All India NewsBlogfashionJharkhand News

تفرقہ بازی بہرحال مذموم ہے ، (رانچی کی ایک پریس کانفرنس کے تناظر میں )

Share the post

°°°°°°°°°آفتاب ندوی دھنباد
اسی ہفتہ رانچی کے ایک اخبار میں خبر چھپی کہ رانچی شہر کے ایک معروف عالم مولانا عبید اللہ صاحب قاسمی ایک آل انڈیا پسماندہ تنظیم کی طرف سے ریا ست جھارکھنڈ کے صدر بنائے گئے ہیں ، لیکن اخبار میں پسماندہ مسلم پرسنل لا بورڈ چھپ گیا ، اس خبر سے مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ یہ بورڈ کو جو مسلمانوں کا ایک متحدہ پلییٹ فارم ہے اسے کمزور کرنے کی سازش تو نہیں ، رانچی کے کئ علماء اور انجمنوں کے ذمہ داروں نے ایک پریس کانفرنس کرکے مسلم پرسنل لا بورڈ کے تئیں اپنے اعتماد اور بھروسہ کا اظہا ر کرتے ہوئے اس طرح کی کوششوں کو غلط قرار دیا ، یہ تحریر اخبار کی خبر پھر پریس کانفرنس کے انعقاد پر تبصرہ و تجزیہ کے طور پر لکھی گئ ہے ، ،، ،،،،
اتحاد و اتفاق کے فروغ اور اور مسلمانوں بلکہ ملک کے تمام قوموں اور تمام طبقات میں پیار محبت کو عام کرنے اور انتشار و افتراق اور فرقہ واریت اور لڑائی جھگڑے سے سماج کو بچانے کیلیے کسی بھی طرح کی کوشش قابل مبارکباد اور لائق صد تحسین ہے ،جو لوگ معاشرہ کو بانٹنے اور برادریت ، مسلک ، زبان کے اختلاف کو ہوا دیکر مسلمانوں اور لوگوں میں دوریاں پیدا کر رہے ہیں وہ قابل مذمت ہیں ، انکی ہمت شکنی ضروری ہے ، اس پریس کانفرنس میں جتنے لوگ شریک ہوئے خاص طور پر مختلف برادریوں کے معزز نمائندے اور علماء قابل مبارکباد ہیں ، انکے نیک جذبہ کو سراہنا چاھئے ، اسلام ایک عالمی مذہب ہے ، تمام انسان اسکی نظر میں ایک ہی کنبہ کے افراد ہیں ، سب آدم و حواء کی اولاد اور سنتان ہیں ، اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں ، ظاہر ہے جس مذہب کا بنیادی نظریہ یہ ہو ، جسکی مین آئیڈیا لوجی یہ ہو وہ مسلمانوں میں اونچ نیچ اور رذیل و شریف کیونکر برداشت کرسکتا ہے ،

لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہیکہ دوسروں سے متأثر ہوکر ہمارے اندر بھی اسکے جراثیم سرایت کر گئے ، اور ہم میں سے ہر برادی اپنے کو افضل اور دوسری تمام برادریوں کو حقیر اور کمتر سمجھنے لگی، یہ داستان بہت دلخراش اور المناک ہے ، ہم سبھی لوگ اس سے واقف ہیں ، شوہر بیوی اور انکے خاندانوں میں دین ، تعلیم اور سماجی و معاشی حالات میں اتنا فرق اور اختلاف نہ ہو کہ نباہ نہ ہو سکے اسکیلیے کفو کے نام سے مفتیوں نے کچھ چیزوں کا تذکرہ کردیا ، بعد میں مفتیوں نے اور بہت ساری چیزوں کا اضافہ کیا اور تمام چیزوں کو فضیلت و رذالت اور شرافت و حقارت کا معیار قرار دیا ، غیروں کے یہاں جس طرح سماج میں تقسیم تھی تقریبا اسی انداز سے مسلمانوں میں بھی شرافت و رذالت کا مرض پھیل گیا ، ہمارے محترم علماء تمام مسلمانوں کے برابر ہونے کی بات بھی کرتے رہے اور فتاوے بھی دیتے رہے کہ فلاں برادری فلان برادری سے کمتر ہے ، اور برادریوں کی درجہ بندی بھی ہوتی رہی ، یہیں سے اعلی ذات ، ادنی ذات اور اشرافیہ نے ایک لا علاج مرض کی شکل اختیار کرلی ، کچھ تو سیاسی مفاد میں یا بد نیتی سے برادریوں کی الگ تنظیمیں وجود میں آئیں اور کچھ نیک نیتی سے بھی برادریوں کے نام سے تنظیمیں بنائی گئیں ، ملک کی آزادی کے بعد پسماندہ قوموں ، شودر وغیرہ کی پسماندگی کو دیکھ کر انہیں اوپر اٹھانے کیلیے دستور میں ان کیلیے خصوصی رعایتیں رکھی گئیں ، مسلمانوں میں بھی اونچ نیچ اور معاشی ناہمواری تھی اسلیے بہت سی مسلم برادریوں کیلیے بھی رعایتوں اور ریزرویشن کو قانونی شکل دی گئ ، کسی خاص برادری کی تعلیمی ، معاشی اور سماجی ترقی کیلیے کام کرنا اور سرکاری رعایتوں سے اسے فائدہ پہنچانا ایک مستحسن کام ہے ، لیکن اسلام کی بنیادی تعلیم ہمیشہ پیش نظر رہے کہ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ،‌ کوئی بھی افضل اور کمتر اپنے عمل اور کرم سے ہوتا ہے

،بعض سیاسی پارٹیاں اور آرایس ایس مسلمانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ، ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، ،،،،

  • اتحاد و اتفاق پر قرآن و حدیث نے بہت زور دیا ہے ، اور اتحاد و یکجتی کی ہر سماج میں بہت اہمیت ہے ، اسکے فائدے اور انتشار کے ‌نقصانات سے کون واقف نہیں ہے ، لیکن علماء اور دانشوروں کے منافقانہ رویہ کی وجہ سے اتحاد کی حقیقی اور پائدار فضا ء قائم نہیں ہوپاتی ہے ، اور قائم ہوجاتی ہے تو بہت دنوں تک باقی نہیں رہتی ہے ، بات کو سمیٹتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اتحاد و اتفاق کیلیے خلوص اور پاکیزہ نیت ضروری ہے ، مسلم پرسنل لا بورڈ ہندستانی مسلمانوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے ، اسکا بنیادی مقصد مسلمانوں کو شریعت پر عمل کرنے پر آمادہ کرنا اور اسے کسی طرح کی خارجی مداخلت و تبدیلی سے بچانا ہے ، معلوم ہونا چاہیے کہ امارت شرعیہ ہی کے ذمہ داران اس بورڈ کے حقیقی بانی ہیں ، حکومت کے تیور کو دیکھ کر مولانا منت اللہ رحمانی رح قاری طیب صاحب رح کی خدمت میں گیے اور بمبئ میں تمام مسلم تنظیموں کو مشورہ کیلیے بلایا گیا ، امارت سوسال پورے کرچکی ہے ، امارت شرعیہ کے موجودہ امیر مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو چار صوبوں کے علماء ، اہل افتاء و قضاء اور دانشوران ملت نے چنا ، جھارکھنڈ کے امیر ہونے کا جس نے دعویٰ کیا اور جس نے بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ اور مغربی بنگال کا امیر ہونے کا دعویٰ کیا یہ لوگ بھی انکے انتخاب میں شریک تھے ،‌بلکہ یہ دونوں خود امیر بننے کے دعویدار تھے ، نہیں بن سکے ، کیونکہ سب سے زیادہ ووٹ مولانا احمد فیصل صاحب کو ملے اور اس طرح وہ امیر منتخب ہوگیے ، سب نے اس انتخاب کو مانا ، کسی نے فتویٰ نہیں دیا کہ یہ انتخاب غلط ہوا ، چترا کے مدعی امارت انہی کی امارت میں قضاء کے فرائض انجام دیتے رہے ، اور 2023 کے لاسٹ میں مڑما کے ایک اجلاس میں امیر شریعت جھارکھنڈ کا دعویٰ کردیا ، اسی طرح رمضان میں حکومت بہار سے مدد لیکر غنڈہ گردی سے پھلواری شریف میں واقع امارت شرعیہ کے ہیڈ آفس پر قبضہ کی کوشش کی گئ ، اعتکاف توڑکر جھارکھنڈ کے کئ لوگ قبضہ کرنے والے جتھے میں شامل ہوئے ، پریس کانفرنس کے معزز علماء کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ مذموم حرکتیں اتحاد و اتفاق کو کمزور نہیں کرتی ہیں ، آپ حضرات نے کبھی اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھائی ، بلکہ شرمناک بات یہ ہیکہ امارت پر قبضہ چاہنے والوں اور امارت کے خلاف سازشیں کرنے والوں میں وہی لوگ پیش پیش ہیں جو بورڈ سے تعلق رکھتے ہیں ، اور صدر بورڈ کے بہت قریبی لوگ ہیں ، بورڈ جھارکھنڈ میں انہی لوگوں کو آگے بڑھا تا ہے ، رانچی کے ایک مشہور سرجن کے گھر میں رمضان کی غنڈہ گردی کا پلان تیار ہوا ، سرجن موصوف نے امارت اور ملت کو شہر سے باہر بھیجوا کر اپنی دس ایکڑ زمین پر قبضہ حاصل کرلیا ، سوال سارے لوگوں سے ہے کہ اتحاد و یگانگت مستحسن ہی نہیں ترقی اور عزت کیلیے ضروری ہے ، ہمارا رویہ مخلصانہ ہونا چاہیے ، ایک طرف ایک سوسالہ امارت شرعیہ کو کمزور کرنے‌اور اسے توڑنے کی کوشش دوسری طرف اتحاد کی باتیں ،‌ انتشار کی مذمت ، مولانا عبیداللہ صاحب قاسمی رانچی ہی میں رہتے ہیں ،پہلے ان سے مل کر پوچھنا چاھئیے کہ حقیقت کیا ہے ،خود انکی طرف سے وضاحت آجاتی جس طرح بعد میں آئی ، اتحاد کی دعوت اس انداز سے نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دعوت انتشار اور نفرت کا ذریعہ بن جائے ،،، رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف ،،،‌آفتاب دھنباد 3/12/2025

Leave a Response