All India NewsBlogfashionJharkhand NewsNewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

گھر کے چراغ بجنے لگے ، غفلت کے بادل چھا گئے

Share the post

از: محمد قمر عالم قاسمی
شہر قاضی رانچی، جھارکھنڈ
آج ہمارے گھروں سے ایمان، اخلاق اور تربیت کی خوشبو مدھم پڑتی جا رہی ہے۔وہ بچے جو کبھی اپنی ماؤں کی آغوش میں قرآن سیکھا کرتے تھے، آج موبائل اسکرینوں کے اسیر بن چکے ہیں۔وہ والدین جو کبھی اولاد کے اخلاق و کردار پر نگاہ رکھتے تھے، اب دنیا کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہیں کہ اپنی نسل کے مستقبل اور ایمان کی سمت پر غور کرنے کی فرصت نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری غفلت نے ہمارے گھروں کے چراغ بجھا دیے ہیں۔


قرآنی ہدایت ہے:کہ “اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ”(سورۃ التحریم: 6)یہ آیت اس بات کی واضح رہنمائی کرتی ہے کہ والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو نہ صرف دنیاوی فلاح بلکہ آخرت کی نجات کے لیے بھی تربیت دیں۔مگر آج اکثر والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اچھے اسکول، اچھے کالج اور نامور یونیورسٹیوں میں داخل کر دینا ہی تربیت کا حق ادا کر دینا ہے۔(اسلام کبھی تعلیمِ جدیدیا دنیاوی علوم کا مخالف نہیں رہا،بلکہ وہ اس کا حامی ہےکہ ڈاکٹر، انجینئر، آئی اے ایس، سائنس داں، قلمکار، خطیب، شاعر سب ہوں مگر ایمان و کردار کے زیور سے آراستہ ہوں خواہ وہ اسکول کالج میں پڑھنے والے ہوں یا مدرسہ میں پڑھنے والے ہوں) کیونکہ علم جب ایمان سے خالی ہو جائے، تو انسانیت کے بجائے حیوانیت کو فروغ دیتا ہے۔ہم نے دنیا کی سہولتوں کو زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔گھر بڑے، لباس قیمتی، کھانے عمدہ اور مکانوں، فلیٹوں کے انٹیریئر ،ایکسٹیریر ، اندرونی و بیرونی نقش و نگار پر ایک ایک شخص دس دس لاکھ ، بیس بیس لاکھ روپے خرچ کر دیتا ہے ۔مگر اخلاق و دینداری کی تعمیر پر کوئی توجہ نہیں۔عبادات کا حال یہ ہے کہ جب دل چاہا نماز پڑھ لی، جی میں آیا تو روزہ رکھ لیا، زکوٰۃ دے دی؛حالانکہ زکوٰۃ، روزہ اور نماز محض رسم نہیں بلکہ ایمان کے ستون ہیں۔

ہزاروں لاکھوں مالدار ایسے ہیں جن پر حج فرض ہے مگر دنیاوی بہانوں نے انہیں روک رکھا ہے۔کبھی بیٹی کی شادی، کبھی مکان کی تعمیر،کبھی تجارت کا بہانہ، کبھی بیماری کا عذر۔یہی غفلت ہے جو ہمارے گھروں سے برکت، سکون اور رحمت کو رخصت کر رہی ہے۔اللہ تعالیٰ صرف ہمارا ظاہری حسن نہیں، بلکہ باطن کی خوبصورتی بھی دیکھتا ہے۔وہی بندہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ جس کا ظاہر بھی شریعت کے مطابق ہو اور باطن بھی ایمان سے منور۔اصل تربیت یہ ہے کہ بچے میں دین داری ، اخلاق، ادب اور احساسِ ذمہ داری کی پرورش ہو۔ورنہ دنیاوی کامیابیاں ایک دن مٹی ہو جائیں گی، تربیتِ صالحہ ایک نسل کو جنت کے راستے پر ڈال سکتی ہے۔آج وقت ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ:کیا ہمارے گھروں کے چراغ اب بھی ایمان و اخلاق سے روشن ہیں؟یا ہم نے انہیں دنیاوی مصروفیات کی دھول میں بجھنے کے لیے چھوڑ دیا ہے؟اگر ہم نے اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر نہ کی،تو آنے والی نسلیں ہمیں شایدمعاف نہیں کریں گی اور وہ ہمارے لیے حسرتِ دائمی بن جائیں گیں ۔آئیے، اپنے گھروں کے بجھے چراغ دوبارہ جلائیں۔ایمان، عبادت، اخلاق اور محبت کی روشنی سے ،تاکہ ہماری آنے والی نسلیں پھر سے روشنی پائیں۔آج کا دور علم و ترقی کا دور کہلاتا ہے، مگر افسوس!ہماری نئی نسل چاہے اسکولوں میں پڑھنے والی ہو یا دینی مدارس میں آہستہ آہستہ اپنی پہچان، اپنے اخلاق، اپنے مقصدِ زندگی سے دور ہوتی جا رہی ہے۔نہ استاد کا ادب (ابھی آپ نے مظفر نگر باغپت میں دو طالب علموں کے ذریعے استاد کے بیوی اور اس کی دو بیٹیوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کا ماجرہ دیکھا اور سنا ہوگا)،نہ والدین کی بات پر توجہ اور نہ اپنے مستقبل کی فکر،یہ کیفیت اس بات کی علامت ہے کہ تربیت کمزور ہوتی جارہی ہے، جبکہ علم اکیلا انسان کو انسان نہیں بناتا۔ ایمان والے کی ذمہداری صرف خود کے لیے نہیں بلکہ اپنی اولاد اپنے سماج ، سوسائٹی ، محلے ، ٹولے ارد گرد اور پورےعالم انسانیت کے لیے بھی ہے۔بچوں کو گناہوں سے بچانا، ان کے دل میں آخرت کا خوف پیدا کرنا، اور ان کی عادتوں کو سنوارنا والدین پر فرض ہے۔حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے: “علم سکھاؤ، آداب سکھاؤ، اور ان کے دل میں اللہ کا خوف بٹھاؤ، یہی تمہاری سب سے بڑی میراث ہے”۔ نبی کریم ﷺ بچوں سے بہت محبت سے نصیحت فرماتے۔حضرت ابنِ عباسؓ بچپن میں نبی ﷺ کےپیچھے سواری پر بیٹھے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: “اے بچے! اللہ کا خیال رکھ، اللہ تیری حفاظت کرے گا۔””یاد رکھ، اگر ساری دنیا تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو نہیں پہنچا سکتی مگر وہی جو اللہ نے لکھ دیا ہے۔”(ترمذی)یہ جملے بتاتے ہیں کہ بچوں کے دل میں ایمان، یقین اور توکل بچپن ہی سے بٹھانا چاہیے۔اسی یقین سے وہ گناہ، بداعمالی اور بے راہ روی سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔اولاد کی تربیت:نبی ﷺ نے فرمایا:> “اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو، اور دس سال کے بعد نہ پڑھیں تو تادیب کرو۔”(ابو داود) یعنی دینی تربیت کی بنیاد عبادت سے ڈالی جائے۔جو بچہ سجدے میں پیشانی جھکانے کا عادی بن جائے، وہ زندگی کے کسی باطل نظام کے آگے نہیں جھکے گا۔

حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی: “اے میرے بیٹے! نماز قائم رکھ، نیکی کا حکم دے، برائی سے روک، اور مصیبت پر صبر کر۔”(لقمان: 17)یہ نصیحت ایک مکمل تربیتی نصاب ہے عقیدہ، اخلاق، عبادت، اور ضبطِ نفس سب کچھ اس میں موجود ہے۔حضرت امام حسن بصریؒ نے کہا:بچہ تمہارے ہاتھ میں ایک نرم موم ہے، اسے جس سانچے میں ڈھالو گے ویسا ہی بن جائے گا۔اسی لیے ابتدائی عمر میں جو باتیں دل میں نقش کر دی جائیں وہ ساری زندگی نہیں بھولتیں۔حضرت سفیان ثوریؒ کے والد روزانہ اپنے بیٹے کے لیے دعا کرتے: “اے اللہ! میرے بیٹے کو اپنے دین کا عالم، اپنے بندوں کا خیرخواہ، اور اپنی مخلوق کے لیے رحمت بنا۔”یہی دعا ایک باپ کی اصل تربیت ہے۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بچپن میں جب بغداد جا رہے تھے تو ان کی والدہ نے نصیحت کی: “بیٹا! ہمیشہ سچ بولنا۔”راستے میں ڈاکوؤں نے قافلہ لوٹا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو فرمایا: “میرے پاس چالیس دینار ہیں۔”ڈاکو حیران رہ گئے، پوچھا: “تم نے سچ کیوں بولا؟” کہا: “میری ماں نے وعدہ لیا تھا کہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔”اسی سچائی نے بعد میں انہیں غوثِ اعظم بنا دیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ماں باپ کی سچی تربیت اولاد کے دل میں ایمان کی جڑیں گاڑ دیتی ہیں ، والدین کے لیے غور کا مقام ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کو دین سکھا رہے ہیں یا صرف دنیا کے پیچھے بھاگنے پر لگا رہے ہیں؟کیا ہم نے انہیں قرآن کے ساتھ محبت سکھائی؟کیا ہم نے ان کے سامنے جھوٹ بول کر ان کے دل میں سچائی کو مار نہیں دیا؟کیا ہم نے موبائل دے کر ان کی توجہ کتابوں سے نہیں ہٹا دی؟اگر ہم نے اپنی اولاد کو ایمان، نماز، صدق، ادب، اور خدمتِ خلق کا سبق نہیں دیا تو ہم نے دراصل اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔قوموں کا مستقبل ان کے بچوں کے اخلاق پر قائم ہوتا ہے۔اگر آج کے بچے درست ہو جائیں تو کل کا معاشرہ خود درست ہو جائے گا۔لہٰذا والدین، اساتذہ، اور دینی ادارے سب اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کریں۔نبی ﷺ نے فرمایا: “تم سب نگہبان ہو اور تم سے تمہارے ما تحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔”
(بخاری و مسلم)یعنی والدین اپنی اولاد کے، اور استاد اپنے شاگردوں کے جواب دہ ہیں تربیت ایمان کی بنیاد ہے۔بچوں کو بچپن ہی سے نماز، ادب، اور سچائی کی عادت دلائی جائے۔
والدین کا کردار نصیحت سے زیادہ عمل سے بنتا ہے۔اولاد وہی کرتی ہے جو ماں باپ کو کرتے دیکھتی ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسل محفوظ رہے، تو ہمیں اپنی اولاد کے دل میں اللہ کا خوف، نبی ﷺ کی محبت، اور دین کی روشنی بھرنی ہوگی۔یہی ہماری سب سے بڑی وراثت اور دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔

Leave a Response