حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ صاحب ایک تاریخ ساز شخصیت


تحریر: مفتی محمد قمر عالم قاسمی خادم التدریس والافتاء مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی و خطیب حواری مسجد کربلا چوک و شہر قاضی رانچی
مدارسِ اسلامیہ کے نظام و استحکام میں جہاں علماے کرام اور اربابِ تدریس کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، وہیں ان اداروں کی مالی و انتظامی خدمت انجام دینے والے حضرات کی خدمات بھی کسی طرح کم نہیں۔ انہی مخلص اور بے لوث خدامِ دین میں ایک نام حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ کا آتا ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی مدرسہ حسینیہ کڈرو، رانچی جھارکھنڈ کی خدمت، مالی استحکام، اور تعمیری ترقی کے لیے وقف کر دی ۔حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے ناظمِ مالیات کے منصب پر طویل مدت تک فائز رہے۔ ان کی مالی بصیرت، حسنِ انتظام، اور مخلصانہ جدوجہد نے مدرسہ کےاستحکام میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل کی۔ وہ نہ صرف مالی نظام کے منتظم تھے بلکہ ایک مصلح، مربی، اور فکرمند خادمِ دین بھی تھے۔مدرسہ کے لیے سرکاری زمین کی حصولیابی میں تاریخی کردار:
حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ کی سب سے نمایاں اور تاریخی خدمت یہ ہے کہ مدرسہ حسینیہ کڈرو کے لیے بہار سرکار سے تقریباً دو ایکڑ مدرسہ سے متصل بہار سرکار سے زمین رجسٹری کے ذریعے باقاعدہ کیبنٹ سے پاس کروا کر حاصل کی۔یہ کارنامہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ حضرتؒ نے اس مقصد کے لیے رانچی سے پٹنہ تقریباً اٹھارہ (18) سال تک مسلسل محنت، جدوجہد، اور دوڑ دھوپ کی۔آخرکار ان کی یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی، اور سرکار نے محض ایک روپیہ سلامی کے عوض زمین کو مدرسہ کے نام رجسٹرڈ کر دیا اس وقت بہار میں جناب لالو پرساد یادو جی کی حکومت تھی۔ یہ تاریخی کامیابی دراصل حضرت کی اخلاص، تدبیر، استقامت اور دعاؤں کا نتیجہ تھی۔حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ کی مالی حکمتِ عملی اور خلوص نے مدرسہ کے مالی نظام کو نئی زندگی عطا کی۔ ان کی کوششوں سے بمبئی، راؤرقلعہ جمشیدپور ، کولکاتہ، پٹنہ اور بہار جھارکھنڈ کےدیگر شہروں میں بھی مدرسہ حسینیہ کا تعارف ہوا۔ وہ خود ان شہروں کا سفر کرتے، مخیر حضرات سے ملاقات کرتے، اور مدرسے کے لیے عطیات و امداد کا نظم فرماتے۔ان کی شب و روز کی فکر یہی رہتی تھی کہ طلبہ کو اچھا کھانا اور بہتر سہولیات فراہم ہوں ، اساتذہ کو بروقت تنخواہیں دی جائیں، اور مدرسے کا نظام بہتر سے بہتر ہو۔ان کی انتظامی بصیرت کے نتیجے میں مدرسے نے تعمیری اعتبار سے بھی نمایاں ترقی کی ۔حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ نہایت اخلاق مند، نرم گفتار، مخلص اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ان کی شیریں گفتگو، اخلاص و محبت، اور سادگی نے ہر ایک کے دل میں ان کی جگہ بنا دی تھی۔وہ دنیاوی مال و جاہ سے بالکل بے نیاز، مگر دین و خدمت سے سرشار تھے۔اساتذہ، طلبہ، اور رفقائے کار کے ساتھ ان کا سلوک بے پناہ محبت اور عزت و احترام پر مبنی ہوتا تھا۔
حضرتؒ کے صاحبزادگان میں سے جناب قاری اخلد الحسینی صاحب آج بھی مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی میں عرصۂ دراز سے درجۂ حفظ کے ممتاز استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ (میرے قریبی دوستوں اور محسنین میں ان کا شمار ہوتا ہے اور مدرسہ کی چہار دیواری میں اساتذہ کے محبوب و منظور نظر ہیں) ان کے زیرِ تربیت سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں طلبہ نے قرآن کریم حفظ کیا، جو آج ملک کے مختلف مدارس، مکاتب، اور مساجد میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ان کے ایک پوتے عزیزم مولانا حذیفہ صاحب اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو ان کی علمی و روحانی وراثت کے تسلسل کی علامت ہے۔حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ کی سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ جو طلبہ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہوں، وہ باہر نکل کر دنیا میں گم نہ ہو جائیں، بلکہ وہ مدارس و مساجد میں رہ کر اسلامی اقدار و روایات قرآن و حدیث اور قوم و ملت کی خدمت انجام دیں۔وہ اپنے علاقے کے سینکڑوں فارغین کو مختلف مدارس اور مساجد میں خدمت کے لیے متعین کرواتے تھے۔ان کی زندگی کا نصب العین دین کی ترویج، طلبہ کی تعلیم، اور خدمتِ خلق تھا۔زندگی کے آخری ایام تک وہ مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے ساتھ وابستہ رہے۔
بعد میں جب پیرانہ سالی اور مختلف امراض کی وجہ سے سبکدوش ہوئے، تو اپنے وطنِ مالوف بھیروا (بسفی)، ضلع مدھوبنی تشریف لے گئے، اور وہیں ان کا وصال ہوا۔ان کے انتقال سے مدرسہ حسینیہ نے اپنے ایک مخلص خادم، اور ملت نے اپنے ایک بے لوث داعی کو کھو دیا۔اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کاظم الحسینیؒ کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے،
ان کی خدمات کو ان کے لیے ذریعۂ نجات بنائے،اور ان کے مشن ، دین کی خدمت، طلبہ و مدارس کی سرپرستی، اور اخلاق و اخلاص کی روش کو ہم سب کے لیے مشعلِ راہ بنائے۔
اللهم اغفر له وارحمه، وأسكنه فسيح جناتك، واجزه عنا وعن المسلمين خير الجزاء۔
