All India NewsBlogJharkhand NewsNewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

الحاج ماسٹر یوسف صاحب استاد آزاد ہائی اسکول کی شخصیت و خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343)

Share the post

علم اور صحت انسانی زندگی کے دو ایسے اہم اور بنیادی شعبے ہیں جن کے زریعے ہی انسانی معاشرے کی صحیح تعمیر و ترقی ہوتی ہے ، علم ہوگا تو سلیقے سے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آئے گا اور صحت ہوگی تو زندگی میں اطمینان قلب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا ، اس لئے علم اور صحت کی اہمت و افادیت سے ہر کوئی واقف ہے ، علم ہی سے انسان کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور اس کے اندرونی جوھر نکھر کر سامنے آتے ہیں ، علم کی روشنی سے ہی انسان کی پوشیدہ صلاحیتیں اُجاگر ہوتی ہیں ، سائینس اور ٹیکنالوجی کے جس دور میں ہم جی رہے ہیں اور جتنی چیزوں کو استعمال کر رہے وہ تمام چیزیں علم کی بدولت ہی وجود میں آئی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ علم اور صاحب علم کی ہمیشہ قدر و منزلت ہوتی رہی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ آج کے بگڑے ہوئے ماحول اور معاشرے میں تقریباً ہر جگہ جاہلوں ، نادانوں اور سر پھرے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے منافق صفت لوگوں کی بالادستی و حکمرانی ہے ، کسی زمانے میں لوگ اھل علم کے پیچھے چلنے ، ان کی باتوں کو تسلیم کرنے ، ان کی رائے کو ماننے اور ان کی تمام تر رہنمائی کو اپنے لئے باعث فخر محسوس کرتے تھے ، وہ جانتے تھے کہ صاحب علم انسان ہی معاشرے کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے اور ان کے ذریعے ہی نئی نسل کی تعلیمی و اخلاقی تعمیر و ترقی ہو سکتی ہے ، انسانی معاشرے کو زیور علم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، مکاتب و مدارسِ اور جامعات کا چھوٹے اور بڑے پیمانے پر ایک عملی سلسلہ قائم کیا گیا جسے معاشرے نے قبول بھی کیا اور وہ مقبول بھی ہوا ،جس کا سلسلہ آج بھی قائم ہے ، آج یہ تعلیمی ادارے حصول علم کے اہم ذرائع کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں ، لیکن ان تعلیمی اداروں کی روح ان کے اساتذہ ہیں ، بغیر استاد کے یہ تعلیمی ادارے اینٹ اور پتھر کے محض ایک ڈھانچے ہیں ، آج ہمارے معاشرے میں دو طرح کے تعلیمی ادارے ہیں ، ایک سرکاری اور دوسرا غیر سرکاری یعنی پرائیویٹ ادارے ،

کسی زمانے میں غیر سرکاری یعنی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا تصور بہت کم تھا ، اعلیٰ اور معیاری تعلیم سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہی ہوا کرتی تھی ، کیوں کہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ (ٹیچرس ) باضمیر ، بااخلاق ، ایماندار اور طلباء کے تعلیمی مفاد اور ان کے بہتر مستقبل کے تئیں حساس ہوا کرتے تھے ، انھوں نے تعلیم کو آج کی طرح کاروبار نہیں بنایا تھا ، رانچی کے تعلیمی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو کسی زمانے میں آزاد ہائی اسکول رانچی کے مسلمانوں کا بہت ہی مشہور و معروف اقلیتی تعلیمی ادارہ رہا ہے ، جس میں پڑھانے والے تمام قابل ، باصلاحیت اور ایماندار اساتذہ تقریباً مرحوم ہوچکے ہیں الا ماشاءاللہ ، جن کی مختلف سبجیکٹ میں علمی و تدریسی صلاحیت و قابلیت کے آج بھی لوگ معترف ہیں ، آزاد ہائی اسکول رانچی کے انھیں قابل اساتذہ میں ایک باکمال ، باصلاحیت اور میتھمیٹکس (حساب) کے بہت ہی قابل استاد ماسٹر یوسف صاحب مرحوم ہوا کرتے تھے ، ماسٹر یوسف صاحب مرحوم بنیادی طور پر جھارکھنڈ کے مشہور و معروف ضلع پلامو حسین آباد سب ڈویژن کے کٹھوندہ بستی کے رہنے والے تھے ، ماسٹر یوسف صاحب اور ان کے بھائی امین صاحب بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے ، بچبن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا ، ان کی پرورش ان کے ننھیال میں ہوئی تھی ، اپنے علاقے میں ہی ابتدائی اور سکنڈری تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے رانچی آگئے اور رانچی کالج میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم کو جاری رکھا ، رشتے داروں پر معاشی بوجھ ڈالنے کے بجائے رانچی شہر میں ہی ٹیوشن پڑھا کر اپنے تمام تر اخراجات کو پورا کرتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کی ، ماسٹر یوسف صاحب پڑھنے میں شروع سے ہی بہت ذہین اور تیز طرار واقع ہوئے تھے ، رانچی میں رہتے ہوئے انھوں نے اپنے بہتر مستقبل کے لئے بڑی جدو جہد کی اور آزمائشوں کے کٹھن راستوں گزرتے ہوئے آخر کار ان کی نوکری آزاد ہائی اسکول میں ہوگئی ، وہ آزاد ہائی اسکول میں میتھمیٹکس (حساب) کے استاد کی حیثیت سے بحال کئے گئے ،

آزاد ہائی اسکول میں رہتے ہوئے انھوں نے آزاد ہائی اسکول کے تعلیمی معیار کو بڑھانے اور ایک مقام عطاء کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، رانچی شہر میں وہ میتھمیٹکس کے بہت ہی قابل اور باصلاحیت استاد کی حیثیت سے مانے جاتے تھے ، انھوں نے پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ اپنی تدریسی ذمےداریوں کو نبھایا ، ماسٹر یوسف صاحب مرحوم آج کے اکثر و بیشتر ٹیچروں کی طرح حاضری بناکر اسکول سے غائب ہوجانے یا صرف تنخواہ اٹھانے والے ٹیچروں میں سے نہیں تھے ، ان سے پڑھنے والے لوگ آج بھی بتاتے ہیں کہ وہ وقت کے بڑے پابند تھے ، وقت پر کلاس آتے تھے اور پوڑا گھنٹہ پڑھاتے تھے ، میتھمیٹکس (حساب) جو اکثر و بیشتر طلباء کے لئے ہمیشہ ایک مشکل سبجیکٹ رہا ہے ، ماسٹر یوسف صاحب مرحوم میتھمیٹکس کا ہر چیپٹر اس طرح سمجھاتے تھے کہ کمزور سے کمزور اسٹوڈینٹ کو بھی سمجھ میں آ جاتا تھا ، آج عام طور پر اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو گروہ بندی اور ایک استاد کا دوسرے استاد کے ساتھ بغض و عناد اور حسد و کینہ کا جو ماحول اور مزاج ہے ، ماسٹر یوسف صاحب مرحوم اور ان کے ہم عصر اساتذہ اس گھناونے ماحول اور مزاج سے کوسوں دور تھے ، آزاد ہائی اسکول رانچی میں ملازمت ملنے کے بعد انھوں نے اپنے آبائی علاقہ رمضان بیگھا میں ہی نکاح کیا ، شادی کے بعد وہ مستقل طور پر سکونت کے لئے رانچی آگئے اور مسلم اکثریتی علاقہ ہند پیڑھی رانچی میں مع اہل و عیال سکونت اختیار کرلی ، اسکول و کالج سے وابستہ رہنے والے اسکول ماسٹر جناب یوسف صاحب مرحوم شروع سے ہی صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے تھے ، دعوت و تبلیغ میں وقت لگانے کے بعد ان کے دینی مزاج و مذاق میں اور زیادہ تبدیلی و پختگی پیدا ہوگئی تھی ، کسی زمانے میں رانچی کی رنگساز مسجد میں اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اسٹوڈینٹس کا ہر اتوار کو تبلیغی اجتماع ہوا کرتا تھا جس میں ماسٹر یوسف صاحب مرحوم جیسے لوگ طلباء کے لئے آئیڈیل کے طور پر کام کرتے تھے ، کاش وہ سلسلہ اگر آج قائم اور باقی رہتا تو اسٹوڈینٹس کا ایک بڑا طبقہ جو آج بے راہروی کا شکار ہوکر غیر مقلدیت کی طرف مائل ہو رہا ہے اسے روکا جا سکتا تھا ، درمیانہ قد ، گندمی رنگ ، لمبا کرتا شلوار اور چہرے پر سلیقے سے گھنی داڑھی رکھنے والے ماسٹر یوسف صاحب مرحوم دیکھنے میں کسی مدرسہ کے استاد یا مہتمم سے کم نہیں لگتے تھے ،

ان کے دینی مزاج و مذاق کی پختگی و مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے بڑے لڑکے محمد طلحہ کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرکے ملک کے مشہور و معروف عالمی شہرت یافتہ دینی ادارہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کا فارغ التحصیل عالم دین بنادیا جسے لوگ آج مولانا طلحہ ندوی صاحب کے نام سے جانتے ہیں ، دوسرے لڑکے محمد طہ کو حافط طہ بنادیا ، ماسٹر یوسف صاحب مرحوم بطور مذاق کہا کرتے تھے کہ میں عالم نہیں عالم کا باپ ہوں ، اپنے ایک لڑکے کو عالم دین اور دوسرے لڑکے کو حافظ قرآن بناکر ماسٹر یوسف صاحب مرحوم نے ان مولویوں کو عملی پیغام دیا ہے جو ” جلسئہ دستار بندی” کے اسٹیج سے تو دینی تعلیم کی اہمیت وفضیلت پر تقریر کرتے ہوئے عوام کو ترغیب دیتے ہیں کہ اپنے بچوں کو عالم دین اور حافظ قرآن بنائیں مگر خود اپنی اولاد کو عالم دین اور حافظ قرآن نہیں بناتے ، ان میں وہ مولوی بھی شامل ہیں جو اپنے ہی گھر میں گھریلوں خانقاہی نظام قائم کئے ہوئے ہیں اور وہ مولوی بھی شامل ہیں جو خود مکاتب و مدارسِ کے نظام سے وابستہ رہنے کے باوجود اپنی اولاد کو حافظ قرآن یا عالم دین نہیں بناتے ، وہ مولوی بھی شامل ہیں جو عوام کو بات بات پر شریعت کی چھڑی اور فتویٰ بازی سے ڈراتے اور دھمکاتے رہتے ہیں ، چند مدارس کے ناظم اور مہتمم نے اپنی اولاد کو عالم دین اس لئے بنایا ہے تاکہ مدرسہ کی جائیداد کو پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کی طرح قائم اور باقی رکھا جاسکے ، ماسٹر یوسف صاحب مرحوم صرف ایک اسکول کے استاد نہیں تھے بلکہ وہ اسکول کی ملازمت کے دوران اور ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تعلیمی اور سماجی خدمات انجام دیتے رہے ، وہ شروع سے زندگی کے آخری ایام تک مدینہ مسجد ہند پیڑھی کے مستقبل نمازی رہے اور مدینہ مسجد کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ ایک مشیرکار کی حیثیت سے شریک رہے ، دعوت و تبلیغ سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان کا بہت گہرا رشتہ اور تعلق بڑی مسجد تبلیغی مرکز سے بھی تھا ، وہ بڑی مسجد میں ہی قائم مدرسہ دارالقرآن کی مجلس شوری کے ایک عرصے تک امیر شوری رہے ، وہ مدرسہ دارالقرآن کے ناظم و مہتمم جناب حافظ نذیر احمد صاحب جو آنکھوں سے معذور تھے کی حمایت و سرپرستی میں ہمیشہ کھڑے رہتے تھے ، ماسٹر یوسف صاحب چونکہ ایک حق گو انسان تھے ، وہ ناحق اور بیجا کسی کی حمایت کو چاپلوسی خیال کرتے تھے ، حق گوئی میں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، ان کے اس رویے سے کچھ لوگ ان سے نالاں بھی رہتے تھے جس کی ماسٹر یوسف صاحب مرحوم ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے تھے ، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب سابق امام و خطیب جامع مسجد اپر بازار رانچی کی شرافت و سادگی اور صوفیانہ صفات کی وجہ سے بہت عزت اور بہت اکرام کرتے تھے ، اس نسبت سے وہ مجھے (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی) کو اپنے بیٹے کی طرح مانتے تھے ، کاش ماسٹر یوسف صاحب مرحوم کی اس نسبت و تعلق کا خیال ان کے وصال کے بعد بھی رکھا جاتا تو کوئی دینی و دنیاوی نقصان نہیں تھا بلکہ باپ کی اخلاقی وراثت کو قائم رکھنے کی روایت باقی رہتی ،
ماسٹر یوسف صاحب مرحوم کا انتقال ہند پیڑھی رانچی میں ہی ہوا اور رانچی کے راتو روڈ قبرستان میں سپردِ خاک کئے گئے ، اللہ تعالیٰ ماسٹر یوسف صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین ،

Leave a Response