All India NewsBlogJharkhand News

عقیل الرحمن صاحب آپسی اتحاد و بھائی چارگی اور سماجی خدمت گار کی ایک مثالی شخصیت ، (ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی 7004951343)

Share the post

ہم دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت سے وابستہ رہتے ہوئے صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آ رہے ہیں ، ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کی جو تصویر ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے وہ ایک دن کی یا کسی ایک فرد کی محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایسے افراد ہوتے رہے ہیں جن کی نگاہوں میں ہندو مسلم اتحاد اور آپسی بھائی چارگی کا جذبہ سمایا ہوا ہوتا ہے ، ایسے لوگ آپسی اتحاد اور بھائی چارگی قائم کرنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں ، رانچی شہر میں بھی ایسے کئی افراد ہوئے ہیں اور آج بھی ہیں جنھوں ہندو مسلم ایکتا اور مختلف فرقوں کے بیچ آپسی اتحاد و بھائی چارگی اور ہم آہنگی قائم کرنے میں اپنی ایک الگ ہی شناخت اور پہچان بنا لی ہے جن میں سب سے نمایاں اور مشہور و معروف نام رانچی شہر کے جناب عقیل الرحمن صاحب کا ہیں ، عقیل الرحمن ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جنوں نے اپنی طالب علمی کے دور سے ہی عوامی مسائل اور خاص کر طلباء کے مسائل سے دلچسپی لینا شروع کردیا تھا ، جس زمانے میں وہ مولانا آزاد کالج کے اسٹوڈینٹ تھے تو انھوں نے رانچی یونیورسٹی میں طلباء کے مسائل کو لے کر کہرام مچا رکھا تھا ، وہ اس وقت تک اطمینان و سکون سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک رانچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور متعلقہ افسران سے مل کر طلباء کے مسائل حل نہیں کرا لیتے تھے ، اپنی انھیں خوبیوں اور صفات کی بنیاد پر وہ پوری رانچی یونیورسٹی میں طلباء کے ہردلعزیز لیڈر مانے جاتے تھے ، مولانا آزاد کالج کو عوامی شہرت و مقبولیت دلانے اور رانچی یونیورسٹی میں مولانا آزاد کالج کے وقار کو بلند کرنے میں جناب عقیل الرحمن صاحب کا بہت اہم کردار رہا ہے

، مولانا آزاد کالج میں ہم دونوں کا زمانہ ایک رہا تھا ، البتہ وہ مجھ سے سینئر تھے ، مجھے یاد ہے کہ متحدہ بہار کے وقت غالباً 1984- 85 میں جب پہلی مرتبہ رانچی یونیورسٹی نے ہوم سینئر میں امتحان لینے کے بجائے ایک کالج کا سنٹر دوسرے کالج میں کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس سے طلباء کے لئے آمد و رفت کی پریشانیوں اور مالی دشواریوں کا مسئلہ سامنے کھڑا ہوتا ہوا نظر آیا تو طلباء کے ہمدرد یہی عقیل الرحمن صاحب تھے جنہوں نے رانچی یونیورسٹی میں طلباء کے حق میں مستقل دھرنا اور مظاہرہ شروع کردیا ، جب یونیورسٹی سطح پر بات نہیں بنی تو ٹھیک اسی زمانے میں بہار کے ہردلعزیز وزیر اعلیٰ جناب جگناتھ مشرا رانچی آرہے تھے جیسے ہی اس کی اطلاع جناب عقیل الرحمن صاحب کو ہوئی تو انجام کی پرواہ کئے بغیر طلباء کو لے کر رانچی ایئرپورٹ پہنچ گئے اور ائیرپورٹ کے باہر وزیر اعلیٰ جناب جگناتھ مشرا جی کی گاڑی کو روک دیا ، میں بھی اس تحریک میں ان کے ساتھ شریک تھا ، جناب جگناتھ مشرا جی سے طلباء کے مسائل اور رانچی یونیورسٹی کی لاپرواہی اور بے راہ روی پر بلا خوف و خطر بڑی بیباکی اور بے خوفی سے دو ٹوک بات کرنے لگے ، میں نے دیکھا کہ وزیر اعلیٰ سے بات چیت کرتے وقت جناب عقیل الرحمن صاحب کے چہرے پر ذرہ برابر خوف و ہراس اور مرعوبیت کے آثار نہیں تھے اور نہ ہی آج کے خود ساختہ لیڈروں کی طرح بات چیت کے اندار میں چاپلوسی ، ریاکاری ، مکاری اور خوشامد کی جھلک نظر آرہی تھی ، پوری بیباکی سے بات کرتے رہے اور وزیر اعلیٰ بھی ان کی باتوں کو پوری توجہ سے سنتے رہے ، بات چیت کے بعد وزیر اعلیٰ نے نیتاؤں کی فطرت کے مطابق لمبے چوڑے وعدے تو ضرور کئے لیکن بعد میں اکثر وعدے وفا نہ ہوئے ، البتہ عقیل الرحمن صاحب کی قیادت کا جذبہ ، ان کا خلوص اور ان کی بیباکی کھل کر سامنے آگئی جو آج بھی اپنی جگہ قائم ہے ، جناب عقیل الرحمن صاحب کا تعلق چونکہ جھارکھنڈ کی مٹی سے ہے اس لئے ان کے اندر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا ہنر کبھی پیدا نہیں ہوا ورنہ وہ بھی آج سیاست کے اونچے پائیدان پر ہوتے جہاں آج ان کے کئی پروردہ پہنچے ہوئے ہیں

، اسٹوڈینٹس یونین کی قیادت کے دور سے نکل کر سیاست کی گلیاروں سے گزرتے ہوئے جناب عقیل الرحمن صاحب نے جب سماجی خدمت کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی انھوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی جو آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور یہی ان کی اصلی شناخت اور پہچان ہے ، ایک سچے سماجی خدمت گار سپاہی کی حیثیت سے عوامی شہرت و مقبولیت کے جس مقام پر جناب عقیل الرحمن صاحب آج کھڑے ہیں وہی ان کی زندگی کا اصل سرمایہ ہے ،انھوں نے یہ مقام کسی ادارہ ، تنظیم یا کسی پنچایت کا صدر و سکریٹری بن کر حاصل نہیں کیا بلکہ اپنی بے لوث سیاسی و سماجی خدمات کی بنیاد پر حاصل کیا ، وہ جن کے بھی ساتھ رہے ، پوری وفاداری کے ساتھ رہے ، سیاسی اعتبار سے وہ جناب سبودھ کانت سہائے کے ساتھ ان کے عروج و ترقی کے دور میں بھی ساتھ ساتھ رہے اور ان کے زوال کے اور مصیبت و پریشانی کے دور میں بھی ان کے ساتھ کھڑے رہے اور آج بھی کھڑے ہیں ، مفاد پرست ، خود غرض اور موقع پرست لوگوں کی تو پہچان ہی یہی ہے کہ عروج و ترقی کے دور میں تو وہ آپ کے ساتھ ہوں گے اور خوشامد و چاپلوسی اور حاشیہ برداری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے لیکن زوال اور مصیبت و پریشانی کے وقت وہ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے ، جناب محمد سعید ادریسی صاحب جب انجمن اسلامیہ رانچی کے صدر منتخب ہوئے تو جناب عقیل الرحمن صاحب انجمن اسلامیہ رانچی کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے ، یہاں بھی انھوں نے صدر انجمن اسلامیہ رانچی جناب محمد سعید صاحب کا بھر پور ساتھ دیا اور پوری ایمانداری کے ساتھ جناب محمد سعید صاحب کے ساتھ سایہ کی طرح کھڑے رہے اور آج بھی کھڑے ہیں ، جبکہ بہت سارے لوگ جناب محمد سعید صاحب کے ساتھ اس وقت تک کھڑے رہے اور درباری کرتے رہے جب تک محمد سعید صاحب دونوں ہاتھوں سے روپئے لٹاتے رہے ، جب یہ سلسلہ بند ہو گیا تو ایسے لوگوں نے محمد سعید صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا ، لیکن جناب عقیل الرحمن صاحب ہر دور میں محمد سعید صاحب کے ساتھ کھڑے رہے اور آج بھی ساتھ کھڑے ہیں ، جناب محمد سعید صاحب کے دور صدارت میں بھارت سرکار کے ” پولیو ڈراپ” پروگرام کو انجمن اسلامیہ رانچی کے پلیٹ فارم سے گھر گھر تک پہنچانے اور عام کرنے میں جہاں صدر انجمن اسلامیہ رانچی جناب محمد سعید صاحب کے فیصلے کو سراہا جا سکتا ہے وہیں اس فیصلے کو زمینی سطح پر اتارنے اور اس نگرانی کرنے میں رکن مجلس عاملہ جناب عقیل الرحمن صاحب کی تگ ودو اور ان کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ، ہر تنظیم اور ہر ادارہ میں کام کرنے والے چند ہی افراد ہوتے ہیں ، باقی لوگ تنقید اور کیڑے نکالنے میں ہی اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ، انجمن اسلامیہ رانچی میں بھی جناب محمد سعید صاحب کے زمانے میں ایسا ہی تھا اور بعد میں بھی بدقسمتی ایسا ہی ہوتا رہا اور ہو سکتا ہے کہ آگے بھی ایسا ہی ہوتا رہے کیونکہ ہمارے معاشرے کا مزاج ہی بگڑ گیا ہے ، لوگ اکثر و بیشتر عوامی مسائل اور اداروں کی بدحالی کو دور کرنے کے نام پر اداروں اور تنظیموں میں گھسپیٹھیا کی طرح اپنے آپ کو متعارف کرانے کے لئے داخل ہوتے ہیں اور اداروں کی سماجی حیثیت سے اپنی سماجی حیثیت کا قد بلند کرنا چاہتے ہیں ، ایسے لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ سماجی حیثیت اور عزت و مقام اداروں اور تنظیموں کے عہدے پر فائز ہونے سے نہیں ملتا بلکہ سماجی خدمات سے حاصل ہوتا ہے ، جناب عقیل الرحمن صاحب نے اپنی سماجی خدمات سے اپنے آپ کو متعارف کرایا ہے ، آج لوگ انھیں ایک بے لوث سماجی خدمت گار کی حیثیت سے جانتے ہیں ، جناب محمد سعید صاحب کے دور صدارت میں ہر سال 11/ نومبر کو ” مولانا آزاد ڈے” کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کی خاطر شہر کے مختلف اسکولوں کے بچوں کو جمع کرنے اور پربھات پھیری نکالنے میں جناب عقیل الرحمن صاحب کی محنت و کوشش کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ، جناب عقیل الرحمن صاحب ایک عرصے سے سنٹرل محرم کمیٹی کے بہت ہی کامیاب جنرل سکریٹری ہیں ، ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ترجمان بھی ہیں ، اس کے علاوہ کئی تنظیموں اور اداروں سے بھی منسلک ہیں ، میرے نزدیک جناب عقیل الرحمن صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا ہمیشہ ایک ہی چہرہ رہا ہے ، ان کے چہرے کے اوپر کئی چہرہ نہیں ہوتا جو منافق ہونے کی علامت اور پہچان ہے ، بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم قیامت میں سب سے بری حالت میں دو چہرے والے کو دیکھو گے جو ایک کے منھ پر کچھ کہتا ہے اور دوسرے کے منھ پر کچھ”
ہمارے معاشرے میں اچھے خاصے لوگ ایک چہرے کے اوپر کئی چہرے چڑھانے ہوئے ہیں جس سے بعض مرتبہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون آپ کا دوست ہے اور کون آپ کا دشمن ہے ، جناب عقیل الرحمن صاحب کو میں طالب علمی کے دور سے جانتا ہوں ، کئی موقعوں پر ہم لوگوں نے ساتھ مل کر عوامی تحریک چلائی ہے اور ساتھ ساتھ کام کیا ہے ، وہ ہر جگہ ایک ہی نظر آتے ہیں ، اپنوں اور غیروں کے بیچ بھی اعتدال پسند لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں ، فخر و غرور اور انانیت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے ، سب سے مل جل کر رہنے اور ہر ایک کے ساتھ بلند اخلاقی سے پیش آنے کی ایک خاص ادا ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے ، رانچی شہر و مضافات میں جب کبھی کسی نے امن و امان کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے تو ہر جگہ جناب عقیل الرحمن صاحب نظر آتے ہیں ، بگڑے ہوئے ماحول کو پر امن بنانے میں جناب عقیل الرحمن صاحب کا کردار ہمیشہ ناقابلِ فراموش رہا ہے ، رانچی کے مشہور و مقبول عالم دین حضرت مولانا محمد شعیب رحمانی صاحب کے ساتھ ان کا والہانہ رشتہ اور تعلق رہا تھا ، وہ ہمیشہ مولانا شعیب رحمانی صاحب کے ساتھ ساتھ نظر آتے تھے ، مولانا شعیب رحمانی صاحب بھی جناب عقیل الرحمن صاحب کو اکثر و بیشتر کئی اہم معاملات میں اپنے ساتھ شریک رکھتے تھے ، میرے والد مرحوم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب اور حضرت مولانا قاری علیم الدین صاحب سے بھی گہرے تعلقات رہے ہیں ، ہر مسلک کے علماء کے ساتھ ان کا ایک خاص رشتہ اور تعلق رہا ہے ، سماجی معاملوں میں جناب عقیل الرحمن صاحب ہمیشہ پیش پیش نظر آتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ضلع انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بھی عقیل الرحمن صاحب کو بڑی اہمیت دیتے ہے ، مقامی تھانہ سے لے کر ضلع انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ہندو مسلم ایکتا اور آپسی اتحاد و بھائی چارگی کو بنائے رکھنے میں عقیل الرحمن صاحب کی کوششوں کو سراہتے رہے ہیں ، محرم کا جلوس ہو یا رام نومی و سرھل کا جلوس ہو ، آپ کو ہر جگہ جناب عقیل الرحمن صاحب جلوسوں کا استقبال کرتے ہوئے نظر آئیں گے ، ایسے موقعوں پر آپسی اتحاد و بھائی چارگی پر ان کی خاص توجہ ہوتی ہے ، جناب عقیل الرحمن صاحب کی انھیں تمام سماجی خدمات کے اعتراف میں 11/ نومبر 2025 کو مولانا ابوالکلام آزاد کی یوم پیدائش کے موقع پر ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی کی جانب سے مولانا آزاد کالج ھال میں شہر رانچی کے معززین کی موجودگی میں” مولانا آزاد ایوارڈ ” سے نوازا گیا اور شال اوڑھا کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ،

Leave a Response