All India NewsBlogJharkhand News

شیخ الاسلام کی جرأت کا مظہر , مولانا محمود مدنی ، ایک سچا رہبر

Share the post

تلخیص و تبصرہ : مفتی محمد قمر عالم قاسمی خادم التدریس والافتاء مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی وخطیب حواری مسجد کربلا چوک و شہر قاضی رانچی جھارکھنڈ
آج کا ہندوستان ایسی پیچیدہ صورتِ حال سے گزر رہا ہے جس میں نفرت، مذہبی تعصب، اکثریتی غلبہ، انتقام کی سیاست، شہری آزادیوں پر قدغن، اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور انصاف کے تقاضوں سے انحراف، خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ایسے تاریک اور نازک ماحول میں جب خوف، دباؤ اور فضاء دہشت کا سایہ ملک کی اقلیتوں پر مسلسل طاری ہے، اسی وقت اہلِ علم کی وہ جری آوازیں دلوں کو حوصلہ بخشتی ہیں جو باطل کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی ہمت رکھتی ہیں۔ انہی روشن اور بہادر آوازوں میں سب سے نمایاں نام استاذ العلماء والاساتذہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت مولانا محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم العالیہ کا ہے , جو ظلم کے اندھیروں میں امید کی روشنی ہیں۔ یہ حضرات دراصل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید حضرت سید احمد شہید بریلوی ، سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، شیخ المشائخ وقطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد کنگوہی ، حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور فداۓ ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مراقدہم کے حقیقی وارث ہیں۔

ان بزرگوں نے برطانوی استعمار کے مقابلے میں جس استقامت، جرأت، استقلال اور دینی حمیت کا مظاہرہ کیا، آج اسی وراثت کی خوشبو حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی اور حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی کے لہجے، طرزِ فکر اور عملی کردار سے عیاں ہے۔
“جب جب ظلم ہوگا تب تب جہاد ہوگا”بھوپال میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ منتظمہ کے اجلاس میں حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے بے باک انداز میں جو خطاب فرمایا، وہ صرف ایک تقریر نہیں بلکہ ان کی پوری جدوجہد کا آئینہ ہے۔
انہوں نے پرجوش لہجے میں کہا: “ہم پیٹھ پر گولی نہیں کھائیں گے، سینے پر کھائیں گے”جب جب ظلم ہوگا تب تب جہاد ہوگا” ہمارا جنازہ نکلے گا تو اس پر جمعیۃ علماء کا جھنڈا ہوگا، ان شاء اللہ!” یہ جملے محض جذبات نہیں بلکہ اس تاریخی روایت کا جاری تسلسل ہیں جس میں علماءِ ہند نے غلامی کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں، کوڑے کھائے، قید و بند کی سختیاں برداشت کیں، اور آزادی و عزت کے لیے دنیا کی بڑی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے۔مولانا مدنی نے بڑی وضاحت سے فرمایا: “مردہ قومیں مشکلات سے گھبرا جاتی ہیں اور سلنڈر کر جاتی ہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں ہمیں حوصلہ بلند رکھنا ہوگا۔”

حضرت مدنی نے بڑے درد کے ساتھ یہ حقیقت بیان کی کہ آج مسلمانوں کو کمزور اور بدنام کرنے کے لیے من گھڑت اور بے بنیاد اصطلاحات گڑھی جا رہی ہیں، “لو جہاد، لینڈ جہاد، تھوک جہاد ، تعلیم جہاد “وغیرہ جملے استعمال کرکے مسلمانوں کی سخت دل آزاری اور ان کے مذہب کی توہین کی جا رہی ہے اسلام میں جہاد کا بنیادی مقصد “ظلم کا خاتمہ، امن کا قیام ، اور حق کا دفاع ہے”۔ دینی مدارس کے خلاف منظم مہم، مسلم اوقاف کو ہڑپنے کی پوری تیاری ، حلال فوڈ پر پابندیوں کی سازش ، کنورژن قوانین کے ذریعے مذہبی آزادی پر قدغن، گھر واپسی کے نام پر کسی خاص دھرم میں شامل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ، موب لنچنگ جیسی انسانیت سوز وارداتیں ، بلڈوزر کارروائیاں ، گیان واپی و متھرا کیسوں کو قابلِ سماعت قرار دینا 1991ء کے عبادت گاہ ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی یہ تمام اقدامات اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے دل میں خوف کی کیفیت پیدا کرتے ہیں، کیونکہ آج ہندوستانی مسلمان خود کو راہ چلتے غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں ؛لیکن یہ ایک زندہ قوم کے حوصلے کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔اسی ماحول میں یہ اشعار قوم کے درد کو پوری شدت کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں:
کلیجہ تھام لو رودادِ غم ہم کو سنانے دو
تمہیں دکھا ہوا دل ہم دکھاتے ہیں، دکھانے دو
اسی کے دم سے تھوڑی روشنی ہے خانۂ دل میں
بجھاتے کیوں ہو شمعِ آرزو کو جھلملانے دو
یہ بجلی اس دل خوابیدہ کو ایک تازیانہ ہے
میری محرومیوں پر آسماں کو مسکرانے دو
اسی سے تم کسی کے زلف کی روداد سن لینا
ادھر دیکھو وہ دیوانہ چلا آتا ہے آنے دو
سُنا ہے عشق کی معراج پنہاں ہے شہادت میں
چھری لاؤ، ہمیں بھی اپنی قسمت آزمانے دو
وفا پر میری جو تہمت لگاتے ہیں لگانے دو
نہ داغ آئے گا دامنِ حسنِ طبیعت پر
زمانہ صبر کر لیتا ہے عاجز ہم بھی کر لیں گے
خلش دل کی مٹا لینے کو دو آنسو بہانے دو
ہندوستان کی آزادی کی تاریخ دراصل علماء ہند کی لازوال قربانیوں سے عبارت ہے۔ ایسے ناقابلِ فراموش واقعات تاریخ کے ماتھے کے جھومر ہیں۔ دہلی کا چاندنی چوک علماء اکابرین مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوا ہزاروں علماء کو توپوں کے دہانے پر باندھ کر اُڑایا گیا سینکڑوں نے پھانسی کے پھندے قبول کیےنامور اکابر نے جیلوں کی سختیاں برداشت کیں ملک بدر کیا گیا، لیکن باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں علماء اکابر اور مسلمانان ہند نے اس گلستان کی آزادی کے لیے اپنی جان و مال عزت و آبرو کی قربانیاں پیش کیں ان ہی بزرگوں کے خون کا فیض ہے کہ آج بھی زندہ ہے حضرت مولانا مدنی نے اپنے خطاب میں عدلیہ کے کردار پر بھی نہایت ذمہ دارانہ گفتگو کی:“سپریم کورٹ اسی وقت سپریم ہوگا جب وہ آزاد اور آئینی بنیادوں پر فیصلے دے گا۔”اگر فیصلے حکومت کے دباؤ میں ہوں تو عدلیہ سپریم نہیں رہتی۔”یہ پیغام اس ملک کی جمہوریت، آئین کی بالادستی، اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے۔انہوں نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ:خوفزدہ نہ ہوں آئین کی روشنی میں اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں کیونکہ ملک کی آئین نے ہمیں اپنے مذہب پر چلنے اور اس کے تبلیغ کی اجازت دی ہے لیکن اس بنیادی حقوق کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اس قانون کو اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ مذہب کی تبلیغ کا عمل خوف اور سزا کا مستحق بن جائے دوسری طرف گھر واپسی کے نام پر کسی خاص دھرم میں شامل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے ان پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا ہے اور نہ کوئی قانونی کاروائی ہوتی ہے یوں قانون کا مقصد غیر جانبداری نہیں رہتا بلکہ ایک خاص مذہبی سمت کی طرف سماج کو دھکیلا جاتا ہے یہ پورا ڈھانچہ دراصل دوہرے رویہ کا مظہر ہے کہ ایک طرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی حق دعوت کو جرم بنا دیا جائے تو دوسری طرف مسلم نوجوانوں کو دباؤ خوف اور ریاستی تائید یافتہ سرگرمیوں کے ذریعے اکثریت کے مذہب میں شامل ہونے پر مجبور کیا جائے۔صبر و حکمت کے ساتھ جدوجہد جاری رکھیں قومی شناخت اور دینی تشخص کی حفاظت کریں۔تعلیم، روزگار اور تنظیمی بیداری کو مضبوط بنائیں۔ مولانا مدنی کی آواز دراصل شیخ الاسلامؒ کے اس اعلان کا تسلسل ہے جو انہوں نے انگریزوں کے سامنے کیا تھا:
“حسین اپنے ساتھ کفن باندھ کر آیا ہے!”یہ جرأت، یہ للکار، یہ استقامت — آج بھی انہی کے خانوادے کے لہجے میں پوری آن بان کے ساتھ موجود ہے۔قومیں اسی وقت زندہ رہتی ہیں جب وہ اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں، اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار رہتی ہیں، اور ظلم و ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔
حضرت مولانا محمود اسعد مدنی کی یہ جرأتمندانہ آواز ہندوستانی مسلمانوں کے لیے امید کا چراغ بھی ہے اور مستقبل کا راستہ بھی۔ یہ آواز اعلان کرتی ہے کہ:“ہم زندہ قوم ہیں، ظلم سے دبنے والی نہیں!ہماری وراثت آزادی، شجاعت اور ایمانداری ہے۔

Leave a Response