ نے تبلیغی جماعت کے امیر کی ذمےداری ادا کرنے سے اکابرین کے سامنے معذرت کرلی جسے قبول کرتے ہوئے آپ کی جگہ مرکز نظام الدین دہلی کے اکابرین نے گدری قریشی محلہ رانچی کے ماسٹر منیر الدین صاحب کو رانچی کی تبلیغی جماعت کا امیر نامزد کردیا ،ماسٹر منیر الدین صاحب بڑے نیک اور سیدھے سادے انسان تھے اور سرکاری اسکول میں درس و تدریس کی ذمےداریوں سے وابستہ تھے ،

دعوت و تبلیغ میں لگے ہوئے چند مخلص ذمےدار ساتھیوں نے محسوس کیا کہ رانچی میں دین کی محنت اور مسلمانوں کو مسجد اور اس کے اعمال اور پورے طور پر دین سے جوڑنے کے لئے ایک ایسے با اَثر شخص کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت پورے علاقے میں دین کی دعوت و محنت کی فکر میں لگا رہے اور دعوت کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایسے افراد تیار کرے جو اس کے ساتھ ایک قافلہ کی شکل میں دین کی محنت کا کام کریں ، دعوت کے کام سے منسلک رانچی کے چند پرانے ساتھوں کی نظر جناب غُلام سرور صاحب کی طرف گئی تو ان کی رائے اور مشورے سے مرکز نظام الدین دہلی کے اکابرین نے ماسٹر منیر الدین صاحب کی رضامندی سے ان کی جگہ حاجی غلام سرور صاحب کو تبلیغی جماعت کا امیر نامزد کردیا ، پھر کیا تھا ، جناب حاجی غلام سرور صاحب کے امیر تبلیغی جماعت بنتے ہی ان کی دن رات کی محنت و کاوش سے راںچی کا دینی ماحول ہی بدل گیا ، دین سیکھنے اور سکھانے کے لئے اللہ کے راستے میں جماعتیں کثرت سے نکلنے لگیں ، دینی ماحول قائم ہونے لگا ، دینی مزاج پیدا ہونے لگا ، مسلمان اپنے بچوں کو حافظ قرآن اور عالم بنانے کا ارادہ کرنے لگے ، چھوٹے چھوٹے مکاتب اور مدارس قائم ہونے لگے ، یہ سب دعوت و تبلیغ کی محنت کا نتیجہ ہے اور اس مجنت کے پیچھے حاجی غلام سرور صاحب کی شخصیت اور ان کی دعوتی خدمات کا اثر ہے جس کا اعتراف ہمیں کھلے دل سے کرنا چاہیے ، جناب حاجی غلام سرور صاحب کا ایک بجاج اسکوٹر تھا جس سے وہ راںچی کے گاؤں گاؤں میں جہاں سڑکیں آج کی طرح پکی اور ہموار نہیں تھیں بلکہ عمومآ سڑکیں کچی تھیں وہاں جاکر لوگوں کو دین کی محنت کی دعوت دیتے اور زندگی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کی ترغیب دیتے ، اسی اسکوٹر سے ایک ایک دیہات میں ہونے والے جوڑ میں شرکت کرتے اور لوگوں کے اندر ایمانی جوش پیدا کرتے اور مسجد سے جڑنے اور دعوت و تبلیغ میں وقت لگا کر اور اللہ کے راستے میں نکل کر اپنی زندگیوں کو ایمان و عمل سے سنوارنے کی ترغیب دیتے ، حاجی غلام سرور صاحب نے تبلیغی جماعت کے امیر کی ذمےداریوں کو ساری زندگی بحسن و نبھایا ، بعض اوقات آپ کو بہت ہی صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ دین کے معاملے میں ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے ، آپ کی دعوتی خدمات کا نتیجہ ہے کہ رانچی اور اس کے قرب وجوار میں بہت سارے وہ لوگ جو دین و ایمان سے کوسوں دور تھے دعوت و تبلیغ کے سپاہی بن کر کھڑے ہوگئے اور اپنے اپنے علاقے میں دعوت و تبلیغ کی ذمےداریوں کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں ، حاجی غلام سرور صاحب ایک مردم شناس انسان تھے وہ ہر آنے والے اور ملاقات کرنے والے کی غرض و غایت اور منشاء کو اس کے طرز و عمل اور اس کی حرکات و سکنات اور اپنے لمبے تجربات کی بنیاد پر فورآ بھانپ لیتے اور سمجھ جاتے تھے اور دعوت و تبلیغ کے کام کی نزاکتوں سے بہت اچھی طرح واقف تھے ، دہلی سے جب بھی اکابرین کی جماعت آتی تو آپ ان کی مہمان نوازی کسی امیر ترین شخص کے یہاں نہ کر کے جماعت ہی کے ساتھیوں کے یہاں کرتے تاکہ دعوت و تبلیغ کے کام میں لگے ہوئے ساتھیوں کی دل شکنی نہ ہو اور وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی اور حوصلہ افزائی کا جزبہ پیدا ہو ، رانچی کی تبلیغی جماعت کا امیر اور بہار کی مجلس شوری کا ذمےدار ہونے اور شہر و دیہات کے امیر ترین اور دولت مند افراد سے رابطہ و تعلق کے باوجود آپ کی سادگی ، بزرگی اور فقیرانہ زندگی ایک مثال تھی ، آپ چاہتے تو شہر میں کئی جگہ آپ کی عالیشان بلڈنگ ہوتی ، چار پہیہ گاڑی ہوتی اور لمبا چوڑا کاروبار ہوتا لیکن سب جانتے ہیں کہ آپ کی معاش کا سب سے بڑا ذریعہ مین روڈ پر واقع چھوٹی سی ایک پان کی دوکان تھی جو آج بھی ہے ، مین روڈ املی ٹولہ میں واقع آپ کا مکان آج بھی آپ کی سادگی اور فقیرانہ زندگی کو بیان کرتا ہوا نظر آئے گا ، حاجی غلام سرور صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن دعوت و تبلیغ کے کام میں وقت لگانے اور اس کے لئے جان و مال کی قربانی دینے والے نوجوانوں کو وہ اپنی اولاد سے بڑھ کر مانتے اور چاہتے تھے جن کی ایک لمبی فہرست ہے ،
انھوں نے اپنی پوری زندگی دعوت و تبلیغ کے کام میں کھپا کر نوجوانوں کی ایک پوری جماعت کھڑی کردی جو ان کے لئے ثواب جاریہ کے طور پر آج بھی کام کر رہی ہے ، اپنے ہم عمر لوگوں کو امیر صاحب اپنے ساتھوں کا درجہ دیتے تھے اور ان کا بہت اعزاز و اکرام کرتے تھے ، رانچی کے بزرگ علماء میں مدینہ مسجد کے امام و خطیب حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب کو بہت مانتے اور ان کا بہت اعزاز و اکرام کرتے تھے ، ان کے بعد رانچی کے نوجوانوں علماء میں امیر صاحب مجھے بہت مانتے تھے اور میری حمایت میں ہمیشہ کھڑے ہوجاتے تھے اور میری حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے ، جب کانٹا ٹولی رانچی کے ایک جلسہ میں دھوکے سے کچھ شرپسندوں نے مجھ پر جان لیوا حملہ کیا تھا تو امیر صاحب نے میری حمایت میں وہ کام کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے کے لئے کرتا ہے ان کے ایک فرمان پر پوری رانچی بند کروا دیا گیا تھا،جناب حاجی غلام سرور صاحب بارعب شخصیت کے مالک تھے ، کسی سے جلدی مرعوب نہیں ہوتے تھے اور حق گوئی میں کسی کی لعنت ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے ، نہ ان کو کوئی خرید سکتا تھا اور نہ ہی ان کو کوئی ڈرا دھمکا سکتا ، جمعہ کی شب بڑی مسجد مرکز اور راعین مسجد میں منگل مشورہ کے دن پورے علاقے کی دینی ضروریات اور تقاضے کو سامنے رکھ کر مشورے کے بعد اپنے صواب دید کے مطابق بطور امیر فیصلہ فرماتے ، آپ نے اپنی زندگی میں اور اپنی سرپرستی میں جھارکھنڈ اور بہار میں سینکڑوں تبلیغی اجتماعات کروائے جس کے دور رس نتائج پیدا ہوئے ، آخیر عمر میں شوگر کی بیماری نے آپ کو کمزور کردیا تھا اس کے باوجود جب تک جان میں جان رہی اور ہوش و حواس باقی رہا آپ جمعہ کی شب بڑی مسجد مرکز میں اپنی دینی اور دعوتی خدمات انجام دیتے رہے اور اپنے تجربات سے راںچی والوں کو فیض یاب کرتے رہے ، 20 رمضان المبارک کے دن 2022 کو آپ کا اِنتقال ہوا ، آپ کی نماز جنازہ ہرمو عید گاہ رانچی میں ادا کی گئی ، جنازے میں جھارکھنڈ کے ہر ایک ضلع اور بہار سے آئے لوکوں کا سیلاب امنڈ پڑا ، لوگوں کی جنازے میں بھیڑ کی وجہ سے پورا اپر بازار ، راتو روڈ اور مین روڈ جام ہوگیا ، لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر پولس انتظامیہ کے اعلیٰ افسران حیرت و تعجب میں پڑگئے اور کہنے لگے کہ رانچی میں اتنی عوامی شہرت و مقبولیت والے لوگ رہتے تھے ہمیں آج معلوم ہوا ، موت کے بعد جن کی عزمت اور ان کی بزرگی کا یہ حال ہے تو زندگی میں ان کی کوئی بڑی خدمات ضرور رہی ہوں گی ، حاجی غلام سرور صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات یقیناً ایسی رہیں جس کو بھلایا نہیں جاسکتا ، انہوں نے اپنی ساری زندگی دعوت و تبلیغ کی محنت میں لگادی اور کام کرنے والوں کی ایک جماعت کھڑی کردی ، اللہ تعالیٰ حاجی غلام سرور صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین
