All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

رانچی کی ادبی و سماجی شخصیت ثمر الحق صاحب کی ہمہ جہت خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی صاحب)

Share the post

” زبان اور قلم ” کی طاقت و قوت کا اعتراف ہر دور کے انسانوں اور خاص طور پر حکمرانوں نے کیا ہے ، زبان کی قوت گویائی اور قلم کی سیاہی نے جب کبھی اپنا جلوہ دکھایا ہے تو بڑے بڑے ظالم حکمرانوں کے تخت و تاج ڈگمگا گئے ہیں ، آزادی سے پہلے” انگریزوں بھارت چھوڑو” کے زبانی نعروں سے اگر فضائیں گونج اٹھی تھیں تو اس سے ذیادہ طاقت و قوت کے ساتھ ان نعروں سے اخبار و رسائل کے صفحات سیاہ ہوگئے تھے ، زبان و قلم کی یہ طاقت و اہمیت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور آج بھی اس کی طاقت و قوت دکھائی جا سکتی ہے بشرطیکہ کہ زبان و قلم نے کبھی اپنی قیمت نہ لگائی ہو ، حکمرانوں ، سیاسی لیڈروں اور مال و دولت کے غرور میں ہر ایک کو ڈرانے ، دھمکانے اور خریدنے والوں کے در کا سجدہ نہ کیا ہو ، زبان و قلم کی طاقت و قوت رکھنے والے اور اپنی اہمیت کا احساس دلانے والے ملک کے مختلف علاقوں میں ہوتے رہے ہیں جس سے ہمارا جھارکھنڈ بھی اچھوتا نہیں رہا ہے ، جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں بھی زبان و قلم کی طاقت و قوت رکھنے والے اور اس کا احساس دلانے والے کئی ایسے گوھر نایاب پیدا ہوئے ہیں کہ اگر وہ اعلیٰ حسب و نسب سے ہوتے تو آج ان کے قصیدے پڑھے جاتے اور انھیں شہرت و مقبولیت کی فرضی اونچائیوں تک پہنچا دیا گیا ہوتا اور ان کے نام کے کتبے نصب ہوگئے ہوتے ، ان کے نام سے ادارے اور سڑکیں تعمیر ہوگئی ہوتیں مگر

جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کی سرزمین میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے لعل و گہر پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں اور کارناموں سے ٹابت کردیا کہ صلاحیتیں اعلیٰ حسب و نسب کی جاگیر نہیں ہوتیں بلکہ اپنی ذاتی محنت و کوشش ، ایثار و قربانی اور مسلسل جدو جہد سے حاصل کی جا سکتی ہیں ، صلاحیتوں اور مقابلے کی دوڈ میں دوسروں کو پچھاڑ کر آگے بڑھا جا سکتا ہے ، رانچی شہر کی ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ” ثمر الحق” ہے جنھوں نے اپنی صحافت اور علمی صلاحیت و استعداد کی بنیاد پر بہتوں کو پہچے چھوڑ دیا ، اپنی بے مثال صحافت اور قلم کی طاقت و قوت کی بناء پر رانچی سے دہلی تک کا صحافتی سفر کو اس مضمون میں محدود کرنا جناب ثمر الحق صاحب کی شخصیت کو تنگ اور چھوٹا کرنا ہے ، اس کے لئے تو مستقبل ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جس میں ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو سمیٹا اور جمع کیا جا سکے ، میرا یہ مضمون تو اس کی ایک جھلک ہے ، جناب ثمر الحق صاحب کی پیدائش 3 / فروری 1929 کو چرچ روڈ رانچی میں ہوئی تھی ،جناب ثمر الحق صاحب بچپن سے بڑے ذہین تھے ، انھوں نے پرائمری اسکول سے لے کر کالج تک کے تمام امتحانات میں دوسروں کو پچھاڑ کر اعلیٰ درجہ سے کامیابی حاصل کیا تھا اور ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں انھیں مسلسل تعلیمی وظیفہ یعنی اسکالرشپ پرائمری اسکول سے ہائی اسکول تک ملتا رہا ، پرائمری امتحان میں پورے چھوٹا ناگپور میں فرسٹ آنے پر ماہانہ 3/ روپئے ، مڈل کے امتحان میں پورے بہار میں فرسٹ کلاس فرست آنے پر میٹرک تک ماہانہ ۲۵ روپئے اسکالرشپ ملتا رہا ، ۱۹۴۴ میں میٹرک کے امتحان میں بھی رانچی ضلع اسکول سے اول پوزیشن سے کامیابی حاصک کی ، ہندوستان کی آزادی سے ایک سال قبل ۱۹۴۶ میں آپ نے سنت زیویرس کالج رانچی سے انٹر اور بی ، اے کے امتحان میں بھی حسب سابق امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ، چونکہ اس زمانے میں رانچی یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی تھی اس لئے ایم ، اے ، کی تعلیم رانچی میں رہ کر حاصل نہیں کی جا سکتی تھی ، اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ کو مختلف عنوانات پر مضامین لکھنے کا ذوق و شوق تھا ،

سنت زیویرس کالج میں پڑھتے کے دوران ہی آپ کے مضامین اور سیاسی و سماجی تبصرے ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگے تھے اور کافی پسند کئے جانے لگے تھے ، آپ کے مضامین اور سیاسی و سماجی تبصرے بڑے معلوماتی اور ادبی چاشنی سے لبریز ہوا کرتے تھے ، آپ کے قلم اور تحریر کا جلوہ ۱۹۷۶ میں ملک کی سب سے بڑی تنظیم جمیعۃ العلماء ہند کے اخبار ” الجمیعۃ ” میں سیاسی و سماجی تبصروں اور تجزیوں کی شکل میں نظر آنے لگا ، جس پر پورے ملک سے داد و تحسین ملنے لگے ، آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے قریب ہوتے تو مولانا آزاد آپ سے اپنے اخبار ” الہلال اور البلاغ ” کے لئے لکھنے مضامین لکھنے کے لئے فرمائش ضرور کرتے ، آپ نے خود مجھ سے کہا تھا کہ دہلی میں ایک مرتبہ میں نے مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کیا تھا اور رانچی کے حوالے سے ملاقات کیا تھا ، اپنے علاقے کی مٹی کی محبت سے سرشار جناب ٹمر الحق صاحب اپنے قلم اور اپنی تحریروں سے چھوٹا ناگپور کی سرزمین میں اردو زبان وادب کو سرسبز و شاداب دیکھنا چاہتے تھے ،

اپنے اسی مقصد کے تحت انھوں نے ۱۵ آگست ۱۹۶۷ میں رانچی سے اپنی ادارت میں اردو ہفتہ وار اخبار ” چھوٹا ناگپور میل” نکالا تھا جو ۱۹۶۷ سے ۱۹۸۸ تک نکلتا رہا ، جسے بلا شبہ اردو کا پہلا ہفتہ وار اخبار کہا جا سکتا ہے ، کسی بھی اخبار یا رسالہ کی روح اس کے خریدار اور اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی ہوتی ہے ، اردو زبان کے ساتھ بے انتہا محبت ، بے لوث تعلق اور لگاؤ کی بنیاد پر کر جناب ثمر الحق صاحب لوگوں کی عدم بے توجہی کے باوجود ذاتی مفاد اور خود غرضی سے اوپر اٹھ کر اخبار ” چھوٹا ناگپور میل” نکالتے رہے اور اس کے اخراجات اپنے کاندھوں پر اٹھاتے رہے لیکں جب مالی اخراجات کا بوجھ بہت بڑھ گیا اور آپ اپنی خودداری کی وجہ کر کسی سے مالی تعاون کا سوال کرنا بھی اپنی غیرت و حمیت کے خلاف سمجھتے تھے ، اس لئے مجبوراً ۱۹۸۸ میں ہفتہ وار اخبار “چھوٹا ناگپور میل” کو بند کردینا پڑا ، جس کا آپ کو بہت دکھ اور افسوس تھا کیوں کہ آپ اردو زبان و ادب کے سچے پاسباں تھے ،اپ نے اپنی پوری زندگی اردو کی خدمت میں گراز دی ، اردو کی بقاء اور اس کے تحفظ کی خاطر آپ کو جیل بھی جانا پڑا ، آپ نے آج کے بعض اردو داں اور خود ساختہ دانشوروں کی طرح صرف سیمینار ، سمپوزیم ، مشاعرہ اور سیاست دانوں کو میمورنڈم دینے پر محدود نہیں رکھا بلکہ اردو کی خاطر ہمیشہ عملی میدان میں پیش پیش رہے ،

جناب ثمر الحق صاحب انجمن اسلامیہ رانچی کے صدر جناب صغیر احمد اور جنرل سکریٹری جناب محمد حبیب صاحب کو مشورہ دیا کہ انجمن اسلامیہ رانچی کی جانب سے مولانا آزاد کے رانچی میں چار سالہ قیام پر اردو ، ہندی اور انگریزی میں مولانا آزاد کی ۸۵ ویں سالگرہ کے موقع پر ایک معیاری اور دستاویزی رسالہ نکالا جائے ، انجمن اسلامیہ رانچی نے جناب ثمر الحق صاحب کی اس رائے اور تجویز کو منظور کرتے ہوئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی جس کا جنرل سکریٹری جناب ثمر الحق صاحب کو بنایا گیا اور فیصلہ لیا گیا ہے اس مجوزہ رسالہ کے ایڈیٹر جناب ثمر الحق صاحب ہوں گے ، چنانچہ جناب ثمر الحق صاحب نے دن رات کی محنت و مشقت سے رانچی اور دوسرے اضلاع کے بڑے بڑے اہل قلم حضرات سے مولانا آزاد کی زندگی اور رانچی میں ان کے چار سالہ قیام پر مضامین جمع کیا اور اس کو ترتیب دینے کے بعد ۱۷ ستمبر ۱۹۷۲ کو رسالہ شائع ہوا جو بہت پسند کیا گیا اور ثمر الحق صاحب کی اس خدمت کو انجمن اسلامیہ رانچی اور رانچی کی عوام نے بہت سراہا کیوں کہ یہ رسالہ بہت ہی معلوماتی اور معیاری تھا ، بڑے بڑے اہل قلم حضرات کے مضامین اس رسالہ میں شائع ہوئے تھے ، اس رسالہ کے صفحہ ۳ پر جناب ثمر الحق صاحب خود لکھتے ہیں کہ ” سووینر آپ کے سامنے ہے ، اس کی ترتیب و تدوین میں بڑی محنت کی گئی ہے ، ہماری کوشش یہ رہی ہے کہ سووینر اس عظیم شخصیت کے شایان شان ہو ، ہمیں خوشی ہے کہ نامور انشا پردازوں اور مولانا آزاد کے عقیدے مندوں نے ہماری بڑی ہمت افزائی کی اور مولانا کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں قابل قدر مضامین عنایت فرمائے ، ناسپاس گزاری ہوگی اگر ہم ان کرم فرماؤں کا شکریہ ادا نہ کریں ، ثمر الحق ، ایڈیٹر “
جناب ٹمر الحق صاحب کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا آزاد کی ۸۵ ویں سالگرہ کے موقع پر ۱۷ ستمبر ۱۹۷۲ میں شائع ہونے والا رسالہ جناب ٹمر الحق صاحب کی جدو جہد اور قلمی جانفشانی کا نتیجہ اور ثمرہ تھا ، جناب ثمر الحق صاحب کی اس خدمت کو سراہتے ہوئے اس وقت کے بہار کے گورنر عزت مآب جناب یونس سلیم صاحب نے جناب ثمر الحق صاحب کو توصیفی سند سے نوازا تھا ، اتنا بڑا اعجاز ملنے کے باوجود انھوں نے آج کے لوگوں کی طرح اخبار میں اپنی تصویر اور اپنا بیان تک شائع نہیں کروایا ، یہ تھا ان کی سادگی اور ان کی سادہ مزاجی کا حال ، جناب ثمر الحق صاحب ڈرائنگ روم اور بند کمرے کے دانشور نہیں تھے بلکہ وہ لوگوں کے درمیاں گھومنے پھرنے اور ان کی پریشانیوں میں کام آنے والے انسان تھے ، ایک عرصے تک انجمن اسلامیہ رانچی کے سکریٹری رہے ، انجمن اسلامیہ اسپتال اور ھائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی کے تحت چلنے والا مولانا آزاد کالج کے قیام میں اور سوسائٹی کی فکری رہنمائی میں ثمر الحق صاحب کی کوششوں سے انکار کرنا جہالت اور نادانی ہوگی ، جناب ثمر الحق صاحب مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں اور خاص کر پڑھے لکھے لوگوں میں بہت مقبول اور مشہور تھے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ جناب ثمر الحق صاحب کے مضامین اس وقت کے مشہور و مقبول ہندی اخبار ” رانچی ایکسپریس ، اور “رانچی ٹائمز” میں” پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ھیرے کا جگر ، اور” اگر برا نہ مانیں ” کے عنواں سے شائع ہوتے تھے جو بہت پسند کئے جاتے تھے ، ۱۹۶۷ کے رانچی فساد میں انھوں نے امن و امان بحال کرنے اور ہندو مسلم اتحاد قائم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا جس سے ضلع انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو بڑی راحت اور خوشی ہوئی تھی ، ۱۹۹۰ میں جناب ٹمر الحق صاحب مولانا احمد علی قاسمی کی دعوت پر دہلی چلے گئے اور مشہور و معروف مسلم سیاستدان اور قومی و ملی رہنما سید شہاب الدین کے انگریزی میں نکلنے والے رسالہ ” مسلم انڈیا” سے منسلک ہوگئے ، جناب ٹمر الحق صاحب کے تعلقات اور مراسم مولانا آحمد علی قاسمی رانچی سے بہت گہرے تھے ، مولاںا احمد علی قاسمی صاحب جناب ثمر الحق صاحب کی تحریر اور ان کی قلم کی طاقت سے بخوبی واقف تھے ،اس لئے مولانا احمد علی قاسمی صاحب نے جب انگریزی رسالہ ” مسلم انڈیا” کا اردو ترجمہ شائع کرنا چاہا تو اس مشکل ترین کام کے لئے جناب ثمر الحق صاحب سے کہا کہ وہ اس کی نگرانی و نگہبان فرمائیں ، اس طرح جناب ٹمر الحق صاحب اپنے دہلی قیام کے دوران ” مسلم انڈیا ” انگریزی اور اردو دونوں رسالے کی نگرانی و نگہبان فرماتے رہے ،اس سے آپ کی علمی قابلیت و صلاحیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، جناب ٹمر الحق صاحب شروع صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے ، آپ اکثر و بیشتر حواری مسجد میں نماز پڑھتے تھے ، مولانا جمیل اختر صاحب ، قاری علیم الدین قاسمی صاحب ، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب ،مولانا غلام مصطفی صاحب اور مولانا عبد الغنی صاحب سے جناب ثمر الحق صاحب کے بہت اچھے اور گہرے تعلقات تھے ، جناب ثمر الحق صاحب کے بھائی جناب قمر الحق صاحب بھی اردو کے دلدادہ تھے اور اچھی شاعری کرتے تھے ، کبھی موقع ملا تو ان شاءاللہ ان کی زندگی اور ان کی ادبی خدمات پر بھی لکھوں گا ، زندگی کے آخری منزل تک پہنچتے پہنچتے انسان تھک جاتا ہے اور آخر کار تھکن کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے اپنی آرام گاہ میں سو جاتا ہے ، جناب ثمر الحق صاحب بھی ۱۶ ستمبر ۲۰۱۲ کو اپنی اصل آرام کی طرف کوچ کرگئے ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے فرمائے آمین ثم آمین ،
جناب ثمر الحق صاحب کی سماجی خدمات کی جھلک ان کے لڑکے جناب سیف الحق جنرل سکریٹری عراقیہ پنچایت میں نظر آنے لگی ہے ، جناب سیف الحق اکثر و بیشتر نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس اندازہ ہوتا ہے والد کی سماجی خدمات کا اثر بیٹے کے اندر پہلے سے موجود تھا جو اب باہر آنے لگا ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے والد جناب ثمر الحق صاحب کی سماجی خدمات کی روایت اور ان کی وراثت کو باقی رکھیں گے ، ان شاءاللہ تعالٰی

Leave a Response