کتاب : نواقض نکاح اور اس کے متعلقات, مؤلف: الحاج محمود عالم صاحب
ناشر: مدرسہ حسینیہ، چھپرہ خرد، خواجہ چاند چھپرہ، ویشالی، بہار
ملنے کے پتے: حاجی رمضان علی چیریٹیبل ٹرسٹ کولکاتا 700007
نوٹ: یہ کتاب مطالعہ کے شوقین کی خدمت میں قیمتاً نہیں تحفۃ پیش کی جاتی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماء، اکابرین، بزرگان دین، اولیاء اللہ، مدارس و مساجد سے منسلک ائمہ خطباء مؤذنین غریبوں، بیواؤں، یتیموں، بے سہارا ضرورتمند اور حاجت مندوں سے محبت کرنے والے کولکاتا کے مشہور و معروف تاجر جناب حاجی محمود عالم صاحب حفظہ اللہ جنہیں دینی اسلامی کتابوں کے مطالعہ سے خصوصی شغف و محبت ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فقہ کے موضوع پر ایک درجن سے زائد کتابیں مرتب کر کے وہ شائع کرا چکے ہیں۔ وہ کتابیں عوام ہی میں نہیں بلکہ اہل علم، علماء طبقہ میں بھی مقبولیت حاصل کر کے سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کے قلب و جگر پر اثر انداز ہو کر ان کی زندگیاں بدل ڈالیں ،جن کا نتیجہ ہے کہ آج وہ شریعت و سنت کے پابند ہیں۔اپ نے تقریبا تمام ہی کتابوں میں نہایت سلیس آسان اور سہل اُردو زبان کی تعبیرات کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ قاری جب کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو ختم کیے بغیر نہیں رکتا ان کی چند مرتب کردہ کتابیں جیسے رہنمائے حج و زیارت، سفر اخرت، ماہ رمضان اور ہم، ازدواجی زندگی اور زیر تبصرہ کتاب “نواقض نکاح اور اس کے متعلقات ” تقریبا مکمل ہی مطالعہ کیا ,اپ نے اپنی بہت ساری تالیفات کو ہندی میں بھی ترجمہ کرایا ہے ان کی تالیفات ہر پڑھے لکھے مسلمان کے گھر کی زینت بنی چاہیے ،ان کتابوں کے مطالعہ سے ہم از خود علماء کی تھوڑی رہنمائی سے عبادات و بندگی، عائلی و خاندانی، گھریلوں وخانگی اور قومی و ملکی مسائل کو سمجھ سکتے ہیں اسی طرح حج، زکوۃ، رمضان،طہارت کے معانی و مطالب، آخرت نکاح، طلاق خلع وغیرہ کی تعریفات کو جان سکتے ہیں۔مگریہ اسی وقت ہوگا جب ہم اپنے عائلی و خانگی قوانین و احکامات سے واقف ہوں گے اور شریعت مطہرہ سے ہمیں حقیقی لگاؤ اور محبت ہوگی؛کیونکہ اہل ایمان اس بات کا پابند عہد ہے کہ وہ شریعت و سنت کے مطابق زندگی گزارے نا خواندہ اہل علم و بصیرت سے شرعی احکامات معلوم کر کے عمل کرے، چنانچہ فرمان الہی ہے”فاسألوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون”اور فرمان رسول ہے”انما شفاء العي السوال”کہ ناخواندہ کا علاج استفسار ہے۔
محترم حاجی صاحب کی دلچسپی جس موضوع سے ہے اور جس پر انہوں نے قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے اور ہم جیسے کم پڑھے لکھے طالب علموں کے لیے حوصلہ فراہم کیا ہے اس پر تو اللہ جل جلالہ کی طرف سے رزق کا وعدہ بھی کیا گیا ہے”من تفقه في دين الله كفاه الله همه ورزقه من حيث لا يحتسب” کن (کنزل العمال جلد 10 صفحہ 165)سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے لیے جو نام منتخب کیا ہے وہ بالکل یونک, منفرد اور عام رواجی طریقوں سے الگ ہے کہ اج تک ہم لوگوں نے نواقض وضو، غسل، نماز، روزہ وغیرہا ہی پڑھا اور سنا تھا اور اب نکاح کے بھی نواقض ہیں۔مطالعہ کا دلچسپی نہ رکھنے والا شخص بھی کتاب “نواقض نکاح اور اس کے متعلقات” کو دیکھ کر کم از کم کتاب ہاتھ میں لے ہی لیتا ہے اور دو چار عناوین کا مطالعہ کر کے ہی چھوڑتا ہے۔
مؤلف محترم نے اس کتاب میں “البلاغ” کے عنوان سے جو ایک طویل اور بصیرت افروز مقدمہ لکھا ہے از اول تا آخر بالاستیعاب مطالعہ کا شرف حاصل ہوا ایسا لگتا ہے کہ اسلامی معلومات کا ایک خزانہ اور ذخیرہ جمع کر دیا ہے، جس میں میاں بیوی کے باہمی تعلقات اور روابط ان دونوں کے مقام و مراتب اور ایک دوسرے کے حقوق کو خوب سے خوب تر قران و حدیث سے آراستہ و مزین کیا ہے مثلا انہوں نے کتاب کے صفحہ نمبر 29 کے اخر میں ایک حدیث شریف کا ترجمہ نقل کیا کہ” میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بہترین مسلمان وہ ہے جو بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے اور بیوی سے فرمایا اگر اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ جائز ہوتا تو بیوی سے کہا جاتا کہ خاوند کو سجدہ کرے” (جامع ترمذی حدیث نمبر 1159 مسند احمد حدیث نمبر 11286) اسی طرح طلاق کے مسئلے میں بھی ہمارے سماج میں جو افراط و تفریط ہے اسے اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے میاں بیوی کو جو سمجھانے اور مصالحت کی راہ اختیار کرنے کا طریقہ بیان کیا اور مشورہ دیا ہے وہ بھی قابل عمل اور لائق اختیار ہے کتاب کے صفحہ نمبر 51 کے اخر میں تحریر فرمایا کہ “ان تمام باتوں کو اپنی عادت بنا لیں تو آپ کی محبت دن بدن بڑھتی جائے گی اور گھر جنت بن جائے گا”۔ آگے ساس بہو کے مہا بھارت کو بیان کیا اور ان دونوں کے مابین اختلافات کے وجوہات کو اجاگر کرتے ہوئے بیٹی کے گھر کو اجاڑنے میں عموماً ماؤں کا جو کردار ہے اسے بیان کرتے ہوئے جو ناصحانہ کلمات تحریر فرمائی ہیں وہ بھی سیم و زر کی طرح محفوظ کر لینا چاہیے صفحہ نمبر 57 پر حاجی صاحب نے اپنے والد محترم کے ساتھ سفر کا جو واقعہ لکھا ہے وہ ہمارے اس تبصرے کی تحریر کے لیے طویل ہے مگر اخری جملہ یہ ہے کہ “کسی گھر کو چلانے کے لیے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کے بعد سیاست سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں”۔
بیوہ یا مطلقہ خواتین کے سلسلے میں پرسوز اور سماج کی ناگفتہ بے حالات کو تحریر فرمایا ہے اسے تو چھوٹے چھوٹے پمفلیٹوں میں چھپا کر عوام میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے اور ہندوستان کی ہر مسجد کے خطباء ائمہ اور علماء کو کم از کم جمعہ کے بیان میں وقتا فوقتا لوگوں کو بتلانا اور سنانا چاہیے کہ کنوارے لڑکے اور مرد بھی ان مطلقہ یا بیوہ خواتین سے نکاح کو رواج دیں اور اس سنت کو زندہ کریں کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی 25 سال کی عمر میں ایک 40 سال کی بیوہ اماں خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا اور جو پہلے سے شادی شدہ مرد حضرات ہیں وہ مطلقہ اور خلع یافتہ خواتین سے مساوات اور حقوق کی ادائیگی کی شرط پر دوسرے، تیسرے اور چوتھے نکاح کو رواج دیں۔
تبصرہ نگار: مفتی محمد قمر عالم قاسمی خادم التدریس مدرسہ حسینیہ کڈرو و قاضی شہر رانچی جھارکھنڈ