All India NewsBloghealthNewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

نئی نسل پڑھنے کی طرف آئے یہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے:مظہر سلیم

Share the post

’انشاء“ میں ملی اور ادبی مسائل بھی شامل ہوتے ہیں: ف۔س۔اعجاز
رسائل کسی بھی ادب کے لیے کسی بھی زبان میں تازہ ہوا کی مانند ہے:پروفیسر مشتاق احمد
شعبہئ اردو میں ”اردو میں ادبی صحافت“موضوع پر آن لائن پرو گرام کا انعقاد

میرٹھ17/جولائی2025ء
ادبی رسائل کے ساتھ بہت سے المیے ہیں۔ہندوستان میں جو ادبی رسائل منظر عام پر آرہے ہیں وہ واقعی ادب کی خد مت کررہے ہیں اور”انشاء“ کے نمبر واقعی اہمیت کے حامل ہیں۔ آزاد، کہکشاں، ہمایوں،نیرنگ خیال،نقاد، ادبی دنیا،کارواں، شاہ کار، ادب لطیف وغیرہ نے ادب کی بڑی خدمات انجام دی ہیں۔نئی نسل پڑھنے کی طرف آئے یہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔یہ الفاظ تھے معروف مدیر ’ادب لطیف‘ مظہر سلیم کے جو آیو سا اور شعبہئ اردو کے زیر اہتمام منعقد ”اردو میں ادبی صحافت“ موضوع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ’ادب لطیف‘ کا میں ایڈیٹر ہوں مگر مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے جب غیر ادبی مضامین آتے ہیں تو ہمیں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز سعید احمد سہارنپوری نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔پروگرام کی سرپرستی معروف ناقد و افسانہ نگار اور صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری اور صدارت کے فرائض معروف ادیب وناقدپروفیسر صغیر افراہیم نے انجام دیے۔ مہمانان خصوصی کے بطورمظہر سلیم]مدیر: ادب لطیف،مجوکہ،لاہور[اورف۔س۔اعجاز]مدیر:انشاء،کلکتہ[ نے آن لائن شر کت فرمائی۔مہمانان اعزازی کے بطورپروفیسر مشتاق احمد]مدیر جہان اردو[،ڈاکٹر اقبال حسین] مدیر:رنگ، دھنباد[ اور دانش ایاز]مدیر: ادبی دنیا، رانچی[ پروگرام میں موجود رہے۔خصوصی مقرر کے بطورایوساکی صدر پروفیسر ریشما پروین نے آن لائن شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر شاداب علیم اورنظامت کے فرائض شعبہئ اردو کے استاد ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیے جب کہ شکریے کی رسم ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے ادا کی۔
اس موقع پرپروگرام کا تعارف پیش کرتے ہوئے معروف ادیب و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ پرانے اور نئے رسائل نے ہمارے ادب کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے نئے موضو عات پر رسائل میں مضامین مل جاتے ہیں۔ اقلیتی ڈسکورس یا فلموں کے علاوہ رسائل کی کوئی نہ کوئی خوبی ہمیں مل جاتی ہے۔ تمام رسائل ادبی صحافت کے میدان کو وسیع کررہے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ آج بہت سے نئے اور پرانے رسائل کی اہمیت پر بات ہو گی اور ہمارے اس کالرز آج کے پروگرام سے مستفیض ہوں گے
رانچی سے دانش ایاز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادب اور ادیب اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر سامعین تک پہنچا تے ہیں اور ان مضامین سے اسکالرز کو کافی مدد فراہم ہوتی ہے مگر آج کے پیچیدہ ماحول میں رسائل کو نکالنا بڑا دشوار عمل ہو گیا ہے۔
پروفیسرمشتاق احمد نے کہا کہ رسائل میں شامل ہونے والے مضامین میں تازگی کا احساس ہونا چاہئے۔میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ہم جو ادبی رسائل قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ تجارتی ہوتے جارہے ہیں اور تجارتی رسائل کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ رسائل کسی بھی ادب کے لیے کسی بھی زبان میں تازہ ہوا کی مانند ہے۔ رسائل میں شامل ہو نے والے ادبی مضا مین میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ معیاری ہوں۔ان میں تازگی اور نیا پن ہو۔ ہندوستان میں جتنی جامعات ہیں اگر ان کے صدر شعبہئ اردو رسائل کی خرید شروع کردیں تو یہ قدم رسائل کے حق میں سود مند ہو گا۔
دھنباد سے اقبال حسن نے کہا کہ ادبی رسائل کے ذریعے اسکالرز بڑے پیمانے پر مستفیض ہوتے ہیں۔ آج دیکھنے میں آرہا ہے کہ رسائل میں شامل مضامین کا ادبی معیار گر رہا ہے مگر رسائل میں بہت سے مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جو ادبی اور صحافتی اعتبار سے بڑے اہم ہوتے ہیں اور معلومات میں گراں قدر اضا فہ بھی کرتے ہیں۔
ف۔س۔ اعجاز نے کہا کہ ادبی صحافت کے ساتھ ہمارے بہت سے صحافی تعاون نہیں کرتے۔ ادبی رسالہ کا مدیر ہوتے ہوئے میں نے ادبی صحافت کی خدمت کی ہے۔ ”انشاء“ میں ملی اور ادبی مسائل بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے تنگ نظر صحافی بھی ہیں جو صرف اپنے آپ کو ادبی ہی رکھتے ہیں صحافتی نہیں رکھتے، اس سے صحافت کو نقصان ہوتا ہے۔ پرنٹڈ ورڈ کو ہم آ گے بڑھاتے ہیں۔ میگزین کو فیس بک یا وہاٹس ایپ پر بھیجنا اچھا نہیں لگتا۔
پرو فیسر ریشماپروین نے کہا کہ آج ان تمام مدیران کو سن کر بہت اچھا لگا جن رسائل کو ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں۔ اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں کہ ہماری شخصیت کی تعمیر میں انہی رسائل کی ادبی صحافت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ زبان دا نی کا علم بھی ان رسائل کے ذریعے خوب ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی رسالہ معیاری ہے تو وہ یقینی طور پر ہماری معلومات میں بے پناہ اضا فہ کرتا ہے۔ بہر حال مسائل تو ہمارے سامنے ہیں ہی لیکن ان سے کیسے نپٹا جائے اس بات پر ضرور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ نئی نسل میں بھی یہ روایت بر قرار رہے اور ادبی رسائل زبان اور اس کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
آخر میں اپنی صدارتی تقریر میں پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ہندوستان میں پروفیسر، صدر شعبہئ اردو اور اردو کے ادیب و ٹیچرس رسائل خریدتے نہیں ہیں یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ہمارے مدیران جس طرح معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں یہ بڑی بات ہے۔ صحافت اور ادبی صحافت میں اب فرق ہو گیا ہے۔ ہمیں رسائل کے مدیران کو اس طرح عزت دینا چاہئے کہ ان کے رسائل کو خریدیں اور اپنے اندر قوت خرید پیدا کریں۔
پروگرام سے فرحت اختر، نزہت اختر،محمد شمشاد اور دیگر طلبہ و طالبات جڑے رہے۔

Leave a Response