All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi NewstechnologyUncategorizedvideos

حافظ نذیر صاحب مرحوم کی شخصیت اور ان کی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

اللہ اپنے دین کی خدمت کے لئے کب کس کو کھڑا کردے کوئی نہیں جانتا ، دین کی خدمت اور دینی رہنمائی کا جب ذکر ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر علماء کرام کی ہمہ جہت خدمات کا ہی اعتراف کیا جاتا ہے جو غلط بھی نہیں ہے ، جبکہ بعض حفاظ کرام کی دینی خدمات بعض علماء سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں ، عام طور پر علماء کے زمرے میں حفاظ کرام کو شامل نہیں کیا جاتا ہے جبکہ قرآن جو تمام علوم کا سر چشمہ ہے اس کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے والے حفاظ کرام کی دینی خدمات اور ان کی قربانیوں کے پس منظر میں ہی حدیث رسول میں قران پڑھنے اور پڑھانے والے کو سب سے بہتر کہا گیا ہے(خیرکم من تعلم القران و علمہ ) جھارکھنڈ کے مختلف اضلاع اور خصوصاً رانچی کے مختلف علاقوں میں کئی ایسے حفاظ کرام ہوئے اور ہیں

جنھوں نے قرانی علوم کی اشاعت اور دینی خدمات میں بعض علماء کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ، انھیں میں ایک اہم اور نمایاں نام ہند پیڑھی رانچی کے رہنے والے جناب حافظ نذیر صاحب کا ہے ، حافظ نذیر صاحب بنیادی طور پر کانٹھی ٹانڑ کے رہنے والے تھے جہاں آپ کی پیدائش 1951 میں ہوئی ، آپ اپنے والد کے ساتھ ہند پیڑھی رانچی آگئے اور مستقبل سکونت اختیار کر لی ، حافظ نذیر صاحب نے مدرسہ حسینیہ کڈرو ، مدرسہ اسلامیہ رانچی اور جمشیدپور کے کسی مدرسہ میں بھی چند سالوں تک تعلیم حاصل کی

، آخیر میں مدرسہ دارالقرآن میں بھی تعلیم حاصل کی اور 1967 میں اپنے استاذ قاری اسحاق صاحب سابق امام چھوٹی مسجد سے حفظ قرآن مکمل کیا ، آپ کے اساتذہ میں قاری اسحاق صاحب ، میرے والد محترم محمد صدیق مظاہری ، مولاںا جمیل اختر صاحب ، مولانا الطاف حسین قاسمی صاحب صاحب ، حافظ مبارک صاحب ، قاری مطیع الرحمان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، ابتداء میں حافظ نذیر صاحب کی انکھیں صحیح سالم تھیں مگر کسی بِیماری کی وجہ سے دھیرے دھیرے ان کی انکھوں کی روشنی چلی گئی اور کچھ عرصے کے بعد وہ کلی طور پر انکھوں سے معذور ہوگئے ، اس کے باوجود انھوں نے وہ کام کیا کہ انکھوں والے حیران رہ گئے اور داد تحسین دئے بغیر نہ رہ سکے ، مولانا جمیل اختر صاحب جس دور میں ہند پیڑھی بڑی مسجد کے امام و خطیب تھے تو انھوں نے ایک روایتی امام بن کر رہنا پسند نہیں کیا بلکہ انھوں نے امامت و خطابت کی ذمےداریوں کو نبھاتے ہوئے مذہبی ، سیاسی اور سماجی ذمےداریوں کو بھی بحسن وخوبی انجام دے کر عملی طور پر ثابت کردِیا کہ مسجد کا امام صرف چار رکعت کی نماز کا امام نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے بلکہ مسجد کا امام اپنے علاقے کا مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی رہنما بھی ہوتا ہے ، اپنے اسی نظریہ کے پیش نظر ہند پیڑھی میں دینی تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے مولانا جمیل اختر صاحب نے 1962 میں بڑی مسجد سے متصل خالی پڑی زمین جس پر محلے کے لوگ کوڑا پھینکا کرتے تھے مدرسہ ” دارالقرآن” قائم کیا ، مدرسہ دارالقرآن کی شہرت و مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں حضرت مولانا الطاف حسین قاسمی صاحب علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا قاری علیم الدین قاسمی صاحب علیہ الرحمہ اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب علیہ الرحمہ اور قاری اسحاق صاحب علیہ الرحمہ وغیرہ مدرسہ دارالقرآن کے اساتذہ ہوا کرتے تھے ، مدرسہ دارالقرآن میں مقامی طلباء کے علاوہ بیرونی طلباء بھی پڑھنے لگے جس سے مدرسہ دارالقرآن کی شہرت و مقبولیت میں چار چاند لگ گیا

اور مولانا جمیل اختر صاحب کے کارناموں کی جئے جئے کار ہونے لگی تو کچھ لوگوں کو شیطان نے ” انا خیر منہ” ( میں تم سے بہتر ہوں) کا علم اور بغض و عناد اور ذاتی مفاد و خود غرضی کا ہتھیار دے کر کھڑا کردیا ، ایسے لوگ خود تو مولانا جمیل اختر نہیں بن سکتے تھے اور نہ ہی ان کی شہرت و مقبولیت کی بلندی تک پہنچ سکتے تھے تو ایسے فتنہ پرور لوگوں نے اپنی تمام تر اخروی کامیابی مولانا جمیل اختر صاحب کو ان کے مقام سے گرانے میں ہی سمجھا ، اس کے لئے تمام شیطانی ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، مولانا جمیل اختر صاحب کے مدرسہ چھوڑنے کے بعد مدرسہ ” دارالقرآن” میں زوال کا گرھن لگ گیا اور ایک عرصے تک مدرسہ بند پڑا رہا ، اس بند پڑے مدرسہ دارالقرآن کو توفیق الٰہی سے جناب حافظ نذیر صاحب سے دوبارہ 1972 میں ایک طالب علم حافظ عبد الغفار سے شروع کیا ، کسی بند پڑے ادارہ کو دوبارہ جاری کرنا اور چلانا کتنا مشکل ترین کام ہوتا ہے یہ ادارہ چلانے والے ہی جانتے ہیں ، مدرسہ دارالقرآن کے گرتے ہوئے معیار کو بحال کرنا اور نئے سرے سے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا بہت مشکل ترین کام تھا جسے جناب حافظ نذیر صاحب نے اپنی تمام تر مجبوریوں اور پریشانیوں کے باوجود کر کے دکھا دیا ، اتنی بڑی ابادی میں آنکھوں سے معذور حافظ نذیر صاحب کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ داعیہ پیدا کیا کہ مدرسہ دارالقرآن کو دوبارہ شروع کیا جائے ،اس کے لئے انھوں نے مختلف لوگوں سے اپنی معاونت اور رہبری کی گزارش کی ، جناب حافظ نذیر صاحب کے حوصلے اور اور ان کے جذبے کو دیکھتے ہوئے چند حضرات حافظ نذیر صاحب کی رہنمائی اور ان کی معاونت میں کھڑے ہو گئے جن میں قاری علیم الدین قاسمی صاحب ، مولانا جمیل اختر صاحب اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب ، حافظ عبد العزیز صاحب امام بڑی مسجد ، حاجی فضل الرحمان صاحب ، ماسٹر عبدالجلیل صاحب ، ماسٹر عرفان صاحب ، ماسٹر غوث صاحب ، حاجی غلام سرور صاحب امیر جماعت ، قمر العارفین صاحب وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، ان حضرات کا ساتھ مل جانے کے بعد حافظ نذیر صاحب نے اپنا پورا زور مدرسہ دارالقرآن کو آگے بڑھانے میں لگا دیا ، چند ہی سالوں میں کئی مقامی طلباء نے حفظ مکمل کرلیا ،
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ،
کی بات سچ ثابت ہوتی ہوئی نظر آنے لگی ، مدرسہ دارالقرآن کو دوبارہ ژندگی مل گئی ، اس طرح حافظ نذیر صاحب کی محنت و کاوش سے مدرسہ دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگا ، مگر آپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود مدرسہ دارالقرآن علمی شہرت و مقبولیت کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جو شہرت و مقبولیت مدرسہ دارالقرآن کو مولانا جمیل اختر صاحب کے وقت میں حاصل تھی ، یاد رکھئے جب بھی کسی مسجد یا مدرسہ سے کسی باصلاحیت امام و خطیب یا کسی مدرس کو چند فتنہ پرور لوگوں کے بغض و عناد ، حسد و کینہ اور ذاتی رنجش کی بنیاد پر شیطانی ہتھکنڈے اور مکر و فریب سے ہٹایا جاتا ہے یا ہٹنے پر مجبور کردیا جاتا تو اس مسجد یا مدرسہ میں دوسرے امام و خطیب یا کسی دوسرے مدرس سے خانہ پری تو ہوجاتی ہے لیکں اس مسجد و مدرسہ میں وہ جلوہ نظر نہیں آتا ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا ، مدرسہ دارالقرآن کو حافظ نذیر صاحب نے اپنے خون پسینہ سے سینچا ہے جس کے نتیجے میں شہر رانچی خصوصاً ہند پیڑھی کے سینکڑوں بجے حافظ قرآن بن کر مختلف مقامات پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں جس کا سہرا بلا شبہ حافظ نذیر صاحب کو جاتا ہے ، حافظ نذیر صاحب نے مدرسہ دارالقرآن کو دوبارہ شروع کر کے کتنی بڑی دینی خدمات انجام دیا ہے اس کا اندازہ صرف ایک

واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ چترا کا ایک غریب لڑکا بٹھی چوک ھند پیڑھی کے ” معین ہوثل ” میں گلاس دھونے کا کام کیا کرتا تھا ، حافظ نذیر صاحب اکثر و بیشتر اس ہوٹل میں چائے پینے جایا کرتے تھے ، حافظ نذیر صاحب نے اس لڑکے کے پڑھنے کے شوق کو دیکھ کر اس کو ہوٹل سے نکال کر مدرسہ دارالقرآن میں داخلہ کرایا ، اپنے گھر میں اپنی اولاد کی طرح رکھا ،چند ہی سالوں میں ہوٹل میں کام کرنے والا وہ بچہ حافظ قرآن کا حافظ و قاری بن گیا ، ہوٹل میں گلاس دھونے والا وہ لڑکا آج حافظ و قاری عبد الحفیظ کی شکل میں رانچی کی قدیم اور مشہور و معروف ” پتھل مسجد” میں ایک عرصے سے امامت کے فرائض انجام دے رہا ہے ، قاری عبد الحفیظ صاحب امام پتھل کدوا مسجد رانچی کی زندگی کا رُخ موڑنے میں حافظ نذیر صاحب کی جو قربانی رہی ہے اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ، اس طرح مختلف واقعات ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جافظ نذیر صاحب نے سینکڑوں لڑکوں کو مدرسہ دارالقرآن میں داخلہ کراکر اپنی محنت و کاوش سے حافظ قرآن بنا کر ان کی زندگی کا رُخ موڑ دیا ، سینکڑوں ایسے ماں باپ اور گارجین حضرات جو اپنے بچوں کو باہر نہ بھیج کر اپنے مقام میں رہتے ہوئے حافظ قرآن بنانے کی تمنا اور آرزو رکھتے تھے ، حافظ نذیر صاحب نے اپنی سرپرستی و رہنمائی اور اپنے اساتذہ و معاونین کے تعاون سے ایسے تمام لوگوں کی تمناؤں اور آرزوؤں کو پورا کیا ہے ، مدرسہ دارالقرآن کے قدیم اساتذہ میں مولانا اختر صاحب ، قاری ادریس صاحب ، مولاںا ذبیح اللہ شمسی صاحب اور مولانا مجاھد صاحب کی تدریسی خدمات قابل تعریف رہی ہیں ، ان کے علاوہ حافظ زبیر صاحب ،حافظ مظہر صاحب کی تدریسی خدمات بھی جاری ہیں ، اس وقت مدرسہ دارالقرآن میں چودہ اساتذہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ، حافظ نذیر صاحب کی وفات کے بعد مہتمم حافظ زبیر صاحب کو بنایا گیا ہے جو مسند اہتمام کی ذمےداریوں کو بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں ، جناب حافظ نذیر صاحب کا کمال صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں بند پڑے مدرسہ دارالقرآن کو دوبارہ شروع کر کے قرآنی تعلیم کا فیض جاری کردیا بلکہ دوسرا بڑا کمال یہ ہے کہ ندی گراؤنڈ ھند پیڑھی میں مسلم آبادی بڑھی تو انھوں نے اس علاقے کے بچوں کی دینی تعلیم کے لئے 1989 میں زمین خرید کر ایک مدرسہ ” انوار العلوم قاسمیہ” قائم کردیا جو ماشاءاللہ بہت اچھا چل رہا ہے جس کے علمی فیض سے علاقے کے بچے فیضیاب ہو رہے ہیں ، اس مدرسہ کے مہتمم حافظ نذیر صاحب کے لڑکے حافظ سعد صاحب ہیں ، جبکہ حافظ نذیر صاحب کے دوسرے لڑکے حافظ حذیفہ صاحب دونوں مدرسہ کی نگرانی کرتے ہیں ، حافظ نذیر صاحب کے یہ دونوں لڑکے اپنے والد محترم کی قرآنی تعلیم کی وراثت کو بہت بہتر طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی ذمےداریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ، حافظ نذیر صاحب کا انتقال 2/ نومبر 2022 کو ہوا ، عشاء کی نماز کے بعد آپ کی نماز جنازہ آپ کے لڑکے حافظ حذیفہ نے پڑھائی اور ڈرنڈہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ، اللہ تعالیٰ حافظ نذیر صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ، ان دونوں لڑکوں کو اپنے والد محترم کا صحیح جانشیں بنائے آمین ثم آمین

Leave a Response