میر ا پہلا سفر ِ حج۔۔۔الحاج محی الدین منیریؒ۔ مدیر البلاغ بمبئی
تقسیم ہند کے بعد تیس سال سے زیادہ حاجیوں کی خدمت کرنے والے سرزمین بھٹکل سے تعلق رکھنے والے خادم الحجاج کی زبانی ۱۹۵۱ء کے حج کے مشاہدات (عبد المتین منیری)
۱۹۵۱ء میں بمبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں تھا، شہر میں سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ اس دوران حج کا موسم آگیا۔ انجمن خدام النبی ﷺکے حاجیوں میں کپڑوں وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم لوگ دن رات ان کی خدمت میں لگ گئے۔ ان دنوں حاجی احمد غریب سیٹھ ، انجمن خدام النبی ؐ کے جنرل سکریٹری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثروت ودولت سے مالامال کیا تھا۔ انہوںنے اپنی عمر عزیز حاجیوں کی خدمت کرتے گذار دی۔ میرے کام سے وہ بہت خوش تھے۔ اسی دوران انجمن خدام النبی ؐ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی حاجیوں میں راشن کی تقسیم کے لئے تین افراد کو مکہ مکرمہ بھیجاجائے۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مکہ کی سخت دھوپ اور گرمی میں راشن کے بورے اٹھانے پڑیں گے۔ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی ہونگی ۔ کیا تم اس کام پر جانے کے لئے تیار ہو۔ میں نے کہا ’’ نورعلیٰ نور‘‘ انہوںنے پھر کہا کہ راشن کی تھیلیاں تم سے اٹھائی نہیں جائیں گی ۔ میں نے جواب دیا ایک مرتبہ مجھے حج بیت اللہ پر بھیج کر تو دیکھیں باقی مجھ پر چھوڑ دیں۔ بالآخر میرے نام کا قرعۂ فال نکلا اور احمد غریب مرحوم نے مزید دو ساتھیوں کی رفاقت میں مجھے حج بیت اللہ پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
خداکی شان دیکھئے ، یہ سب اتنی عجلت میں ہوا کہ سفرِ حج سے قبل وطن جاکر اہلِ وعیال سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملی۔ مجبوراً والدہ سے ٹیلگرام کے ذریعہ اجاز ت طلب کرنی پڑی کہ زندگی میں ایک سنہرا موقعہ نصیب ہواہے ۔ اس وقت مجھے احمد جانی کی بات باربار یاد آئی کہ منیری ! محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنا جلدی بلاوا آئے گا۔ اور سچ مچ بلاوا آگیا۔ یہ خبر سن کر احمد جانی میرے پاس آئے ، پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے ، میں نے نہیں کہا تھا تمھارا جلد بلاوا آئے گا۔ دیکھو ، بلاوا آہی گیا ، خدمت بھی کرو ، عبادت بھی کرو۔
سفرِ حج پر جب روانہ ہواتو عالم یہ تھا کہ مکہ مکرمہ میں اس شدت کی گرمی پڑی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر تھی ۔ جدہ سے سیکڑوں راشن کی بوریاں آتیں، جن پر حاجیوں کے نمبر درج ہوتے، اس ڈھیرمیں سے حاجیوںکی بوریاں نمبروں کے مطابق تلاش کرکے نکالی جاتیں ۔ اس دوران حاجیوں کی صلواتیں سننے کو ملتیں کہ گھنٹہ گذرگیا، اتنی دیر ہوگئی ، تم کام کرتے ہوکہ ……بعض نادان و بے سمجھ تو گالیوں کی بوچھار شروع کردیتے۔ مجھے وہ واقعہ اب بھی یاد ہے کہ ایک حیدرآبادی حاجی اپنی اناج کی بوری لینے کے لئے احرام کی حالت میں میرے پاس آئے تھے۔ ان کے نمبر کی بوری ادھر ادھر ہونے کی وجہ سے تلاش میں جو دیری ہوئی تو انہوںنے مجھے ایسی ایسی گالیاں دینی شروع کیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان کے قدموںپر گرگیا اور ان کا احرام پکڑ کر التجا کی کہ حاجی صاحب آپ اتنا سارا خرچ کرکے تکلیفیں اٹھا کر بیت اللہ کے پاس آئے ہیں ۔ آپ کی بوری تو دیر سویر مل ہی جائے گی لیکن گالیاں دے کر اپنا یہ حج ضائع نہ کیجئے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’فَلارَفَثَ وَلا فُسُوق َ وَلاَ جِدَالَ فیِ الحَج‘‘اگر دوران ِ حج اس قسم کا بڑ ا عمل سرزد ہوا تو ساراحج برباد ہوجائے گا۔ مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔ حالت ِ احرام میں گالیوں کی بھرمار سے اپنے سارے حج کا ستیا ناس کردیااور اگلے روز آکر معافی تلافی کرنے لگے۔
پہلے حج کے دوران دل پر عجیب کیفیت طاری تھی ۔ ایک طرف جسم جھلسادینے والی گرمی ۔ اس پر اناج کے بورے پیٹھ پر لاد کر ادھر ادھر لے جانے کی محنت ۔ کوئی اور ہوتو اپنے ہوش وحواس کھودے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سب راہیں آسان کردیں، تمام مصائب ومشکلات سے پار کردیا ۔
اسی دوران ہم لوگوںنے فیصلہ کیاکہ حاجیوں میں مفت برف تقسیم کی جائے۔ احمد غریب اور ان کے خاندان والوں نے منیٰ و عرفات میں وسیع و عریض مکانات رہائش کے لئے کرایہ پر لے لئے تھے۔ مرحوم کو حج کے میدان میں بڑا تجربہ حاصل تھا۔ وہ بڑے ہی نیک جذبات کے مالک انسان تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد انہوںنے برف حاصل کی اور ڈھیر سارا برف اپنی رہائش گاہ پرجمع کردیا۔ اور ہم لوگ اس کی تقسیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اکیلے احمد غریب نے سارا خرچ برداشت کیا۔
برف کی اس مفت تقسیم پر دوچار روز ہی گذرے تھے کہ ایک دن شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز جو ابھی سعودی عرب کے فرمانروا نہیں بنے تھے اچانک ایک کارمیں آکر ہمارے ڈیرے پر رک گئے ۔ انہوں نے ہمیں طلب کیا ۔ احمدغریب اور میں ان کے نزدیک گئے ۔ انہوںنے دریافت کیا کہ برف کی یہ تقسیم کس کی طرف سے ہورہی ہے۔ ہم نے بتایا کہ گرمی کی شدت سے حاجی مررہے ہیں ، انہیں تھوڑا ساہی سہی آسراملے، اس غرض سے ہندوستانی حاجیوں کی خدمت کے لئے قائم تنظیم ’’ انجمن خدام النبیؐ‘‘ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہماری یہ بات سن کر شہزادہ فیصل بہت خوش ہوئے ۔ ہمیں ڈھیر ساری مبارکباددی اور فوراً ہی مکہ جاکر اعلان کردیا کہ تمام برف کے کارخانہ دار اپنا اپنا تیار کردہ پورے کا پورا برف منٰی بھیج دیں اور مختلف مراکز قائم کرکے اسے حاجیوں میں تقسیم کریں۔
آج حاجیوں کو جو سہولیات مہیا ہیں اس زمانے میں نہ تھی ۔ گرمی کی شدت ناقابل برداشت تھی ۔ اس وقت کی پریشانیاں بیان سے باہر ہیں۔ باوجود اس کے ہم شب وروز منٰی و عرفات میں حاجیوں کی خدمت کرتے رہے ۔ احمدغریب ان کے بھائی مولوی احمد عبداللہ اور ان کے بعض دوست واحباب خدمت کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے ۔ ہم سب نے آپس میں ایک دوسرے سے کہہ دیا تھا کہ خدا ہی ہمیں یہاں سے زندہ سلامت وطن واپس پہنچا سکتاہے، ورنہ حالات ایسے نہیں کہ یہاں سے زندہ بچ سکیں۔ ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھ کر حاجیوں کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے کیمپوں کی طرف ہم نکل پڑتے۔
وہ واقعہ تو اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جب ہم قربانی دے کر اپنی رہائش گاہ کی جانب لوٹ رہے تھے ، ابھی پائو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا باقی تھا۔ مجھ پر چلتے چلتے غشی طاری ہونے لگی۔ ٹیکسی وغیرہ کوئی سواری نہیں مل رہی تھی ، آج کے دور میں نہیں ، اس سستے دورمیں بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی ملی ۔ ڈرائیور نے پائو کلومیٹر کے چالیس ریال طلب کئے ۔ ایک قدم بڑھانے کی طاقت ہم میں نہ تھی ۔ احمد غریب نے ہدایت کی کہ جتنے کی بھی گنجائش ہو لوگ سوار ہوجائیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ابھی رہائش گاہ میں قدم رکھتے ہی سب بے ہوش ہو کر پڑگئے ۔ یہ خداکا فضل ہی تھا کہ سبھی زندہ بچ گئے۔
جب ہم منٰی میں تھے ، نمازِ فجر کے بعد حیدرآباد کے معلم بدرالدین نے میراہاتھ پکڑ کرکہا ۔ منیری صاحب!اس وقت اللہ تعالیٰ کا کچھ جلال معلوم ہوتاہے ، شام تک ہمارا کیا حال ہوگا کچھ معلوم نہیں ۔ وقت جوں جوں گذرتاگیا گرمی کی شدت اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ جان کر تمہیں حیرت ہوکہ جوان جوڑے چلتے چلتے بیٹھ گئے، پھر انہیں اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ لیٹتے ہی سانس نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسپتال میں ہزاروں لوگ پانی کے ٹبوں میں پڑے ہوئے تھے ، کسی کے کان میں پانی ڈالا جارہاتھا کسی کے منھ سے جھاگ اٹھ رہی ہے اور بہت سے اپنے رب کو جواب دے چکے ہیں۔
اس سال بھٹکل سے چار افراد شیکرے صائبو، کے یم باشا، ان کی والدہ اور حافظکا کے والد فریضہ حج انجام دے رہے تھے۔ ان کاکیمپ ہمارے میمن حضرات کے کیمپ سے قریب تھا۔ ہمارے معلم سید سراج ولی تھے۔ اتفاقاً ایک روز دوپہر کے وقت ان کی رہائش گاہ پر جاناہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حافظکا کے والد پر لُولگنے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں ، کے یم باشا حسرت سے کہنے لگے ، منیری ! برف کا کہیں سے انتظام ہوجاتاتو کتنا اچھا تھا۔ کہیں سے بھی برف کا کوئی ٹکڑانہیں مل رہاہے۔
ہمارے میمن ساتھی بڑے ہوشیار تھے۔ یہاں پر ان کی دکانیں بھی تھیں، انہیں حج کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوںنے برف کی دوسلیں عرفات میں حفاطت سے لاکر رکھیں تھیں۔ جعفر سیٹھ کے بھائی محمد سیٹھ سے میں نے گذارش کی کہ ہمارا ایک شخص بے ہوش پڑا ہواہے۔ مہربانی فرماکر برف کا کوئی ٹکڑا دے دیں…ارے منیری !ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے لئے یہ ہم لائے ہیں۔ تم بولتے ہوتو ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے جائو…ان کے اس جواب سے میری جان میں جان آئی ۔ برف کا ایک چھوٹاٹکڑا لے کر کیمپ گیااور حافظکاکے والد کے سرہانے بیٹھ کر اسے سینکتا رہا۔ برف کا چھوٹا سا ٹکڑا پانی میں گھول کر انہیں پلاتا رہا۔ اس وقت برف کے اس ننھے سے ٹکڑے کی جو قدرو قیمت تھی موجودہ دورمیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اب تو برف کی بہتات ہے قدم قدم پر ملتی ہے۔ اس زمانے میں عرفات میں کہیں برف کانام و نشان نہیں تھا۔ لوگ گرمی سے تڑپتے تھے ، ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس کے دام دینا ان کے بس سے باہر ہوتا تھا۔ ایسے عالم میں ان حضرات نے ہماری مدد کی۔ ایک دو گھنٹے برف سینکنے کے بعد حافظکا کے والد کو ذرا ہوش آیا۔ انہوںنے اپنا حج پوراکیا اور مزید پندرہ بیس سال زندگی گزار کر اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے۔
اس سفرِ حج سے قبل ہمیں لُو لگنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا ہمیں علم تھا۔ البتہ منٰی و عرفات کے بدؤوں کی زبانی سنتے تھے کہ لُو لگنے پر پیاز ہاتھ میں رکھنی چاہئے، اس کا رس لُو زدہ شخص کے کانوںمیں گھولنااور سرپرمَلنا چاہئے۔ احمد غریب نے احتیاط کے تحت دو تین پیاز کے بورے بحفاظت رکھ لئے تھے۔ اب تو بازاروں میں بہت ساری دوائیاں دستیاب ہورہی ہیں ، اس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔
میرا پہلا حج شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے دور حکومت میں ہواتھا۔ مکہ معظمہ میں حرم شریف کی عمارتیں ابھی ترکی دور ہی کی پرانی چلی آرہی تھیں ، خوشحالی کا دور ابھی شروع نہیں ہواتھا۔ سعودی حکومت کو پیسوں کی بہت ضرورت تھی ، تمام ملکوں میں اس کے نمائندے اور دلال پائے جاتے تھے، جو حاجیوں کو لاتے ۔ ہر حاجی پر ۳۷۴روپئے کا ٹیکس لگتا، جوا نہی ملکوں میں ادا کیا جاتا۔ ٹکٹ کے ہزار ڈیڑھ ہزار روپئے الگ سے لگتے۔ معمولی ٹکٹ آٹھ سو روپئے میں آتا تھا۔ غریب لوگ حج کے شوق میں بھیک مانگ مانگ کر سفرپر نکلتے۔ کچھ عرصہ بعد حکومت ہند نے ہر حاجی کو اپنے ساتھ دوہزار روپئے نقد اور ڈرافٹ کی شکل میں دوہزار روپئے لے جانے کی چھوٹ دے دی۔ اور سفرِ حج پر سہولتوں کے مختلف دور آئے۔
اس سفر میں ہمیں بڑی مصیبتوں اور مشقتوں سے گذرنا پڑا۔ زندہ واپسی کی امید نہ تھی۔ لیکن خدانے اپنی امان میں رکھااور آج انتالیس سال بعد بھی آپ کے سامنے صحیح سالم موجود ہوں۔ اس سفر کی کچھ تصویریں انجمن خدام النبی ؐ کے بمبئی آفس میں موجود ہونگی، جن سے حاجیوں کی اس وقت کی حالت ِ زار کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اس طرح خدا خدا کرکے میر ا پہلاسفر ِ حج تمام ہوا۔ اور انجمن خدام البنی ؐ میں حاجیوں کی خدمت کرنے میں میری دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔
Https://telegram.me/ilmokitab