جناب مجیب قریشی کی سیاسی و سماجی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951434 )


محترم قارئین ! میں نے رانچی کی گزشتہ یا موجودہ ان شخصیتوں کے بارے میں لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جنھوں نے اپنی کسی بھی قسم کی خدمات سے اپنے محلے ، علاقے ، شہر یا معاشرے کو متاثر کیا ہے یا کر رہے ہیں ، جن میں مذھبی شخصیات بھی ہیں اور تعلیمی و فلاحی اور سیاسی و سماجی شخصیات بھی ہیں، جن کے کاموں اور کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کرانا آج کے ماحول اور حالات میں بہت ضروری ہے کیونکہ دوسرے سماج کے لوگ اپنے چھوٹے اور گمشدہ لوگوں کو بڑا اور صاحب علم و فضل ، محب وطن اور انسانیت کا خادم اور قوم و ملت کے لئے بڑا کارنامہ انجام دینے والا بناکر الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پیش کر رہے اور ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم اپنے گزشتہ اور موجودہ شخصیات اور ان کی خدمات کو چھوٹا بناکر پیش کر رہے ہیں یا سرے سے فراموش کرتے جارہے ہیں ، موجودہ شخصیات کی سیاسی و سماجی خدمات کی فہرست میں ایک اھم جناب مجیب قریشی صاحب کا بھی ہے جنھوں نے اپنی نوجوان کے زمانے میں کانگریس کے قدآور اور تحریکی لیڈر گیان رنجمن جی کے ساتھ الگ جھارکھنڈ کی تحریک میں شامل ہو کر حصہ لیا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ الگ جھارکھنڈ ریاست کی تحریک کو اگے بڑھانے اور ہوا دینے اور اس سلسلے میں ہونے والی سبھاؤں میں بھیڑ اکٹھا کرنے میں گیان رنجمن جی کا بھر پور ساتھ دیا ، بہت سارے ایسے بھی ہیں جنھوں نے الگ جھارکھنڈ کی تحریک میں بہت کچھ کیا اور بہت کچھ کھویا لیکں انھوں نے کبھی اپنے آپ کو جھارکھنڈ آندولن کاری بنا کر پیش نہیں کیا جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا الگ جھارکھنڈ کی تحریک میں کوئی رول نہیں رہا لیکن آج وہ اپنے آپ کو جھارکھنڈ آندولن کاری منوانے میں لگے ہوئے ہیں ، مجیب قریشی صاحب بنیادی طور پر کانٹا ٹولی کے رہنے والے ہیں اور آل انڈیا جمیعت القریش کے صدر بھی ہیں ، الگ جھارکھنڈ ریاست بننے کے بعد جب بھاجپا کی سرکار بنی تو فرقہ پرستوں کے دباؤ اور ووٹ بینک کی خاطر “گاؤ کشی قانون” کی آڑ میں قریشی برادری کے کاروبار کو نشانہ بنایا گیا اور کافی نقصان پہنچا گیا ، پوری ریاست میں بوچڑخانے بند کردئے گئے اور قانوں کی آڑ میں قریشی برادری کو پریشان کیا جانے لگا تو اس سلسلے میں جناب مجیب قریشی صاحب نے رانچی سے لے کر دہلی تک جمیعت القریش کے پلیٹ فارم سے صدائے احتجاج بلند کیا اور آل انڈیا جمیعت القریش کے صدر اور قدآور رہنما جناب سراج الدین قریشی صاحب کے ساتھ مل کر ریاستی اور مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا کہ سرکار قریشی برادری کے روزگار کا بہتر متبادل تلاش کرے تاکہ قریشی برادری کے لوگ بھی دوسرے لوگوں کی طرح روزگار اور تعلیم میں ترقی کر سکیں اور اگے بڑھ سکیں ، میں نے بذات خود دیکھا کہ مسلمانوں کے کسی مسئلے کے سلسلے میں وزیراعلی یا کسی وزیر یا کسی پارٹی کے بڑے لیڈر کے ساتھ وفد کی صورت میں ملنے گئے اور ان سے مسلمانوں کے مسائل کے پر گفتگو ہوئی تو اس وفد میں شامل جناب مجیب قریشی صاحب نے اپنی برادری کے کاروباری مسائل اور اس سے پیدا شدہ صورتحال کا ذکر ضرور کیا ہے جس سے قریشی برادری کے مسائل کے تئیں ان کی بے چینی اور سنجیدگی صاف نظر آتی ہے، قریشی برادری کے روزگار اور تعلیم کے مسائل کے حل کے لئے اور لوگوں کی بھی مجنت رہی ہوگی جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکں مجیب قریشی صاحب نے اپنی برادری کے روزگار اور تعلیم کے لئے جو کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں اس میں نے خود دیکھا ہے اور رانچی سے دہلی تک کئی موقعوں پر ساتھ رہا ہوں ، شاید اسی مقصد کے تحت وہ بابو لال مرانڈی کی خودساختہ پارٹی” جھارکھنڈ وکاس مورچہ” کے ساتھ چند سالوں تک رہے لیکن بابو لال مرانڈی کی بھاجپا سے اندرونی دوستی اور فرقہ پرستوں کے ساتھ لگاؤ اور ان کے تئیں نرم رویہ کی بنیاد پر جلد ہی ان کی پارٹی سے الگ ہوگئے ، اس کے بعد وہ مختلف سماجی اور فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر قوم و ملت کو آگے بڑھانے میں لگے رہتے ہیں ،ان کے ھر فلاحی کاموں میں ان کے بھانجے غلام جاوید صاحب سایہ کی طرح لگے رہتے ہیں ، بھاجپا کی ایک بد زبان اور بدبخت خاتوں نے جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ بیان دیا تو پورے ملک میں صدائے احتجاج بلند ہوا ،یہ احتجاج رانچی میں بھی ہوا اور 10/ جون 2022 کو پولیس نے نہتے مسلمانوں پر گولیاں چلائیں جس سے دو نوجوان شھید ہوگئے ، آج اس خونی داستان کو لوگوں نے بھلا دیا اور ان کے زخم بھر گئے لیکن میری اور کچھ حساس لوگوں کی طرح 10/ جون 2022 کا زخم آج بھی جناب مجیب قریشی صاحب کے دل میں تازہ ہے وہ مختلف سماجی میٹنگوں میں لوگوں سے اس مسئلے پر گفتگو ضرور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اندرونی اور آپسی اختلاف کی وجہ کر اس خونی داستان نے رانچی کے مسلمانوں کو بزدل بنادیا ہے اور ان کے اندر ڈر اور خوف پیدا کردیا ہے اور اب مسلمان احساس کمتری کا شکار ہو گئے ہیں ، وہ اکثر و بیشتر سماج کے سرکردہ لوگوں سے کہتے رہتے ہیں کہ ہمیں آپسی اختلافات اور بھید بھاؤ اور برادرانہ تعصب سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں کے حوصلے اور جذبے کو بلند کرنا ہوگا اور سماج کے لئے بے خوف اور نڈر ہو کر کام کرنے والوں کو اگے بڑھانا ہوگا اور ٹانگ کھینچنے والے کو سبق سکھانا ہوگا ،مجیب قریشی صاحب کی سماجی خدمات کے ذیل میں اگر ان کے ذریعے چلائے گئے نشہ خوری کی روک تھام کی تحریک کا ذکر نہ کیا جائے تو نا انصافی ہوگی ،انھوں نے رانچی اور دوسرے کئی ضلعوں میں محلہ محلہ گھوم گھوم کر مختلف سماجی اور فلاحی تنظیموں سے منسلک لوگوں کو ساتھ لے جس میں میں خود بھی شامل رہا ہوں نشہ خوری کے کے خلاف مہم چلائی ہے اور پیدل مارچ کیا ہے جسے عوام اور پولیس انتظامیہ نے بھی کافی سراہا اور پسند کیا ہے ، اس کے علاوہ دوسرے بہت سارے فلاحی کاموں میں وہ خاموشی کے ساتھ لگے رہتے ہیں ،سماجی اور فلاحی کاموں میں مصروفیت کے باوجود انہوں نے اپنی تینوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی ہے ،
