All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi Newstechnology

رانچی کے قادر الکلام شاعر صدیق مجیبی صاحب کی شخصیت اور ان کی ادبی خدمات(ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی جھارکھنڈ الگ ریاست کی تشکیل سے پہلے اور بعد میں بھی ایک ایسا شہر رہا ہے جہاں مختلف علوم و فنون کے ایک سے ایک گوہر نایاب پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنی سیاسی ، سماجی ، فلاحی ، علمی ، اور اپنی شاعرانہ و ادیبانہ صلاحیتوں سے پورے علمی و ادبی حلقوں میں انقلاب برپا کردیا ، اگر ان کا تعلق پچھڑے طبقے سے نہ ہو کر اعلیٰ حسب و نسب سے ہوتا ہوتا تو نہ جانے ان کو کیسے کیسے آداب و القاب سے یاد کیا جاتا اور کیسے کیسے ایوارڈ سے نواز کر ان کی شخصیت کو فرضی ادبی بلندیوں اور اونچائیوں تک پہنچا دیا گیا ہوتا لیکن چونکہ ان کا تعلق مسلمانوں کے پچھڑے طبقے سے تھا جہاں سے اوپر اٹھ کر اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر شاعرانہ عظمت و بلندی تک پہنچ جانا کسی ادبی و تخلیقی کرامت سے کم نہیں ہے ، میری مراد رانچی کے کہنہ مشق ، قادر الکلام اور لاجواب شاعر جناب صدیق مجیبی صاحب سے ہے ، جن کی پیدائش گوالہ ٹولی ڈورنڈہ رانچی میں سن 1931 عیسوی میں ہوئی ، اپ کا تعلق گدی برادری سے تھا ، آپ کے والد جناب مجیب گدی صاحب چونکہ ایک پڑھے لکھے انسان تھے اور ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی آف انجمن اسلامیہ رانچی جس کے تحت مولانا آزاد کالج چلتا ہے اس کے فاؤنڈر ممبر رہے تھے اس لئے مجیب گدی صاحب نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جس کا نتیجہ ہے کہ گدی برادری میں جناب صدیق مجیبی صاحب جیسا قادر الکلام شاعر پیدا ہوا ، کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر اور جھارکھنڈ اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین جناب گلفام مجیبی صاحب جو اردو ، فارسی ، انگریزی اور اسلامی تعلیمات کی اچھی جانکاری رکھتے ہیں ، مجیب گدی صاحب کے دوسرے لڑکے ہیں جن پر میں بعد میں تفصیل سے لکھوں گا ان شاءاللہ ، مجیب گدی صاحب کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان کا گھرانہ گوالہ ٹولی ڈورنڈہ سے سنٹرل اسٹریٹ ہند پیڑھی رانچی منتقل ہونے کے بعد بھی گدی برادری میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے ،

دھنباد کے رہنے والے ملکی پیمانے پر شہرت یافتہ شخصیت جناب الیاس احمد گدی اور جناب غیاث احمد گدی جناب صدیق مجیبی اور جناب گلفام مجیبی صاحب کے چچا زاد بھائی ہیں ، جناب صدیق مجیبی صاحب کی ابتدائی تعلیم ضلع ہائی اسکول رانچی میں ہوئی اور وہیں سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ، رانچی کالج سے آئی ، اے ، اور بی ، اے ، کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا ، بی ، اے ، پاس کرنے کے بعد صدیق مجیبی صاحب کی پہلی نوکری سی ، سی ، ایل ، کے رانچی ہونٹ میں ہوگئی تھی ، اس کے بعد جمشیدپور میں ایک امریکی ” کیزر کمیٹی” میں سیفٹی انسپکٹر بحال کئے گئے ، جہاں ان کی خدمات کو کمپنی نے بہت سراہا گیا، امریکی ” کیزر کمپنی” بند ہونے کے بعد آپ بریلی میں “یونین کاربائیڈ ” نام کی کمپنی میں دو تین سال رہے ، بریلی کے بعد تارا پور ممبئی کے ” ایٹمی کمپنی” میں سیفٹی اینڈ سیکورٹی افسر مقرر ہوئے ، جہاں آپ تین چار سالوں تک رہے ، 1967 کے رانچی فساد میں آپ ممبئی میں تھے ، کمپنی کا بوس جو ایک یہودی تھا مجیبی صاحب کو بہت مانتا تھا اس نے رانچی آنے کے لئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا انتظام کر دیا تھا لیکن مجیبی صاحب نے معذرت کرلی اور ٹرین سے آپ رانچی چلے ، یہ بات احباب کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں کہ صدیق مجیبی صاحب کو ” فوبیا” نام کی ایک بیماری تھی جس کی وجہ کر آپ نے پوری زندگی کبھی ہوائی جہاز سے سفر نہیں کیا ، ہوائی جہاز پر بیٹھتے ہی آپ کا سارا جسم کپکپاتے لگتا تھا اور ایک گھبراہٹ سے کیفیت پیدا ہو جاتی تھی ، جس زمانے میں آپ نے بی ، اے ، پاس کیا تھا اس زمانے میں رانچی یونیورسٹی رانچی قائم نہیں ہوئی تھی کئی سالوں کے بعد جب رانچی یونیورسٹی رانچی قائم ہوئی تب آپ نے ممبئی کی ملازمت چھوڑ کر رانچی انے کے بعد ، ایم ، اے ، کا فارم پرائیویٹ سے بھر کر امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ، جس دن آپ کے امتحان کا پہلا دن تھا ٹھیک اس کے ایک دن قبل آپ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا ، دوسرے دن آپ نے اس حال میں امتحان دیا کہ بیوی کے فراق میں آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، ایم ، اے ، کرنے کے بعد آپ کی پہلی تقرری ایس ، ایس ، میموریل کالج میں اردو کے لکچرر کی حیثیت سے ہوگئی ، اس زمانے میں ایس ، ایس ، میموریل کالج کی حیثیت ایک پرائیویٹ کالج کی تھی ، وہیں رہتے ہوئے ” بہار سروس کمیشن ” کے ذریعے آپ کی تقرری رانچی کالج میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے ہوئی ، رانچی کالج میں رہتے ہوئے آپ کی تدریسی صلاحیت و خدمات کا بہتر اندازہ تو ان لوگوں کو ہوگا جنھوں نے آپ سے علمی فیض حاصل کیا تھا ،

اردو ادب کا سب سے مشکل ترین صنف ” علم العروض” ہے جس پر مجیبی صاحب کو کافی دسترس حاصل تھا ، آپ علم العروض کے مشکل ترین اسباق کو اس طرح پڑھاتے اور سمجھاتے تھے کہ وہ بہت اچھے طریقے سے سمجھ میں آ جاتا تھا ، رانچی کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد دو مرتبہ ” بہار اردو اکیڈمی” کے وائس چیئرمین ہوئے ، جناب صدیق مجیبی صاحب کو شعر و شاعری کا شوق شروع سے تھا، بعد میں تو آپ کی قادر الکلام شاعری نے اردو دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا ، عام طور پر جانے انجانے ذہن و دماغ میں شروع سے یہ خیال بٹھا دیا اور پختہ کردیا گیا کہ علم و ادب ، فکر و فن اور شعر و شاعری اعلیٰ حسب و نسب کے گھرانوں کی جاگیر ہے جس کی اونچائی اور بلندیوں تک ان کے سوا کوئی پہنچ نہیں سکتا لیکن پچھڑے طبقے سے تعلق رکھنے والے رانچی کے تین قادر الکلام شاعروں نے اپنی علمی صلاحیتوں ، شاعرانہ عظمتوں اور اپنے فکر و فن کی بلندیوں سے اس فارمولہ کو غلط ثابت کردیا اور عملی طور پر تابت کردیا کہ پچھڑے طبقے سے تعلق رکھنے والا اپنی علمی صلاحیت ، شاعرانہ عظمت و بلندی اور فکر و فن کے پرواز میں اعلیٰ حسب و نسب والوں کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے جیساکہ اپنے کمال درجے کی شاعری میں میں جناب پرکاش فکری جو انصاری برادری سے تعلق رکھتے تھے ، جناب وہاب دانش صاحب جو راعین برادری سے تعلق رکھتے تھے اور جناب صدیق مجیبی صاحب جو گدی برادری سے تعلق رکھتے تھے نے اعلیٰ حسب و نسب والوں کو پہچھے چھوڑ دیا ، چونکہ ابھی جناب صدیق مجیبی صاحب کی شخصیت اور ان کے ادبی خدمات کی جھلک دکھانی ہے اس لئے ان کی شاعری اور ان کی شاعرانہ عظمت و فکری بلندی پر محیطِ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت پر ان کا یہ شعر جو ان کی قبر کے سرہانے لکھا ہوا ہے ، ملاحظہ فرمائیں ،
خدا عظیم بہت مہربان پھر بھی ،
میری پناہ مجیبی محمد عربی ،
دنیا کی ہنگامہ آرائیوں سے تنگ دل ہو کر خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ،
سمیٹ اب اسے یارب تمام تر قصہ ،
ایک گناہ سے کار جہاں بہت پھیلا ،
اپنوں کی بے وفائی اور ان سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ،
پیتا رہا میں اس کے تخاطب کے زھر کو ،
برسوں کی دوستی کا تعلق نظر میں تھا ،
پاؤں دلدل میں تھے دشمن تھے مقابل پھر بھی ،
وہ بھی ششدر میرے لہجے کی توانائی سے تھا ،
اپنے معاصرین سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ،
ہاتھوں سے دشمنوں کے میں ہو جاؤں گا شہید
سینے میں دشمنوں کی کسک چھوڑ جاؤں گا
گر میں بلندیوں سے گرا مثل آبشار
سینے میں پتھروں کےدھمک چھوڑ جاؤں گا
گوالہ ٹولی میں سردیوں کے زمانے میں الاؤ کے گرد بیٹھے لوگوں کی سادگی اور آپسی محبت کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ،
الاؤ جلتے تھے ایک قصہ خواں تو پہلے تھا ،
وہ پر فریب صحیح ایک سماں تو پہلے تھا ،
بھاگلپور کے ہندو مسلم فساد کے پورے قصے کو مجیبی صاحب نے اپنے اس ایک شعر میں سمیت کر سمندر کو کوزہ میں بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ،
مہندی بھی جلی ساتھ مکینوں کے مجیبی
ہم سائے میں تلسی کے بچے رہ گئے پتے ،
اس قسم کے اعلیٰ اور معیاری شاعری سے بھرا پڑا ہے مجیبی صاحب کا کلام اور ان کی شاعری ، یہی وجہ ہے کہ مجیبی صاحب کا کلام اور ان کی شاعری انٹر سے لے کر ایم ، اے ، کے نصاب میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے ، ان کی شخصیت اور ان کی ادبی خدمات پر کئی ریسرچ اسکالروں نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے ، جناب صدیق مجیبی صاحب محفل مشورہ میں جب اپنا کلام سناتے تھے تو بڑے بڑے شعراء حیران رہ جاتے تھے ، ندا فاضلی صاحب نے رانچی کے سرتاج ہوٹل منعقد ایک ادبی مجلس میں جہاں میں بھی موجود تھا مجیبی صاحب سے کو آسان شاعری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح مرزا غالب کو حالی جیسا شاگرد مل گیا تھا کاش آپ کو بھی کوئی الطاف حسین حالی جیسا شاگرد مل جاتا جو آپ کو مشکل پسندی سے سہل پسندی کی طرف متوجہ کراتا رہتا ، بعد میں مجیبی صاحب نے عوامی لہجے میں بھی شاعری کی ہے مگر اس کی تعداد بہت کم ہے ، جناب صدیق مجیبی صاحب مرزا غالب کی طرح بہت حاضر جواب اور نقظہ شناس انساں تھے مرزا غالب کی طرح ان کے ادبی لطیفے بہت مشہور ہیں ، ایک مرتبہ شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی رانچی میں مولانا شعیب رحمانی صاحب اور جناب ش، اختر صاحب سے کسی مذہبی بحث و مباحثہ میں تلخی کی وجہ کر کچھ دنوں تک سلام و کلام بند رہا ، مجیبی صاحب جو اکثر و پیشتر مولانا شعیب رحمانی صاحب کے پاس بیٹھتے تھے ، سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا ” ش” ( ش اختر) سے مل کر رہیں ،اس پر مولانا شعیب رحمانی صاحب نے مجیبی صاحب سے کہا کہ مجھے ” ش” سے یعنی ش ،اختر سے نہ ملائیں ،اس پر مجیبی صاحب نے مولانا شعیب رحمانی صاحب سے کہا کہ اگر آپ ” ش ” یعنی ش ، اختر سے الگ رہیں گے تو آپ میں بچے گا کیا ؟ یعنی شعیب سے اگر ش ہٹا دیا جائے تو صرف عیب رہ جائے گا ، ش+ عیب = شعیب ، اس قسم کے کئی ادبی لطیفے بہت مشہور ہیں ،
جناب صدیق مجیبی صاحب اپنی زندگی کے آخری دور میں عملی طور پر بہت مذہبی ہوگئے تھے ، صوم و صلوٰۃ کی پابندی اہتمام کے ساتھ کرنے لگے تھے ، انھیں اپنی زندگی کے گزشتہ ایام پر شرمندگی کا احساس حد درجہ رہتا تھا ، ہر وقت اللہ سے توبہ واستغفار کرتے رہتے تھے ، رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اہل بیت سے بے انتہا محبت کا اظہار کرتے تھے ، جناب صدیق مجیبی، ہر ایک سے بڑے اخلاق و محبت سے ملتے تھے ، بداخلاقی اور بد مزاجی تو آپ سے دور ہی رہتی تھی مجیبی صاحب کا انتقال سن 2014 عیسویں میں ہوا ، آپ کے جنازے میں آپ سے محبت کرنے اور چاہنے والے کافی تعداد میں موجود تھے ، آپ کے جنازے کی نماز مولانا علقمہ شبلی صاحب نے پڑھائی اور رانچی کے ڈورنڈہ قبرستان میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا ، اللہ تعالیٰ مجیبی صاحب کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین ،

Leave a Response