Ranchi Jharkhand

حضرت مولانا فضل الرحمان بھٹکلی نے کیا فاطمہ گرلزس اکیڈمی کا معائنہ

Share the post

فاطمہ گرلزس اکیڈمی کے سرپرست بنے مولانا فضل الرحمان

رانچی: حضرت مولانا فضل الرحمان منیری بھٹکلی نے آج فاطمہ گرلس اکیڈمی رانچی کا معائنہ کیا۔ یہاں کے سلیبس کو جانا، اس ادارہ میں ایک ساتھ دینی و دنیاوی تعلیم کی پڑھائی کیسے کرائی جاتی ہے اس کو جانا۔ فاطمہ گرلس اکیڈمی کے بچیوں نے حضرت مولانا فضل الرحمان منیری بھٹکلی کو سلیبس کی پوری جانکاری دی۔ اکیڈمی کے کمپیوٹر کلاس، انگلش کلاس، اور سبھی کلاس کی جانکاری بچیوں نے دی۔ جسے دیکھ اور سن کر مولانا فضل الرحمان منیری نے کہا کہ الحمدللہ بچیوں کے سلیبس دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس وقت زمانے کے حساب سے دین و دنیا دونوں ساتھ میں پڑھانی چاہیے۔ الحمدللہ حضرت مولانا نسیم انور ندوی فاطمہ گرلس اکیڈمی کو قائم کیے اور اس ادارہ میں دین و دنیا دونوں سلیبس پڑھائی جاتی ہے۔ میں یہاں کے سلیبس اور مولانا نسیم انور ندوی کی کوششوں سے بہت خوش ہوں، اور اطمینان ہوں۔

یہاں کی پڑھائی اطمینان بخش ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے۔ تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور قتدار کا خیال رکھ سکے۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے۔ دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے۔ وہیں حضرت مولانا نسیم انور ندوی نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب محض اسکول، کالج، یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ادب و اخلاق سیکھنا بھی شامل ہے۔ تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکے۔ چونکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے، ایٹمی ترقی کا دور ہے۔ سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ،ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت ،ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔ جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری ہے۔ آخر میں مولانا نسیم انور ندوی نے فاطمہ گرلس اکیڈمی کی سرپرستی کے لیے حضرت مولانا فضل الرحمن منیری بھٹکلی کو اس ادارہ کا سرپرست بنایا۔ معلوم ہو کہ فاطمہ گرلزس اکیڈمی میں ایک کلاس سے لیکر گریجویشن تک اور ناظرہ سے لیکر فاضل تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔

Leave a Response