ھند پیڑھی رانچی کے صغیر احمد صاحب ( ٹائر والے) کی مثالی شخصیت ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی 7004951343 )


دنیا میں ہمیشہ دو قسم کے انسان ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے عوام اور خواص ، معاشرے میں خواص کی شناخت اور پہچان کسی نہ کسی صورت میں ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن عوامی طبقہ سے تعلق رکھنے والے فرد کو اپنے کردار و عمل سے اپنی شخصیت کی تعمیر خود کرنی پڑتی ہے ، وہ اپنی جہدوجہد اور مسلسل محنت و کوشش سے دینی اور دنیاوی زندگی کے تقاضے کو صحیح ڈھنگ سے اختیار کر کے خصوصیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ، ایسی ہی ایک مٹالی شخصیت کا نام ہے جناب صغیر احمد صاحب مرحوم( ٹائر والے ) ،
صغیر احمد صاحب مرحوم ( ٹائر والے) بنیادی طور پر بہار کے چھپرہ ضلع کے رہنے والے تھے جن کی پیدائش غالباً 1932ء میں چھپرہ ضلع کے ایک غیر معروف گاؤں میں ہوئی تھی ، روزگار کی تلاش میں سب سے پہلے صغیر احمد صاحب مرحوم کے بڑے بھائی جناب عبد الشکور صاحب مرحوم رانچی آئے جن کی نوکری کانکے کے پاگل خانے میں ہوگئی تو عبد الشکور صاحب مرحوم اپنی والدہ اور اپنے چھوٹے بھائی صغیر احمد صاحب مرحوم کو بھی رانچی لے آئے اور چوڑی ٹولہ کانکے میں رہنے لگے ، چوڑی ٹولہ کانکے رانچی میں بڑے بھائی کے ساتھ رہتے ہوئے ہی صغیر احمد صاحب روزانہ اپر بازار کی مشہور و معروف ” جیون ٹائر دوکان ” میں کام سیکھنے آیا کرتے تھے ، ٹائر کا کام سیکھنے کے بعد صغیر احمد صاحب مرحوم نے کونکا روڈ رانچی میں جہاں آج شریف ہوٹل ہے ٹائر کی دوکان کرلی ، اس پورے علاقے میں ٹائر کی کوئی دوکان نہیں تھی اس لئے بھی دوکان خوب چلنے لگی ، بعد میں دوکان خالی کرانے کے لئے دوکان کے مالک نے مقدمہ کردیا جو کافی سالوں تک چلتا رہا ، آخر میں فیصلہ صغیر احمد صاحب کے ہی حق میں ہوا لیکن صغیر احمد صاحب نے اپنی دینی و دعوتی غیرت و حمیت اور فطری شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے دوکان خالی کردیا اور 1960ء میں ایک دوکان بہو بازار رانچی میں لے لیا وہاں بھی ان کی ٹائر کی دوکان خوب چلی ، رانچی میں دوکان ہونے کی وجہ سے روزانہ کانکے سے رانچی آنے جانے میں دشواری کے پیش نظر چوڑی ٹولہ کانکے رانچی میں اپنا ذاتی مکان ہونے کے باوجود صغیر احمد صاحب سنٹرل اسٹریٹ ھند پیڑھی رانچی میں کرایہ کے مکان میں رہنے لگے ، کافی عرصہ کرایہ کے مکان میں رہنے کے بعد انھوں نے ہند پیڑھی مدینہ مسجد کے مغرب کی جانب تعمیر شدہ ایک بنگالی کا مکان خرید لیا ، ہوا یوں کہ جب صغیر احمد صاحب مرحوم نے اپنے مکان کے لئے زمین تلاش کرنا شروع کیا تو لاہ فیکٹری روڈ ہند پیڑھی میں ایک بنگالی کا مکان اور اس کے پیچھے پڑتی زمیں جو اکتیس کٹھہ پر مشتمل تھی 70000 ہزار روپئے میں صغیر احمد صاحب نے طئے کر لیا تھا ، جب اس بات کا علم میرے نانا حافظ جمال الدین صاحب مرحوم ،
حاجی عبد السبحان صاحب مرحوم ، منصوری صاحب مرحوم جو بعد میں پاکستان چلے گئے اور حاجی منصور صاحب جیسے پرانے لوگوں کو ہوا تو ان لوگوں نے صغیر احمد صاحب سے گزارش کی کہ صغیر صاحب اس علاقے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ایک مسجد کا ہونا بہت ضروری ہے ، کافی صلاح و مشورہ کے بعد بات یہ بات طئے ہوئی تھی کہ لاہ فیکٹری روڈ کی جانب تعمیر شدہ مکان کے ساتھ چودہ کٹھہ زمین صغیر احمد صاحب رکھیں جس کی قیمت چالیس ہزار روپئے صغیر احمد صاحب ادا کریں گے اور ان کے مکان کے پیچھے سے لے کر جی ، ٹی روڈ تک کی سترہ کٹھہ پڑتی زمین جس میں باغ باغیچہ لگا ہوا تھا مسجد کے لئے ہوگی جس کی قیمت تیس ہزار روپئے مسجد کمیٹی ادا کرے گی ، حالانکہ ابتدائی معاہدے کے مطابق چودہ کٹھہ زمین بشمول تعمیر شدہ مکان کے لئے صغیر صاحب کو تیس ہزار روپئے دینے تھے اور سترہ کٹھہ مسجد کی زمین کے لئے مسجد کمیٹی کو چالیس ہزار روپئے دینے تھے لیکن بعد میں معاملہ اس کے بالکل برعکس طئے ہوا ، صغیر احمد صاحب چونکہ شروع سے ہی دعوت و تبلیغ کے کام سے لگے ہوئے تھے اور دینی مزاج رکھتے تھے لوگوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے مغرب کی جانب چودہ کٹھہ زمین بشمول تعمیر شدہ مکان خود رکھا اور سترہ کٹھہ زمین ” مدینہ مسجد” کے لئے مختص کردی گئی ، زمین کی خریداری کا یہ معاملہ 1970ء میں ہوا ، 1970ء میں ہی سب سے پہلے صغیر احمد صاحب مرحوم کی والدہ محترمہ نے اپنے خرج سے مدینہ مسجد کی بنیاد رکھی اور عاضی دیواروں پر البیسٹر لگا کر نماز شروع کردی گئی ، جس کے بنیادی امام و خطیب مایہ ناز عالم دین حضرت مولانا قاری محمد علیم الدین قاسمی صاحب مقرر کئے گئے جو تاحیات اس عہدے پر فائز رہے ، صغیر احمد صاحب مرحوم دعوت و تبلیغ میں اس وقت سے جڑے ہوئے تھے جب رانچی میں دعوت و تبلیغ کا شروع ہوا تھا اور ابتدائی مرحلے سے گزر رہا تھا ، صغیر احمد صاحب کا ایک گروپ تھا جس میں منصوری صاحب مرحوم جو بعد پاکستان چلے گئے ، حاجی عبد السبحان صاحب مرحوم، آئیڈیل ٹیلر کے مالک اور رضوان ادریسی صاحب کے والد محترم حاجی عثمان غنی صاحب مرحوم ، طیب صاحب مرحوم ، منور صاحب مرحوم وغیرہ شامل تھے ، انھیں لوگوں کی مسلسل جدو جہد اور محنت و کوشش سے رانچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں دعوت و تبلیغ کا کام آگے بڑھا اور بہت سارے لوگوں کو اللہ نے انہیں لوگوں کے ذریعے ہدایت عطاء فرمایا ، خصوصاً رانچی ضلع کے امیر جماعت الحاج غلام سرور صاحب مرحوم صغیر احمد صاحب مرحوم کی محنت و کوشش سے ہی دعوت و تبلیغ کے کام سے وابستہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی ہدایت عطاء فرمائی کہ وہ ہزاروں گمراہ اور دین سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے ،
رانچی میں جب دعوت و تبلیغ کا کام شروع ہوا تو مرکز نظام سے ایک جماعت جمشیدپور روانہ کی گئی جنھیں کچھ دنوں کے لئے رانچی میں بھی وقت لگانا تھا ، جمشیدپور سے اس جماعت کو رانچی لانے کے لئے صغیر احمد صاحب ، منصوری صاحب ، حاجی عبد السبحان صاحب ، حاجی عثمان غنی صاحب اور طیب صاحب وغیرہ جمشیدپور گئے اور جماعت کو اپنے ساتھ رانچی لائے ، مرکز نظام الدین دہلی کی یہ پہلی جماعت تھی جسے صغیر احمد صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جمشیدپور سے رانچی لائے اور رانچی میں اس جماعت کے ذریعے دعوت و تبلیغ کے کام کو متعارف کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا ، جس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے کچھ عرصہ بعد رانچی کے ڈورنڈہ عیدگاہ میں رانچی ضلع کا ایک تبلیغی اجتماع ہوا جو بہت کامیاب رہا ، جس میں مرکز نظام الدین دہلی سے بزرگ اکابر اور حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ کے خاص ساتھی میاں جی عبد الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ رانچی پہلی مرتبہ تشریف لائے تھے جنہیں دہلی سے رانچی لانے میں صغیر احمد صاحب مرحوم اور ان کے ساتھیوں کا بہت اہم کردار تھا ، رانچی کے ڈورنڈہ عیدگاہ میں منعقد ہونے والا یہ پہلا تبلیغی اجتماع تھا
جس میں صغیر احمد صاحب اور ان کے ساتھی پیش پیش تھے ، صغیر احمد صاحب مرحوم کو دعوت و تبلیغ کے کام اور مرکز نظام الدین دہلی اور اس کے اکابرین سے بڑا گہرا رشتہ اور بے انتہا تعلق اور لگاؤ تھا ، دعوت و تبلیغ کے دوسرے امیر اور حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لڑکے حضرت مولانا یوسف صاحب صاحب رحمۃ اللہ کو رانچی کا پپیتا پہت پسند تھا ،
صغیر احمد صاحب کو اپنے شیخ حضرت مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ کی پسند کا اتنا خیال تھا کہ وہ اپنے شیخ کے لئے منصوری صاحب ، حاجی عبد السبحان صاحب ، حاجی منصور صاحب اور منور صاحب حسین صاحب کے ساتھ دہلی پپیتا لے کر جاتے اور مولاںا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کرتے جسے حضرت مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ بڑے ذوق و شوق سے کھاتے تھے ، یہ سلسلہ مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ کی حیات تک جاری رہا ، مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ سے صغیر احمد صاحب مرحوم بیعت بھی تھے ، اپنے شیخ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تو صغیر احمد صاحب اتنے روئے اور اتنے غمزدہ ہوئے کہ ان کی والدہ کہتی تھیں کہ صغیر تو اتنا اپنے بھائیوں اور بہنوں کے انتقال پر نہیں رویا اور نہ اتنا غمگین ہوا جتنا مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ کے انتقال پر رویا اور غمگین ہوا ، شروع جوانی سے لے کر زندگی کے آخری دن تک صغیر احمد صاحب مرحوم کا رشتہ اور تعلق مرکز نظام الدین دہلی سے برابر قائم رہا ، جب صغیر احمد صاحب مرحوم بہت بیمار ہوگئے تو ان کو علاج کے لئے دہلی لے جایا گیا ، دہلی اسٹیشن سے اُترتے ہی انھوں نے سب سے پہلے مرکز نظام الدین دہلی جانے کی خواہش ظاہر کی ، ان کی خواہش پر بیماری کی حالت میں ہی جبکہ ان کی دونوں کڈنی خراب ہو چکی تھی مرکز نظام الدین دہلی پہچایا گیا ، مرکز نظام الدین دہلی پہنچ کر اکابرین سے ملاقات کیا
اور دعاء کی درخواست کی ، اس وقت کے امیر جماعت حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ کی رائے کے مطابق دہلی کے مشہور و معروف ہاسپیٹل ” بترا نرسنگ ہوم” میں علاج کے لئے داخل کرایا گیا ، بیماری کچھ افاقہ ہوا تو ہاسپیٹل سے چھٹی دے دی گئی ، اس وقت بھی گھر واپسی سے پہلے مرکز نظام الدین دہلی جانے کی خواہش ظاہر کی ، ان کی خواہش کے مطابق ان کے لڑکے مرکز نظام الدین دہلی لے گئے ، مرکز نظام الدین دہلی میں اکابرین سے ملاقات کرکے ان سے اپنے لئے دعاء کرنے کی گزارش کے بعد رانچی تشریف لائے ، دہلی سے آنے کے چند ہفتوں کے بعد 17/ جنوری 1992ء کو صغیر احمد صاحب مرحوم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، ان للہ و انا الیہ راجعون ، جنازے کی نماز مدرسہ حسینیہ کے بانی و مہتمم حضرت مولانا ازھر صاحب نے پڑھائی اور راتو روڈ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ، جنازے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ،
صغیر احمد صاحب مرحوم کے سات لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں ، جن میں دو لڑکے اور پانچ لڑکیوں کا انتقال صغیر احمد صاحب مرحوم کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا ، ان کی وفات کے بعد ان کے ایک لڑکے اختر حسین صاحب کا انتقال بھی ہوچکا ہے ،
فی الحال ان کے لڑکوں میں انور حسین صاحب ، خورشید عالم صاحب ، فاروق خان صاحب اور حافظ محمد زبیر صاحب اور ایک لڑکی الحمدللہ حیات سے ہیں ، صغیر احمد صاحب مرحوم کے لڑکوں میں انور حسین صاحب اور حافظ زبیر صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، جناب انور حسین صاحب ادبی اور مشاعرے کی دنیا میں انور ایرج کے نام سے مشہور و معروف شاعر ہیں اور بہار کے کٹیہار ضلع میں گورنمنٹ کالج میں اردو کے پروفیسر نیز شعبہ اردو کے صدر بھی ہیں ، ان کے ادبی مضامین اور ان کا کلام ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہتا ہے ، مشاعرے کی دنیا میں بھی انور ایرج صاحب تہلکہ مچاتے رہتے ہیں ، مشاعرے کی نظامت کرنے میں بھی ان کو ایک خاص ملکہ حاصل ہے ، صغیر احمد صاحب مرحوم کے چھوٹے لڑکے ماشاءاللہ حافظ قرآن ہیں اور حفظ مکمل کرنے کے بعد سے ہی دعوت و تبلیغ کے کام سے رہتے ہیں ، شکل و صورت سے ہی تقوی اور پرہیز گاری جھلکتی ہے ، اپنے والد محترم کی جماعتی وابستگی کی وراثت کو عملی طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے والد محترم کی طرح مرکز نظام الدین دہلی اور ان کے اکابرین سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں ، مشہور و معروف حدیث کے مطابق حافظ زبیر صاحب عملی طور پر اپنے والد محترم کے لئے ثواب جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ صغیر احمد صاحب مرحوم ( ٹائر والے) کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین
