All India NewsBlogfashionJharkhand NewsNewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

مولانا عبد السبحان ندوی ایک گوھر نایاب علمی و ادبی شخصیت (ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی 7004951343)

Share the post

ہندوستان کی تین عالمی شہرت و مقبولیت یافتہ اور دینی تعلیم و تربیت کی عظیم درسگاہ دارالعلوم دیوبند ، مظاہرالعلوم سہارنپور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ التحصیل باصلاحیت اور باکمال ممتاز علماء و فضلاء سے موجودہ جھارکھنڈ(پہلے بہار) کی سرزمین خصوصاً رانچی کبھی خالی نہیں رہا ، ان تینوں مرکزی اداروں کے فارغ التحصیل باصلاحیت اور باکمال علماء و فضلاء نے اپنے اپنے علاقوں میں کئی چھوٹے بڑے دینی و تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں یا پہلے سے قائم ادارے میں اپنی انتظامی و علمی صلاحیت و قابلیت سے پژمردہ ادارہ کو جلا بخشا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے زوال پذیر معاشرے میں عام طور پر بڑی بڑی تنظیموں ، اداروں اور اعلی سلسلے سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں اور ان کے صاحبزادگان کے وراثتی کارناموں کے بارے میں ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن گاؤں کے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی علمی و ادبی شخصیات ، ان کی خدمات اور ان کے کارناموں پر کچھ لکھنا اور پڑھنا ” شجر ممنوعہ ” سمجھا جاتا ہے جس کی بناء پر رانچی کی بہت ساری علمی و ادبی شخصیات ، ان کی خدمات اور ان کے کارناموں کو ” گھر کی مرغی دال برابر ” سمجھ کر یا دل میں موجود بغض و عناد اور حسد و کینہ کپٹ کی مہلک بیماری کی وجہ کر ہم فراموش کر دیتے ہیں جبکہ بڑے بڑے اداروں ، تنظیموں ، خانقاہوں اور مدرسوں میں بطورِ وراثت قبضہ جمائے صاحبزادگان اور شاہزادوں کی تقریری و تحریری قصیدہ خوانی میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنا پستہ قد اونچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ، محدود ذرائع و وسائل کے باوجود اپنے بیچ سے نکل کر علمی و ادبی مقام و مرتبہ حاصل کرنے والی شخصیات کو فراموش کر دینا یا ان کو ان کے مقام و مرتبہ سے نیچے گرانا ہماری طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ، انھیں شخصیات میں ایک باکمال ، باصلاحیت اور ناقابل فراموش شخصیت مولانا عبد السبحان ندوی صاحب کی ہے ، جن کی علمی ، فکری اور ادبی صلاحیتوں سے وہی لوگ واقف ہیں جنھوں نے حضرت مولانا عبالسبحان ندوی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے اور اپنی علمی تشنگی بجھائی ہے یا ان کے قریب رہے ہیں ، الحمداللہ میں نے ان سے مدرسہ اسلامیہ رانچی میں رہتے ہوئے شرف تلمذ حاصل کیا ہے اس لئے مجھے اس کا اعتراف بھی ہے اور اس کا احساس بھی ہے ، مولانا عبد السبحان ندوی صاحب بنیادی طور پر راتو بلاک کی مشہور و مقبول علمی بستی بناپیڑھی کے رہنے والے ہیں جن کی پیدائش 24 مارچ 1951ء کو بناپیڑھی میں ہی ہوئی ، اس اعتبار سے ان کا تعلق خالص جھارکھنڈ کی مٹی سے ہے جس کی پہلی خاصیت اپنے علاقے سے محبت ، وفاداری ، ہمدردی ، خلوص اور سادگی ہے جس کی جھلک آگے کی تحریر میں نظر آئے گی ، جھارکھنڈ کی مٹی سے پیدا ہونے والے لوگوں میں ریاکاری ، مکاری ، دھوکہ بازی ، مفاد پرستی ، خود غرضی اور موقع پرستی عام طور پر نہیں ہوتی الا ماشاءاللہ ، جس کی زندہ تصویر بناپیڑھی راتو رانچی کے مشہور و معروف عالم دین اور عربی زبان و ادب میں عبور و مہارت رکھنے والے مولانا عبد السبحان ندوی صاحب ہیں جنھوں نے ملک کے مشہور و معروف علمی ادارہ ” ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی ، ندوہ میں آپ کا شمار ذہین و فطین طلباء میں ہوتا تھا ، ندوہ سے ہی آپ نے فضیلت کی سند حاصل کی ، عربی زبان و ادب میں آپ کی قابلیت و صلاحیت کا اعتراف آپ کے اساتذہ و معاصرین کو بھی تھا اور آج بھی علماء طبقے میں آپ فاضل ندوہ کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب میں بے پناہ قابلیت و صلاحیت رکھنے والے عالم دین کے طور پر مشہور و معروف ہیں ، آپ کی علمی و ادبی قابلیت و صلاحیت کی بناء پر سینکڑوں اردو و عربی کتابوں کے مصنف اور عالمی شہریت یافتہ بزرگ عالم دین اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے روح رواں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ملقب علی میاں ندوی صاحب کے نزدیک آپ کا شمار ان کے خاص شاگردوں میں ہوتا تھا ،جس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مولانا علمی میاں ندوی صاحب علیہ الرحمہ کی آنکھوں کی بینائی زندگی کے آخری چند سالوں میں جب بہت کم یا بالکل ختم ہو گئی تھی تو مولانا علمی میاں ندوی صاحب علیہ الرحمہ اپنی چند تصانیف آپ ہی سے تحریر کراتے تھے ، وہ اس طرح کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب اپنی تخلیقی صلاحیت سے بولتے جاتے تھے اور مولانا عبد السبحان ندوی صاحب لکھتے جاتے تھے ، اس طرح ندوہ میں رہتے ہوئے مولانا علی میاں ندوی صاحب کی کئی کتابوں کی تصنیف و تالیف میں مولانا عبد السبحان ندوی صاحب کی تحریری معاونت شامل رہی ہے ،

حضرت مولانا علمی میاں ندوی صاحب کا مولانا عبد السبحان ندوی صاحب پر اتنا اعتماد و یقین ان کے خصوصی مقام و مرتبہ کو ظاہر کرتا ہے مگر اپنی فطری سادگی و خلوص کی وجہ کر مولانا عبد السبحان ندوی صاحب نے کبھی اس کا چرچا عام نہیں کیا اور نہ ہی ندوہ میں رہتے ہوئے دوسرے طلباء پر فخر و غرور کا اظہار کرتے تھے ، حضرت مولانا علمی میاں ندوی صاحب جب بھی بزریعہ رکشہ رائے بریلی سے ندوہ تشریف لاتے تو ان کے ساتھ اکثر وبیشتر مولانا عبد السبحان ندوی صاحب ہوا کرتے تھے ، حضرت مولانا عبد السبحان ندوی صاحب کی حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب سے اتنی قربت دیکھ کر ندوہ کے دوسرے طلباء رشک کیا کرتے تھے ، اسی قربت و صحبت اور آپ کی علمی صلاحیت و استعداد کی بناء پر مولانا علمی میاں ندوی صاحب اور ندوہ کے دوسرے ذمےداروں نے آپ سے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دینے کا بارہا اسرار کیا جس کی لوگ تمنائیں کیا کرتے ہیں ، اس سے قبل حضرت مولانا علمی میاں ندوی صاحب کے توسط سے آپ کو مدینہ منورہ یونیورسٹی بھی جانے کا موقع ملا لیکن علاقےکی محبت و ہمدردی اور اپنے علاقے میں رہ کر اپنے ہی علاقے کے لوگوں کی دینی و ادبی اور تدریسی خدمت کو آپ نے مدینہ یونیورسٹی اور ندوۃ العلماء لکھنؤ جیسی عالمی شہرت و مقبولیت یافتہ علمی و ادبی ادارہ کی خدمت پر ترجیح دی ، اگر چند گھریلو حالات و واقعات آپ کی راہ میں حائل نہ ہوتے تو آج آپ کا شمار ندوہ کے سینئر اور ممتاز اساتذہ میں ہوتا اور آپ کا شمار ہندوستان کے اکابرین علماء میں ہوتا ، ان تمام مواقع کو پیچھے چھوڑ کر آخر کار آپ ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اپنے وطن بناپیڑھی تشریف لے آئے ، بناپیڑھی کے مدرسہ ” دارالعلوم اسلام نگر ” کے ساتھ جذباتی رشتہ و تعلق کی بنا پر آپ اس کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے میں لگ گئے ، دارالعلوم اسلام نگر کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے میں جن اہم شخصیات کا نام آتا ہے ان میں مولانا عبد السبحان ندوی صاحب کی ذات خصوصیت کا درجہ رکھتی ہے جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ، مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر بناپیڑھی کے دفتر کے باہر مدرسہ کے نظماء اور محسنین کا جو بورڈ لگا ہوا ہے اس میں مولانا عبد السبحان ندوی صاحب کا نام جلی حرفوں سے لکھا ہوا آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ، تقریبآ دس سالوں تک آپ دارالعلوم اسلام نگر بناپیڑھی کے جنرل سکریٹری رہے اور مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب ناظم اعلیٰ ، آپ دونوں کی ہم آہنگی اور معیت نے مدرسہ کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، 11 / نومبر 1973ء کو مولانا عبد السبحان ندوی صاحب رانچی میں مولانا ابوالکلام آزاد کے قائم کردہ ادارہ ” مدرسہ اسلامیہ رانچی” جو بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ بعد میں جھارکھنڈ اکیڈمک کونسل سے ملحق ہے میں عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے بحال کئے گئے ، مدرسہ اسلامیہ رانچی میں آپ کے پڑھانے کا انداز اور طریقہ سب سے نرالا تھا ، طلباء سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کے اندر علمی ذوق اور علمی صلاحیت پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے ، طلباء بھی آپ کی بہت عزت و احترام کرتے تھے ، مولانا عبد السبحان ندوی صاحب جس زمانے میں مدرسہ اسلامیہ رانچی میں عربی زبان و ادب کے استاذ کی حیثیت سے تشریف لائے اس دور میں مدرسہ اسلامیہ رانچی کے پرنسپل حضرت مولانا قاسم جمالی صاحب تھے جو اصول و ضوابط کے بڑے سخت پابند تھے ، اسی دور میں حضرت مولانا شعیب رحمانی صاحب ، مولانا یاسین قاسمی صاحب ، ماسٹر عاشق الٰہی صاحب ، ماسٹر یونس صاحب جیسے باکمال اور باصلاحیت اساتذہ کی خدمات مدرسہ اسلامیہ رانچی کو حاصل تھیں ، اس زمانے میں طلباء کی کثیر تعداد مدرسہ اسلامیہ میں ہوا کرتی تھی ، با ضابطہ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء کے لئے مطبخ کا نظام قائم تھا ، پڑھنے پڑھانے کا ماحول ہوا کرتا تھا جو بعد میں عنقاء ہو گیا ، حضرت مولانا قاسم جمالی صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد سب سے سینئر استاذ کی حیثیت سے مولانا عبد السبحان ندوی صاحب یکم فروری 2006ء کو مدرسہ اسلامیہ رانچی کے پرنسپل ہوئے اور 31 / مارچ 2013ء میں پرنسپل کی حیثیت سے ہی ریٹائر ہوئے ، ریٹائرمنٹ کے بعد مولانا رانچی کے مشہور و معروف قصبہ اٹکی میں مکان بناکر رہ رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو صحت و تندرستی عطاء فرمائے آمین ، اس طرح تقریباً چالیس سالوں تک آپ مدرسہ اسلامیہ رانچی میں تدریسی خدمات بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ، آپ کی عربی زبان و ادب میں مہارت و قابلیت کے سب قائل تھے ، میری طالب علمی کے زمانے میں ڈورنڈہ کے میکون سے روزانہ ایک کار آتی تھی جس میں بیٹھ کر مولانا روزانہ میکون جاتے تھے اور وہاں کے افسروں کو عربی زبان و ادب کی تعلیم دیتے تھے ، مدرسہ اسلامیہ رانچی میں رہتے ہوئے آپ ہی کی محنت و کوشش سے بعد میں مولانا صلاح الدین صاحب مظاہری ، مولانا حماد صاحب قاسمی ، مولانا حبیب اللہ صاحب ندوی اور مولانا عطاء اللہ صاحب ھلالی مدرس کی حیثیت سے بحال کئے ، آج وہ سب بھی ریٹائر ہوچکے ہیں اور آج مدرسہ اسلامیہ رانچی انجمن اسلامیہ رانچی کی بے توجہی کی وجہ کر اساتذہ سے خالی اپنی بدحالی کے آنسو بہا رہا ہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام گن رہا ہے جسے نہ کوئی دیکھنے والا ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے ، مدرسہ اسلامیہ رانچی اور انجمن اسلامیہ رانچی کی موجودہ حالت زار کو دیکھ کر مولانا آزاد کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اے امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد : آپ نے رانچی میں اپنی چار سالہ اسیری کے زمانے میں قید و بند کی سختیاں جھیل کر اور اپنوں کے طعنہ سہہ کر مدرسہ اسلامیہ اور انجمن اسلامیہ کا جو باغ لگایا تھا اب اس میں کانٹے زیادہ ابھر آئے ہیں اور اب پھول کہیں کہیں رہ گئے ہیں ، مولانا عبد السبحان ندوی صاحب بلا شبہ مدرسہ اسلامیہ رانچی کے مہکتے ہوئے ایک ایسے پھول تھے جو مسلسل چالیس سالوں تک اپنی عربی زبان و ادب کی خوشبو سے مدرسہ اسلامیہ رانچی کے طلباء کو مہکاتے رہے ، آج بھی عربی زبان و ادب کا یہ پھول اٹکی کی سرزمین میں مہک رہا ہے مگر زوال پذیر معاشرہ اس خوشبو کو پھیلانے میں بہت بخیل واقع ہوا ہے ،

Leave a Response