Jharkhand News

جھارکھنڈ میں اردو افسانہ کے عنوان سے یک روزہ سمینار

Share the post

رانچی: ۴؍نومبر ۲۰۲۳ء کو انجمن فروغ اردو کی جانب سے یک روزہ سمینار کا انعقاد کیا گیاجس میں ہندستان کے بیشتر ناقدین نے شرکت فرمائی۔حافظ مجاہد الاسلام نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا۔اس کے بعد ڈاکٹر محمد غالب نشتر نے مہمانان کا استقبال کیا اور کہا کہ انجمن فروغ اردو جھارکھنڈ کی ایک رجسٹرڈ تنظیم ہے جس کا کام اردو کا فروغ و اشاعت ہے۔ تنظیم کے رجسٹریشن میں اردو رکھنے کے تعلق سے مسائل تو آئے لیکن آخر میں انجمن فروغ اردو نام ہوا۔انجمن فروغ اردو ایک ایسی انجمن ہے جس کا مقصد اردو زبان وادب کی ترویج وارتقا ہے۔ صوبائی سطح کی اس انجمن میں علاقائی لوگوں کی شمولیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُن کی مرضی اور رائے کے بغیر یہ کام ممکن نہیں۔2017ء میں اس انجمن کانام ’’ہماری انجمن‘‘رکھا گیا تھا اور پہلے جلسے کی صدارت پروفیسر ش اختر نے فرمائی تھی۔

اس پروگرام میں ریاستِ جھارکھنڈ کے کئی ریسرچ اسکالر نے شرکت فرمائی تھی۔ ماہانہ پروگرام کا سلسلہ جاری رہا اور خاص طور پر اُس وقت جب شہر میں کسی ادیب کی تشریف آوری ہوتی تو اُن کے اعزاز میں نشستیں قائم ہوئیں۔ اس دورانیے میں اختر آزاد، اسلم جمشیدپوری، فاروق راہب اور پروفیسر صغیر افراہیم خاص طور پراہم ہیں۔اس کے علاوہ جھارکھنڈ میں کلاس ایک سے گیارہ میں کتابیں مہیا کرانا اور نوٹس وغیرہ دینا کام بھی انجمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ اردو کو گھر گھر پہنچانا ہمارا کام ہے۔ اس کے لیے دیہاتوں کی جانب رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس تنظیم کے تین برس پورے ہونے والے ہیں۔تین سے می نار ہو چکے ہیں۔ یہ چوتھا ہے۔ اس کے علاوہ میٹرک اور انٹر امتحانات میں ستر فی صد لانے والے طلبہ کو انعام اور سرٹی فکیٹ عطا کرنا اور حوصلہ افزائی کرانے کا کام بھی شروع کیا ہے۔


انجمن فروغ اردو نے سال رواں سے شموئل احمد فکشن ایوارڈ کا بھی اعلان ہوا تھاجس کے لیے ڈاکٹر کہکشاں پروین کا نام تجویز کیا گیا۔ڈاکٹر کہکشاں پروین کا نام ادبی دنیا میں تعارف کی محتاج نہیں ہے۔اس سال کا ایوارڈ انھی کو دیا گیا۔سمینار کا کلیدی خطبہ داکٹر ہمایوں اشرف نے پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ جھارکھنڈ میں اردو افسانہ نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ جھارکھنڈ میں اردو افسانے کا آغاز مسلم عظیم آبادی سے ہوتا ہے۔اس طرح کی اور بھی باتیں انھوں نے کہیں اور صد ارتی خطبے کو پر مغز انداز میں پیش کیا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ جھارکھنڈ میں افسانہ نگاری کا مستقبل تاب ناک اور روشن ہے۔اس کے بعد کہکشاں پروین ایوارڈ یافتہ خاتون ڈاکٹر کہکشاں پروین نے بھی اپنے انداز میں باتیں کہیں۔انھوں نے کہا کہ آج کا دن تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ انھوں نے ایسی محفل منعقد کی۔ میں انجمن فروغ اردو کی کوششوں کو سراہتی ہوں اور انھیں میراساتھ ہمیشہ ملتا رہے گا۔اردو کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسے پروگرام کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں پڑھنے لکھنے میں لگن اور دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ افسانہ ناول انسانی ذہن کی آؓ ب یاری کے لیے بہت موزوں ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ طلبہ لکھ نہ سکیں لیکن وہ پڑھنے کی عادت ڈالیں جس سے آپ کا ذہن وسیع ہوتاہے۔ کہنے سننے کا عمل ہی کہانی کو جنم دیتا ہے۔ بس ایک سلیقے کی ضرورت ہے

جس سے کہانی کو لکھا جا سکے۔اس کے بعد انجمن فروغ اردو کے سر پرست ڈاکٹر محمد ایوب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انھوں نے کہا کہ انجمن فروغ اردو کے نوجوانوں کے مختلف اقدام پذیرائی کے لائق ہیں۔ تمام نامساعد حالات کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔ان کے عزائم بہت بڑے ہیں۔ صدارتی خطبے میں ڈاکٹر صفدر امام قادری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔انھوں نے کہا کہ جھارکھنڈ اور اردو افسانے سے میرا کیا رشتہ ہے۔ ۷۷۔۷۶ میں پندار میں اشتہار چھپا۔ افسانہ نگاری کا مقابلہ عنوان سے۔ انسان اور جانو ر عنوان۔ نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک اسکول کا بچہ۔ کنسولیشن پرائز۔ تخلیقی ادب میں قدم بڑھانے کا جھارکھنڈ کا حصہ ہے۔ میں اگر افسانے لکھتا تو شاید میرا بھی شمار ان کے مقابلے میں شمار ہو جاتا۔جھارکھنڈ بنے ۲۳ برس ہوئے لیکن ریجنل ادب پر کام بہت کم ہوسکا۔ اس کا آغا ز اگر انجمن فروغ اردو نے کیا ہے تو ایک عادت بنائیے کسی ایک صنف کو لے کر سال میں ایک سے می نار کیجیے تاکہ لوگ موٹی ویٹ ہو سکیں۔ زکی انور نے آپ کے خطے میں جان دی ایک بہتر کائوز کے لیے جان دی۔

ان پر سے می نار ہونا چاہیے۔ کم لکھنے والوں کی شہرت کی وجہ سے ان پر بہت سے لوگ لکھ جاتے ہیں ۔ ایسے سے می ناروں کے ذریعہ زیادہ لکھنے والوں جن پر کم لکھا گیا ہے ، ان پر لکھا جاتا ہے۔ہمایوں اشرف نے کوشش کی کہ جھارکھنڈ میں افسانے کا جو مزاج بنا، اس کو سمجھنے کی کوشش کی۔الیاس احمد گدی کے افسانوں کا جائزہ لیا جانا باقی ہے۔حالاں کہ انھوں نے چند بہت اچھے افسانے لکھے ہیں۔


سمینار کا دوسرا سیشن افسانہ نگاری کے لیے مختص تھا جس میں جھارکھنڈ کے افسانہ نگاروں نے افسانے کا براہ راست متن پڑھا اور سب سے پہلے جمشید پور سے تشریف لائے سینئر افسانہ نگار جناب انور امام نے اپنا مشہور افسانہ’’ماسٹر دینا ناتھ‘‘پڑھاجس میں انھوں نے تعلیمی درس گاہوں میں ہونے والے مکروہ نظام کو پیش کیا ہے۔تنویر اختر رومانی نے اپنا افسانہ پڑھا۔اختر آزاد نے اپنا افسانہ ’پائوں سے جوتے کے درمیان کی دوری‘ کا متن پیش کیا۔اس کے بعد نیاز اختر نے اپنا افسانہ ’گدھ ‘پیش کیا۔ڈاکٹر محفوظ عالم نے اپنا افسانہ ’پرارتھنا‘پیش کیا۔اس کے بعد دانش حماد جاذب نے اپنا افسانہ’گولڈ چین‘پیش کیا۔صدارتی خطبہ پروفیسر صفدر امام قادری نے پیش کیا ۔

انہوں نے کہا کہ مجلس میں مختصر افسانوں کا انتخا کرنا چاہئے تاکہ سامعین زیادہ محظوظ ہوں اور وقت کا خیال رکھتے ہوئے دوسرے افسانہ نگاروں کو بھی خاطر خواہ موقع ملے۔ان کے مطابق اختر آزاد نے سب سے بہترین افسانہ پڑھا جو کہ قابل تحسین ہیں۔احمد صغیر کی تعریف کرتے ہوئے صفدر امام قادری نے کہا کہ ہم اپنے حلقے سے باہر نکل کربھی افسانے لکھ سکتے ہیں۔انہوں نے احمد صغیر کو کے افسانے کو بھی سراہا اور بتایا کہ افسانے کو احمد صغیر نے بہتر انداز سے پیش کیا اور ان کا افسانہ نہایت نپا تلا تھا ، ایک بھی لفظ اضافی نہیں تھا۔افسانے کا ہنر یہ بھی ہے کہ کون سی باتیں لکھنی ہیں اور کیا نہیں ۔ دانش حماد جاذب نے بھی اختصار کا بھرپور خیال رکھاوہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔پروگرام کی صدارت ڈاکٹر صفدر امام قادری نے کی اور نظامت کے فرائض نیلامبر پتامبر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر تسلیم عارف نے ادا کیے۔
سمینار کا تیسرا سیشن پڑھے گئے افسانوں پر لکھے گئے تجزیے کے لیے مختص تھا۔اس سیشن میں کئی اہم ناقدین نے تجزیے پیش کیے جن میں ڈاکٹر عالمگیر ساحل،ڈاکٹر امیر حمزہ،ڈاکٹر احمد صغیر وغیرہ نے تجزیہ کیا اور جناب شبیر احمد نے صدارتی خطبہ پیش کیا۔اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر امیر حمزہ نے کی۔پروگرام کے آخر میں شہنواز خان نمکین نے شکریے کے الفاظ ادا کیے۔

Leave a Response