مولانا سمیرالدین صابر قاسمی بلسوکرا رانچی کی شخصیت و خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343)


یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے کہ صلاحیتیں کبھی خاندان ، نسل ، جگہ اور مقام کی محتاج نہیں ہوتیں اور نہ ہی خوددار ، با ضمیر اور باصلاحیت عالم دین مسند درس کا محتاج ہوتا ہے اور نہ ہی مسجد کے ممبر و محراب کا ، صلاحیت اور قابلیت تو کوئی بھی اپنی محنت و لگن سے اپنے دامن میں سمیٹ سکتا ہے اور اپنی صلاحیت ہی کی بنیاد پر بام عروج تک پہنچ سکتا ہے ، جھارکھنڈ کی راجدھانی شہر رانچی اور مضافات میں کئی ایسے علماء ہوئے اور ہیں جو ایک غیر معروف گاؤں کے غیر معروف گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی علمی و ادبی صلاحیت کی بنیاد پر عوام کے زمرے سے نکل کر خواص میں شمار کئے جانے لگے ، انھوں نے اپنے علم و فضل سے پورے علاقے کو متاثر کیا لیکن ہم جھارکھنڈ اور خصوصاً رانچی کے مسلمان اعلیٰ حسب و نسب اور بڑی بڑی تنظیموں اور اداروں کے جانشینوں اور شہزادوں کی قصیدہ خوانی کی ذہنی غلامی سے اب تک نکل نہیں پائے ہیں ،
ہم نے اپنے ہی علاقے کی مساجد و مدارس میں رہ کر تعلیم و تربیت ، امامت و خطابت اور دوسرے نوع کی اصلاحی خدمات انجام دینے والوں کو ان کی زندگی میں بھی فراموش کیا اور ان کی وفات کے بعد تو ان کے ساتھ ان کی علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی خدمات کو قبرستان میں ہی دفن کردیا ، معاشرے کے ایسے باصلاحیت افراد جن کا تعلق ہماری مٹی سے تھا اور ہے ایسی شخصیات اور ان کی خدمات کا تعارف کرانا اور ایسے لوگوں کی تاریخ کو زندہ رکھنا ہمارا نصب العین ہونا چاہئے ، اسی مقصد کے تحت میں نے جھارکھنڈ کی سر زمین خصوصاً رانچی اور اس کے مضافات میں کھلنے والے پھولوں کی خوشبو کو اپنی تحریر کے زریعے نئی نسل تک پہنچانے کا کام شروع کیا ہے ، ایسی ہی ایک عظیم علمی و ادبی شخصیت مولانا محمد سمیر الدین صابر قاسمی صاحب مرحوم ابن نواب علی مرحوم کی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا تھا ، مولانا محمد سمیرالدین صابر قاسمی صاحب رانچی شہر سے تقریباً پچاس کیلومیٹر دور مشہور و معروف مسلم بستی اور علماء و حفاظ کا مسکن بلسوکرا ڈاکخانہ پنڈری تھانہ چانہو ضلع رانچی کے رہنے والے تھے جن کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں بلسوکرا میں 1947 میں ہوئی تھی ، مولانا اپنے پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑے تھے ، ابتدائی تعلیم بلسوکرا مڈل اسکول سے حاصل کی اور 1960 میں مڈل کا بورڈ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ، واضح رہے کہ اس دور میں سرکاری بورڈ امتحان ساتویں کلاس سے شروع ہوتا تھا اس کے بعد میٹرک بورڈ کا امتحان ہوتا تھا ، مولانا نے عربی فارسی کی تعلیم پنڈری کے مولانا امین صاحب سے حاصل کی ، اس کے بعد مدرسہ حسینیہ جمشیدپور چلے گئے جہاں شرح جامی تک تعلیم مولانا نبی حسن مرحوم سے حاصل کی ، اس کے بعد ایک سال مظاہرالعلوم سہارنپور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1966 میں ازھر ہند دارالعلوم دیوبند چلے گئے ، دارالعلوم دیوبند سے آپ کی فراغت غالباً 1969/ 70 میں ہوئی ،
دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے مولانا کے درسی ساتھیوں کی فہرست بہت لمبی ہے مگر سب سے نمایاں اور مشہور زمانہ درسی ساتھی مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی اور مولانا اعجاز اعظمی صاحب تھے ، طلباء دارالعلوم دیوبند کا مشہور زمانہ اسٹرائیک جس کے روح رواں مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی تھے ، اس اسٹرائیک میں مولانا سمیر الدین صابر قاسمی صاحب بھی شامل تھے مگر اپنی حکمت عملی سے دارالعلوم کی انتظامیہ کے عتاب اور کاروائی کی زد میں آنے سے بچ گئے ، مولانا دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ سالوں تک دہلی کے ایک پریس میں کتابت کا کام کرتے رہے ، اس کے بعد رانچی چلے آئے اور مدرسہ عالیہ عربیہ پترا ٹولی کانکے رانچی میں درس وتدریس کی خدمت سے منسلک ہوگئے ، چند سالوں کے بعد وہاں سے مدرسہ فیض العلوم چوڑی ٹولہ کانکے رانچی منتقل ہو گئے ، اس کے بعد مولانا بلسوکرا کے مشہور و معروف مدرسہ قاسمیہ پھر مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی کے قائم کردہ دارالعلوم حسینیہ ڈنڈیلا کلاں رھلا پلاموں اور پھر وہاں سے ہجرت کرکے جامعۃ المسلمات بنا پیڑھی میں بھی درس و تدریس کی خدمت سے منسلک رہے ، چند سالوں تک مانڈر کے مسلمانوں کے اسرار پر مانڈر جامع مسجد کے امام و خطیب بھی رہے ، واضح ہو کہ مولانا اپنی خودداری اور نازک مزاجی کی وجہ کر کسی ایک مسجد یا مدرسہ میں مستقل طور پر اپنے آپ کو روک نہیں پاتے تھے ، کیونکہ ان کے مزاج میں آج کے بعض مولویوں کی طرح مہتمم یا کمیٹی کے عہدیداران کی چاپلوسی ، خوشامد اور حاشیہ برداری کا مادہ بالکل نہیں تھا ، وہ ایک خوددار ، بیباک ، حق گو ، اپنے مزاج اور اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے والے عالم دین تھے ،
وہ رزق کا مالک مدرسہ کے مہتمم یا مسجد کی کمیٹی کو نہیں بلکہ اللہ وحدہ لاشریک کو سمجھتے تھے ، مگر آج چاپلوسی اور حاشیہ برداری کے خوگر کئی مولوی مدرسہ کے مہتمم یا مسجد کمیٹی کو رزق کا مالک سمجھتے ہیں ، زبان سے اس کا اظہار کریں یا نہ کریں مگر ان کی حرکات و سکنات سے ظاہر ہو جاتا ہے ، مولانا نے مانڈر کے چٹول میں ڈاکٹر یونس صاحب کے قائم کردہ ایک اکیڈمی میں بھی کام کیا اور آخر میں اپنے آبائی گاؤں بلسوکرا میں اقصیٰ اکیڈمی کے نام سے ایک اسکول قائم کیا جو مولانا کی حیات تک قائم رہا ، مولانا کے انتقال کے بعد وہ اکیڈمی بند ہو گیا ، اس طرح مولانا نے اپنے آپ کو پوری زندگی درس و تدریس اور امامت وخطابت کی خدمت سے منسلک رکھا ، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی خودداری اور نازک مزاجی کی وجہ کر کسی ایک جگہ مستقل طور پر رہ نہیں پائے ، کسی زمانے میں جمیعت علماء ہند سے علیحدہ “مرکزی جمیعت علماء ہند ” کو چھوٹا ناگپور (اب جھارکھنڈ) میں متعارف کرنے والے مولانا سمیر الدین صابر قاسمی صاحب ہی تھے ، وہ اس کے رانچی ضلع کے صدر بھی رہے ، تنظیم ائمہ کے کنوینر بھی رہے ، مجلس علماء جھارکھنڈ جس نے نہ جانے کتنے رنگ روپ بدلے ہیں کے تاسیسی رکن اور سکریٹری بھی رہے ، مولانا سمیر الدین صابر قاسمی صاحب حالات حاضرہ پر گہری نظر اور سیاسی شعور رکھنے والے عالم دین تھے ، وہ مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرم رہے ، ان تمام صلاحیتوں اور خوبیوں کے علاوہ ان کے اندر سب سے خاص بات زبان و قلم کے استعمال میں حد درجہ مہارت و قابلیت تھی ، دیہات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ، پلے بڑھے ، ساری زندگی دیہاتی ماحول میں رہے لیکن اس کے باوجود ان کی اردو زبان و ادب میں کبھی کوئی بدلاؤ یا ماحول کا اثر پیدا نہیں ہوا ، انفرادی گفتگو ہو یا تقریر و بیان ہر جگہ بڑی فصیح و بلیغ اردو زبان کا استعمال کرتے تھے ، رانچی شہر و مضافات اور دوسرے اضلاع میں بھی بڑے بڑے جلسوں کی نظامت کے لئے مولانا سمیرالدین صابر قاسمی صاحب کو ہی مدعو کیا جاتا تھا ،
حسن نظامت میں ان کا اپنا جو انداز تھا وہ آج کے پیشہ ورانہ ناظم جلسہ میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا ، نظامت کے دوران برجستہ فارسی اور اردو کے الفاظ استعمال کرتے جو مبالغہ سے خالی اور ذہن پر بھاری بھی نہیں ہوتا تھا ، نظامت کا ایک مہذب انداز اور سلیقہ اللہ نے انھیں عطا کیا تھا ، جلسے کی نظامت آج کی طرح ان کا پیشہ نہیں تھا ، آج تو جلسے کی نظامت ایک مہنگا پیشہ ورانہ کاروبار بن کر رہ گیا ہے جس کو فروغ دینے میں مولویوں کی جماعت کا ہی ہاتھ ہے ، آج دینی جلسوں کو پیشہ ور ناظم جلسہ ، نعت خواں اور مقرر نے بغیر پونجی لگائے نفع بخش کاروبار بنا لیا ہے جس پر کسی عالم کی زبان صدائے احتجاج بلند نہیں کرتی الا ماشاءاللہ ،
مولانا سمیرالدین صابر قاسمی صاحب کا نکاح مولانا اختر حسین مظاہری صاحب سابق مہتمم مدرسہ عالیہ عربیہ پترا ٹولی کانکے رانچی کی بھانچی اور مولانا سمیع الحق اربا کی بڑی بہن سے ہوا ، اس اعتبار سے مولانا سمیر الدین صابر قاسمی صاحب مدرسہ مظہر العلوم اربا کے استاذ مولانا سمیع الحق اربا کے بڑے بہنوئی تھے ، مولانا کی ایک لڑکی اور چار لڑکے ہیں جن میں سب سے بڑا لڑکا مولانا عبد الماجد قاسمی بلسوکرا ، عبد الباسط ، عبدالمعید اور عبدالرافع ہیں ، مولانا سمیر الدین صابر قاسمی اپنی زندگی کے آخری دور میں برین ہیمرج کا شکار ہو گئے تھے ، 21/ فروری 2022 کو علاج کے دوران میدانتا ہاسپیٹل اربا انتقال ہوا ، اپنے آبائی گاؤں کے قبرستان میں مدفون ہوئے ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین








