All India NewsBlogJharkhand NewsNewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

ڈاکٹر ابو ریحان بچوں کے ماہر اور غریب پرور ڈاکٹر کی مثالی شخصیت (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343)

Share the post

انسانی زندگی میں صحت و تندرستی خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے ، صحت و تندرستی کی قدر کرنے کی تاکید اسلام میں بھی آئی ہے ، بزرگوں نے صحیح کہا ہے کہ ” صحت و تندرستی کی قدر کرو بیماری و کمزوری سے پہلے ، ہر چیز اپنے ضد سے پہچانی جاتی ہے ، بیماری نہ ہوتی تو صحت و تندرستی کی قدر کون کرتا ؟ ہر دور کے انسانوں نے بیماری سے شفاء حاصل کرنے کے لئے علاج و معالجہ کا طریقہ اختیار کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ بدلتے ہوئے زمانے اور حالات کے ساتھ ساتھ علاج و معالجہ کے طریقے بھی بدلتے رہے ، جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کی تو علاج و معالجے کا شعبہ بھی اچھوتا نہ رہا ، آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ایک طرف نئی نئی بیماریاں پیدا ہوئیں جن کا پہلے کے انسانوں نے نام بھی نہیں سنا ہوگا تو وہیں دوسری طرف علاج و معالجے کے طریقے میں ایسی ترقی ہوئی اور ایسی مشینیں ایجاد ہوئیں جس کا پہلے کے انسانوں نے نہ نام سنا ہوگا اور نہ ہی دیکھا ہو گا ،

پہلے ایک حکیم یا ایک ڈاکٹر ایک انسان کی تمام بیماریوں کا علاج تنہا کرتا تھا لیکن آج انسانی جسم کے ایک ایک اعضاء کے الگ الگ ڈاکٹر ہیں ، مردوں کا ڈاکٹر الگ ہے ، عورتوں کی ڈاکٹر الگ ہیں ، بچوں کا ڈاکٹر الگ ہے ، ان میں بھی بہت سارے ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں جن کو الگ الگ بیماری کے علاج و معالجے میں خاص مہارت حاصل ہوتی ہے ، کسی زمانے میں ڈاکٹروں کو خدا کے بعد زندگی عطاء کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ اور سہارا سمجھا جاتا تھا ، غیر قوموں نے تو ڈاکٹروں کو بھگوان کا درجہ دے رکھا تھا مگر آج پیشہ ور اور دولت کے پجاری ڈاکٹروں نے اپنا یہ درجہ اور مقام کھو دیا ہے ، لیکن کہا جاتا ہے کہ کوئی دور اور کوئی معاشرہ کبھی اچھے اور فرشتہ صفت انسانوں سے خالی نہیں ہوگا ، ہر معاشرے میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو اپنے پیشے کو دولت جمع کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ان کے اندر انسانی ہمدردی اور غریبوں کے ساتھ خاص رعایت و تعاون کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے ،

رانچی بریاتو کے رہنے والے بچوں کے ماہر ڈاکٹر ابو ریحان صاحب ایسے ہی ایک نیک دل ، دیندار ، صوم و صلوٰۃ کے پابند ، ملنسار ، بااخلاق اور غریبوں کے ساتھ خاص رعایت و ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹر ہیں ، ڈاکٹر ابو ریحان صاحب بنیادی طور پر متحدہ بہار کے رہنے والے ہیں اور انھوں نے ڈاکٹریٹ(ایم ، بی ، بی ، ایس اور ایم ، ڈی) کی تعلیم پٹنہ میڈیکل کالج سے حاصل کی ہے ، ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کئی سال پٹنہ میڈیکل کالج میں پریکٹس کرتے رہے ، اس کے بعد وہ رانچی آگئے ، رانچی کے بریاتو میڈیکل کالج میں برسوں چائلڈ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے ، وہ برسوں بریاتو میڈیکل کالج کے بہت ہی کامیاب اور مشہور و مقبول پروفیسر بھی رہے ، بریاتو میڈیکل کالج کی ڈیوٹی سے قبل اور فراغت کے بعد وہ بریاتو میں ہی اپنے گھر کے قریب اپنی ڈسپینسری میں بچوں کے ماہر ڈاکٹر کی حیثیت سے بچوں کا کامیاب علاج کرنے لگے ، بچوں کے آپ اتنے ماہر اور کامیاب ڈاکٹر تھے کہ دور دور سے لوگ اپنے بچوں کا علاج کرانے کی خاطر آپ سے رجوع کرتے تھے ، بچوں کے عام ڈاکٹر بھی آخیر میں لوگوں کو مشورہ دیتے کہ ایک بار آپ اپنے بچے کو ڈاکٹر ابو ریحان صاحب سے دکھا لیں، عام طور پر بڑے ڈاکٹر مریض یا اس کے گارجین سے زیادہ بات چیت کرنا اپ اپنی کسر شان سمجھتے ہیں ، مگر ڈاکٹر ابو ریحان صاحب مریض بچوں کے گارجین سے بہت نرم گفتگو کرتے تھے اور بچے کو کیا بیماری ہے ، کب سے ہے ، کہاں علاج کرایا ، کیا تکلیف ہے ؟ پوری تفصیلات معلوم کرتے ، اس کے بعد ہی دوا کی تشخیص کرتے ، آپ کے اس طریقہ علاج سے مریض کے والدین یا اس کے گارجین پوری طرح مطمئن ہوجاتے ، ان کو لگتا ہے کہ میں بہت صحیح جگہ اور صحیح ڈاکٹر کے پاس اپنے بچے کا علاج کرانے آیا ہوں ،

ڈاکٹر ابو ریحان صاحب کے علاج و معالجے سے اکثر و بیشتر بچوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شفاء مل جاتی تھی ، آپ کا علاج عام ڈاکٹروں کی طرح بہت مہنگا بھی نہیں ہوتا تھا کیوں کہ آپ عام ڈاکٹروں کی طرح نہ تو مہنگی دوائیں لکھتے تھے اور نہ ہی ان کی لکھی ہوئی دوائیں صرف ان کی ہی دوکان میں ملتی ہو گرچہ ان کی اپنی کوئی دوکان نہیں تھی ، ان کی لکھی ہوئی دوائیں کہیں سے بھی بآسانی دستیاب ہوجاتی تھیں کیوں کہ ڈاکٹر ابو ریحان صاحب آج کے عام ڈاکٹروں کی طرح دوا کمپنیوں سے کمیشن خوری سے کوسوں دور تھے ، وہ بچوں کے علاج کے لئے بے شمار اور مہنگے جانچ کا بوجھ لوگوں پر نہیں ڈالتے تھے ، ضرورت پڑنے پر وہ بہت معمولی جانچ کرواتے تھے ، ان کی ایک فیس طئے تھی ، جس کی پرچی کٹتی تھی لیکن ان کی دینداری ، غریبوں کے ساتھ ان کی محبت و شفقت اور غریبوں کے ساتھ رعایت و ہمدردی کا عالم یہ تھا کہ وہ بچوں کا علاج کرنے سے پہلے پرچی لے کر سب سے پہلے پوچھتے تھے کہ آپ کیا کرتے ہیں ، یعنی آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے ؟ اگر کوئی کہتا کہ ڈاکٹر صاحب میں مزدوری کرتا ہوں ، رکشہ چلاتا ہوں ، فٹ پاتھ پر چھوٹا موٹا کاروبار کرتا ہوں ، پھیری کرتا ہوں ، لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں ، یہ سنتے ہی ڈاکٹر ابو ریحان صاحب اسی پرچی میں اپنی فیس واپسی کا حکم اپنے کمپاؤنڈر کو دیتے اور وہ غریب آدمی باہر آکر ڈاکٹر ابو ریحان صاحب کو دی ہوئی فیس واپس لے لیتا اور دل سے دعائیں دیتا اپنے بچے کو لے واپس چلا جاتا ، ڈاکٹر ابو ریحان صاحب کی غریبوں کے ساتھ خاص رعایت و ہمدردی کا معاملہ کوئی ایک دو دن کا نہیں تھا بلکہ ان کی غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کے ساتھ خاص رعایت و ہمدردی کا معاملہ شروع سے آخیر تک رہا جب تک وہ مریضوں کو دیکھنے کے قابل رہے ، اب تو وہ کافی ضعیف اور کمزور ہو گئے ہیں ، سماعت کی قوت قریب قریب ختم ہو چکی ہے ، اس لئے اب انھوں نے مریضوں کو دیکھنا بند کر دیا ہے ، اب اپنے گھر پر ہی زندگی کے بقیہ ایام گزار رہے ہیں ،

Leave a Response