All India NewsBlogJharkhand News

مولانا ضیاءالھدی اصلاحی ایک انقلابی و تحریکی شخصیت

Share the post

معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سیاسی ، سماجی تعلیمی اور مذھبی کے اعتبار سے اپنی ذات میں ایک انجمن یا ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں جس کام کو کسی تنظیم یا ادارہ کے کئی لوگ مل کر انجام نہیں دے پاتے ہیں بعض اوقات وہ کام ایک متحرک اور فعال شخص انجام دے کرادارہ یا تنظیم کی کارکردگی کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے ، ایسے ہی باکمال ، باصلاحیت اور دینی و دنیاوی اعتبار سے فعال و متحرک اور انقلابی شخصیت کا نام ہے مولانا ضیاءالھدی اصلاحی ، جو بنیادی طور پر رانچی سے تقریباً 30 کیلو میٹر دور راتو بلاک کے”جاڑی بناپیڑھی” گاؤں کے رہنے والے ہیں ، راتو بلاک میں واقع ” جاڑی” ایک الگ بستی ہے اور ” بنا پیڑھی ایک الگ بستی ہے

، دونوں بستیاں بالکل سٹی ہوئی اور ملی ہوئی ہیں اس لئے لوگ اکثر جاڑی بناپیڑھی کا نام ملا کر ایک ساتھ لیتے ہیں ، راتو بلاک کی یہ دونوں بستیاں شروع سے حفاظ و علماء اور اہل علم کا مرکز رہی ہیں ، آج بھی ملک کے مشہور و معروف تعلیمی ادارہ ” ندوۃ العلماء لکھنؤ ” میں اسی بستی سے تعلق رکھنے والے کئی مایہ ناز استاذ اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں جن کا آبائی وطن جاڑی بناپیڑھی ہے ، اسی جاڑی بستی سے تعلق رکھنے والے ایک باکمال و باصلاحیت اور انقلابی شخصیت کے مالک مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب ہیں جو بناپیڑھی میں واقع قدیم دینی ادارہ “دارالعلوم اسلام نگر” میں اپنی بے لوث خدمات کے اعتبار سے اسم بامسمی ہیں ، یعنی وہ مدرسہ کے ناظم کی حیثیت سے قرآنی تعلیمات کی اشاعت میں ضیاء الہدی (ہدایت کی روشنی پھیلانے والے) بھی ہیں اور اپنی سماجی واصلاحی تحریکات کے اعتبار سے ” اصلاحی” ( اصلاح کرنے والے) بھی ہیں ، جس کی وجہ کر وہ پورے علاقے میں بہت مشہور و مقبول ہیں ، بیباکی و بے خوفی اور حق گوئی ان کی خاص علامت اور پہچان ہے ، جس کی وجہ کر ان کے کچھ حاسدین اور ناقدین بھی ہیں اور یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ ناقدین اور حاسدین بھی کام کرنے والے باصلاحیت افراد کے ہی ہوتے ہیں ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” غبار خاطر” میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ” اگر تعمیری و اصلاحی کام کرنے والے کے سارے لوگ قصیدہ خوانی کرنے لگیں تو اس کے منافق ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے”

مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب عام مولویوں کی طرح جامد تقلیدی ذہنیت نہ رکھنے کی وجہ کر جلدی کسی بڑی سے بڑی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے لیکن حق و صداقت اور تعمیری و اصلاحی تنقید پر سر تسلیم خم کر دینا بھی ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے ، مولانا ضیاءالھدی صاحب تعلیم کے بعد اگر چاہتے تو جاڑی بنا پیڑھی کے دوسرے علماء کرام کی طرح جھارکھنڈ سے باہر کسی مدرسہ کے مدرس یا ناظم اعلیٰ ہو کر ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گزار رہے ہوتے یا بیرون ملک جاکر دولت کمانے میں مصروف رہتے اور اھل و عیال کے ساتھ عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے لیکن انھوں نے اپنے علاقے میں رہ کر اپنے علاقے کے لوگوں کی دینی و اصلاحی خدمات کو دوسری ترجیحات پر ترجیح دینا بہتر سمجھا ، جس کا عملی ثبوت بند پڑے مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر کو دوبارہ شروع کرنے اور اس کو ترقی دینے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کردینا ہے ، مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر بناپیڑھی کا ایک قدیم دینی ادارہ ہے ، علاقے میں بڑھتی ہوئی بے دینی اور جہالت کو دور کرنے کی خاطر اس ادارہ کو قائم کرنے اور آگے بڑھانے میں کئی لوگوں نے بے مثال جانی و مالی قربانیاں دی ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے اور جن کی خدمات سے پورا علاقہ متعارف ہے ، لیکن بعد میں چند لوگوں کے آپسی اختلاف و انتشار ، انانیت اور گروہ بندی کی بنیاد اس مدرسہ کو نشیب و فراز اور مشکل ترین آزمائش کے دور سے بھی گزرنا پڑا ہے ،

آپسی اختلاف و انتشار نے اتنی شدت اختیار کرلی تھی کہ مدرسہ چند سالوں کے لئے بند ہوگیا تھا ، پورا علاقہ دینی تعلیم و تربیت اور قرآنِ کی نورانی تعلیم اور اس کی نشر واشاعت سے محروم ہو گیا، اس محرومی پر ندامت اور شرمندگی کا احساس تو پورے علاقے کے لوگوں کو تھا لیکن سوال یہ تھا تخریب کے بعد تعمیر کی پہل کون کرے ؟ ذیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ دینی غیرت و حمیت اور دینی تعلیم و تربیت کا درد رکھنے والے علاقے کے چند مخلص حضرات ایک جگہ جمع ہوئے اور فیصلہ لیا کہ مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر بناپیڑھی کو ایک نئے جذبے اور حوصلے کے ساتھ دوبارہ شروع کیا جائے ، اس کے لئے تلاش تھی ایک ایسے باہمت ، باحوصلہ اور انقلابی و تحریکی نوجوان عالم دین کی جو اس مدرسہ کو دوبارہ شروع کرنے اور ترقی دینے میں اپنی پوری ذہنی و فکری صلاحیت صرف کردے اور مدرسہ کو بہتر طریقے سے چلانے اور آگے بڑھانے کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے ، لوگ حیران تھے کہ ایسا با صلاحیت ، باکمال اور متحرک عالم دین کس شہر سے لایا جائے؟ بہت غور و خوض کے بعد لوگوں کی نظر اپنے ہی علاقے میں چھپے ہوئے ایک گوہر نایاب شخصیت مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب پر گئی ، لوگوں نے مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب سے گزارش کی کہ مولانا آپ اس مدرسہ کو دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنے کی ذمے داری اگر قبول کرلیں تو یہ ہم سب پر ہی نہیں بلکہ پورے علاقے اور آنے والی نسلوں پر آپ کا احسان و کرم ہوگا ، مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب نے دینی غیرت و حمیت اور دینی تعلیم و تربیت کا درد رکھنے والے علاقے کے مخلص حضرات کے اصرار پر مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر کی ذمداری کو قبول کرلیا ، مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب نے اس مدرسہ کو دوبارہ شروع کرنے اور ترقی دینے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور لوگوں کے گمان کو قائم اور باقی رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،

قارئین کو اندازہ ہو یا نہ ہو لیکن ادارہ چلانے والوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ کسی نئے ادارہ کو قائم کرنے کے مقابلے میں کسی بند پڑے ادارہ کو دوبارہ شروع کرنا ، اس کو ترقی دینا اور اس ادارہ کے تئیں لوگوں کے ٹوٹے ہوئے اعتماد کو دوبارہ بحال کرنا کتنا مشکل ترین عمل ہے ، ان سب منفی پہلوؤں کے باوجود مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر کی ذمےداری کو ایک چیلنج کی صورت میں قبول کرتے ہوئے مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب نے اس مدرسہ کو دوبارہ شروع کرنے اور اس کو آگے بڑھانے اور لوگوں کا اعتماد و یقین حاصل کرنے میں اپنی پوری صلاحیت صرف کردی ، مدرسہ دوبارہ شروع ہوگیا ، دھیرے دھیرے بچے آنے لگے ، تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی جانے لگی ، بچوں کے رہنے اور کھانے کا بہتر سے بہتر انتظام کیا گیا ، ماہ اور سال گزرتے گئے ، اسی کے ساتھ مدرسہ تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے آگے بھی آگے بڑھتا گیا ، اسی مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر سے متصل پورے اسلامی ماحول میں لڑکیوں کے لئے بھی دینی و عصری تعلیم کا بہترین انتظام ہے ، مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب نے لڑکوں کے مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے مدرسہ کو بھی خوب خوب ترقی دی اور آج لڑکے اور لڑکیوں کا یہ دونوں مدرسہ پورے علاقے میں دینی و عصری معیاری تعلیم کا بہترین ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے ، مدرسہ کے احاطہ میں ہی مولانا نے کافی تگ ودو کے بعد ایک خوبصورت مسجد کی بھی تعمیر کرائی جو دیکھنے کے لائق ہے ، برسوں پہلے آپسی اختلاف و انتشار اور گروہ بندی و انانیت کی بنیاد پر ایک بند پڑے مدرسہ کو مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب نے صرف شروع نہیں کیا بلکہ اس ترقی دینے اور آگے بڑھانے میں دن رات ایک کردیا ، لڑکے اور لڑکیوں کے لئے جدید طرز پر ہاسٹل تعمیر کرایا ، تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ تعمیری ترقی بھی خوب ہوئی ہے ، جن لوگوں نے مدرسہ دارالعلوم اسلام نگر کے دونوں دور کو دیکھا ہے وہ اچھی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب اس مدرسہ کو دوبارہ شروع کرنے اور ترقی دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، مولانا نے مدرسہ کے سالانہ اور مختلف موقعوں پر ہونے والے اجلاس میں ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور سیاسی و سماجی اور مذھبی و تعلیمی خدمات انجام دینے والی مایہ ناز ہستیوں کو دعوت دے کر مدرسہ کو پورے ملک میں متعارف کروایا ، ان تمام مصروفیتوں کے باوجود وہ ایک اچھے کاروباری اور تاجر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے باپ بھی ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو اعلی اور معیاری تعلیم سے آراستہ کیا ہے ،

تقریبآ چالیس سالوں سے تا حال مدرسہ کا بااختیار ناظم و مہتمم رہنے کے باوجود انھوں نے کبھی بھی مدرسہ کے چندہ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اپنی ذاتی و گھریلو زندگی کے لئے عیش و عشرت کا ذریعہ نہیں بنایا جیسا کہ اکثر وبیشتر مدارس کے ناظم و مہتمم کو دیکھا جاتا ہے کہ مدرسہ کے اساتذہ بے کم تنخواہ کی وجہ کر پریشان حال رہتے ہیں اور مہتمم کی زندگی آمرانہ اور رئیسانہ ہوتی ہے ، مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب اخلاقی اعتبار سے بھی ملنسار انسان ہیں ، پہلی ہی ملاقات میں مسکرا کر سلام و کلام کرنا ان کی شخصیت کا تعارف کرا دیتی ہے ، بہت ساری صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود فخر و غرور ، حسد و جلن ، کینہ کپٹ اور انانیت کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا ہے ،
مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب دیہی علاقہ میں رہتے ہوئے رانچی شہر کی دینی و فلاحی کاموں میں بھی متحرک رہتے ہیں جن کی وجہ سے شہر رانچی میں بھی ان کی ایک خاص پہچان ہے ، مولانا آزاد کالج رانچی جو مدرسہ اسلامیہ کی عمارت میں ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت چلتا ہے اس کے لئے یو ، جی ، سی ، کے اصول و ضوابط کے مطابق کالج کے لئے پانچ ایکڑ زمین کی ضرورت تھی ، اس کے لئے مناسب قیمت پر بناپیڑھی میں پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے میں مولانا ضیاءالھدی اصلاحی صاحب کا کردار بہت اہم رہا ہے ، ایسے باکمال ، باصلاحیت اور ہمیشہ دینی و فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے عالم دین کو تو ان کی ہمہ جہت خدمات کی بنیاد پر ملک کی اہم دینی و فلاحی اداروں مثلاً امارت شرعیہ ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، مسلم مجلس مشاورت ، جمیعت علماء ہند ، آل انڈیا ملی کونسل کا رکن ہونا چاہئے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب ان بڑے بڑے ملکی و ریاستی تنظیموں اور اداروں میں خوشامد کرنے والوں ، حاشیہ برداروں اور چمچہ گیری کرنے والوں کو فوقیت دی جاتی ہے جس کی کئی مثالیں خود ہمارے رانچی شہر میں موجود ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ان قومی و ملی اداروں میں اب وہ بات اور وہ طاقت و قوت اور عوامی کشش نہیں رہی جو پہلے تھی ،

مضمون نگار حضرت مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی

Leave a Response