انجمن فروغ اردو اور شعبہ اردو نے 150 طلباء وطالبات کو اعزاز سے نوازا
اردو مذہب کی نہیں، عوام کی زبان ہے : ڈاکٹر ایس زیڈ حق1
انجمن فروغ اردو رام گڑھ ڈسٹرکٹ یونٹ زیر اہتمام گرلس اردو ہائی اسکول چترپور میں توصیفی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر رامگڑھ ضلع کے تمام بلاکس کے قریب 150 طلباء وطالبات کو جو امسال میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن اور پوسٹ گریجوئیٹ میں اردو کو ایک مضمون کے طور پر منتخب کر بہترین نمبرات حاصل کئے ہیں کو توصیفی سند اور تغموں سے نوازا گیا۔
تقریب کی افتتاح رامگرھ کالج کی سابقہ پرنسپل ڈاکٹر شاردا پرساد نے کی۔ تقریب کی صدارت چاس کالج کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسر ڈاکٹر محمد عبداللہ نے کی اور نظامت کا فرض آرگنائزنگ سیکرٹری ڈاکٹر شاہنواز خان نے ادا کیا۔پروگرام کی شروعات قرآن مجید کی تلاوت سے کی گئی اس کے بعد حمد و نعت کا نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا۔ استقبالیہ کے کلمات ماسٹر محمد رفیق اللہ نے ادا کیا جبکہ پروگرام کوئرڈینیٹر معظم علی صدیقی نے شکریہ ادا کیا۔
توصیفی تقریب کے مہمان خصوصی سماجی کارکن حاجی رئیس خان نے کہا کہ اردو کہیں اور کی زبان نہیں ہے بلکہ ایک ترقی یافتہ زبان ہے جو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پرورش پائی ہے۔ اس میں مٹھاس ہے، اور تہذیب و آداب ہے۔ آج بھی ہندوستان کے لوگ اردو ہی بولتے ہیں اور جو اردو نہیں بولتے وہ ہندی کے ساتھ اردو کے بے شمار الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہندوستان کی فلمی دنیا اردو سے مزین ہے۔ آج بھی اردو کے بغیر آج بھی کوئی فلمی ڈائیلاگ اور گانا نہیں ہے۔
توصیفی تقریب کے خصوصی مقرر کے طور پر ونوبا بھاوے یونیورسٹی سابق صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ایس زیڈ حق نے کہا کہ اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے برصغیر ہند کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اردو بولی جاتی ہے۔ یہ کسی خاص مذہب کی زبان نہیں بلکہ عوام الناس کی زبان ہے۔ یہ سیکولرزم کو فروغ دیتی ہے اور محبت کا پیغام دیتی ہے۔ اسے کسی خاص مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ پریم چند سے لے کر پنڈت رگھوپتی سہائے اور آج کے گوپی چند نارنگ تک اس کی مثالیں ہیں۔
رامگڑھ کالج کی سابق پرنسپل ڈاکٹر شاردا پرساد نے توصیفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہندی کی سگی بہن ہے، اس میں حسن بھی ہے اور کشش بھی۔ جے این کالج دھروا، رانچی کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد غالب نشتر نے کہا کہ اردو پڑھنے سے روزگار کے مواقع کم نہیں ہوتے بلکہ روزگار ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اساتذہ، پروفیسرز، مترجم سے لے کر وہ تمام شعبہ جات جن میں دوسرے مضامین کے طلبہ امیدوار بن سکتے ہیں، اردو والے بھی ان کے برابر ہیں وہ بھی امیدوار بن کر اور کوالیفائی کر سکتے ہیں۔ انجمن فروغ اردو کے صدر محمد اقبال نے کہا کہ جھارکھنڈ میں اردو طلبہ کے لیے روزگار کے بہت سارے امکانات ہیں اور آج اردو سے متعلق ہزاروں اسامیاں خالی ہیں لیکن حکومت بحالی کا عمل شروع نہیں کر رہی ہے۔
صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد عبداللہ نے کہا کہ اردو میڈیم میں پڑھنے والے کئی امیدوار UPSC اور NEET کے امتحانات میں ٹاپ کیے ہیں، یہ اردو کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ارسد جمال نے کہا کہ اردو میں ڈگری اور ڈپلومہ ہولڈرز کے لیے دنیا بھر میں ملازمتوں اور کیریئر کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ فنانس، انٹرنیشنل بزنس، انٹیلیجنس،ٹیکنالوجی، اڈمنسٹریشن، ایوی ایشن، صحت، فلم اور دیگر کئی شعبوں میں اردو کے ڈگری اور ڈپلومہ ہولڈرز یہاں یوں ہی بغیر ڈگری محض صلاحیت رکھنے والوں کے لیے نوکریاں دستیاب ہیں۔
منور حسین نے کہا کہ اردو جھارکھنڈ کی دوسری سرکاری زبان ہے لیکن صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اردو کے اساتذہ اور کتابیں دستیاب نہیں ہیں۔ لہذا، جھارکھنڈ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ریاست کے سرکاری اسکولوں میں اردو کی تعلیم کے لیے مناسب انتظامات کرے۔ اظہار تشکر کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہنواز خان نے کہا کہ پروگرام کی کامیابی پر مہمانان، مقررین، والدین، طلباء وطالبات اور انجمن فروغ اردو کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اپنے رفقاء اور معاونین خصوصی طور پر معظم علی صدیقی اور ماسٹر محمد رفیق اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
پروگرام میں خصوصی طور پر پروفیسر منوج کمار جھا پروفیسر شبانہ انجم، پروفیسر نغمہ نوصابہ، ڈاکٹر شگفتہ بانو، رازدہ خانم، سرفراز احمد قادری، معراج الدین، دلاور احمد، پروفیسر قرۃ العین، ابراہیم احمد، حاجی رئیس خان، نسیم اختر، سہیل انصاری، توصیف عالم، عادل انصاری، محمد ارشاد انصاری، محمد ریاست، آفتاب عالم، محمد عمران، فیضان انصاری، نازنین پروین، شفقت جہاں، محمد جمیل، فیروز عالم، وغیرہ موجود تھے۔