تحفظ اوقاف کانفرنس رانچی میں منظور شدہ تجاویزمولانا ڈاکٹرمحمد یٰسین قاسمی
رکن : آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ ,کنوینر : تحفظ اوقاف کانفرنس ر انچی
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے زیر اہتمام فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی صدارت میں اس عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس(منعقدہ 6 اکتوبر؍2024 ، بمقام: حج ہائوس، کڈرو،رانچی) کے شرکا، جن میں ریاست جھارکھنڈ کے مختلف اضلاع اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے تشریف لائے علما ، وکلا،دانشور، سیاستداں،مقتدر و سرکردہ شخصیات،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ذمہ داران، ارکان اور کثیر تعداد میں مسلمان شامل ہیں۔تجاویز کا متن حسب ذیل ہے:۔۱۔ مسلمانانِ جھارکھنڈ کی اس عظیم الشان کانفرنس کو یہ احساس ہے کہ مرکزی حکومت وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کرکے اوقاف کی اراضی اور جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، مسلمانوں کو وقف کے فوائد اور منافع سے محروم کرنا اس کا مقصد ہے، جو دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، اس لیے یہ ترمیمات از اول تا آخر ناقابل قبول ہیں۔ حکومت اس ترمیمی بل کو فوری طور پر من وعن واپس لے ، کیوں کہ یہ بل تحفظ اوقاف کے لیے نہیں ہے،بلکہ اوقاف کی جائیداد کو واقف کی منشا کے خلاف دوسرے کاموں میں استعمال کی راہ ہموار کرنا ہے، جو ہمارے دین میں مداخلت ہے اور یہ مداخلت کسی بھی درجہ میںہمیں منظور نہیںہے۔ 6کروڑ سے زائد مسلمانوں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(JPC) کو رائے بھیج کر اس بل کی مخالفت کی ہے، اس لیے دستور ہند کے تحفظ ، مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے دفعات کو سامنے رکھتے ہوے اسے حکومت واپس لے۔ ہم اسے پورے طور پر مسترد کرتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جمہوری اقدار اورسیکولرزم کی حفاظت کے لیے مرکزی حکومت پر اسے واپس لینے کے لیے اپنے اثرو رسوخ اور اثرات کا استعمال کرے ۔۲۔ سرکار سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ گزشتہ دوسالوں سے مرکزی وقف کونسل تعطل کا شکا رہےجس کی وجہ سے اوقاف سے متعلق امور انجام نہیں پارہےہیں۔حکومت کو فوری طور پر 1995 کے ایکٹ کے مطابق مرکزی وقف کونسل کی تشکیل کرنی چاہیے ، تاکہ اصول و ضوابط کی روشنی میں وقف کا کام انجام پاسکے اور واقف کی منشا کے مطابق اسے بارآور کیاجاسکے ۔۳۔ یہ عظیم الشان کانفرنس اوقاف کی زمینوں کو کارپوریٹ گھرانوں کو دینے اور واقف کے منشا کے خلاف وقف اراضی پر سرکار کی جانب سے کی جانے والی تعمیرات اور قبضہ کی بھی مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ایسی تمام اراضی کی شناخت کرکے سرکار اسے اوقاف سےمتعلق کمیٹیوں کے حوالے کرے ۔۴۔ اوقاف کی اراضی پر غیر قانونی قبضہ کو ختم کرنے کے لیے مرکزی حکومت قانون بنائے ،بہ صورت دیگر جن دفعات کے ذریعہ سرکاری زمینوں کوخالی کرایاجاتا ہے، انہیں دفعات سے اوقاف کی زمینوں کو خالی کرانے کی دستوری ضمانت دی جائے ۔۵۔ ہمار امطالبہ ہے کہ ایسی مساجد جو سرکاری مفادات کی توسیع کی زد میںہیں ان کو منہدم کراکر سڑکوں اور دوسری عمارتوں کی تعمیر نہ کرائی جائے، کیوں کہ مساجد جو بن جاتی ہیں وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہیں، ان کاموں کے لیے سرکار کو منصوبہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہو تو اسے لایاجائے۔۶۔ حکومت سروے کمشنر کو اس بات کا پابند کرے اور واضح حکم دے کہ ایک مخصوص اور معلوم مدت میں اوقاف کی جائیداد کے سروے کے کام کو مکمل کرے اور جو اراضی جس کام میں مستعمل ہو اس کا اندراج رجسٹر 2میں اسی حیثیت سے کرے، سروے کنندگان نے اوقاف کے جن جائیدادوں کو غیر مزروعہ عام لکھ کر ریاستی حکومتوں کے حوالے کردیا ہے، قبرستان کو کہیں کہیں کبیر استھان ، گورستان اور گئواستھان لکھ دیا ہے، اس کی تصحیح کی جائے اور اس کے ٹائٹل کو بدلاجائے ۔۷۔ یہ کانفرنس مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وقف کی اراضی پر جن لوگوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ، اس کو خالی کرانے کی ہر ممکن کوشش کریںتا کہ ان کا استعمال منشا ئے واقف کے مطابق کیاجاسکے۔۸۔ ایسی تمام وقف کردہ اراضی جو رجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کے واقف یا متولی حضرات اسے رجسٹرڈ لازماً کرائیں تا کہ مستقبل میں اس کے تحفظ کا سامان ہو سکے۔تجویز بابت توہین رسالت ﷺ ۹۔ عقائد اور ایمانیات سے متعلق کچھ معاملات ایسے ہیں جن سے دنیا بھر کے تقریباً دوارب مسلمانوں کا انتہائی جذباتی تعلق ہے ، ان میں ذات باری تعالی ، قرآن مجید ، اور سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی شامل ہے ۔ خاص طور پر حضور سرور عالم ﷺسے تو اہل اسلام والہانہ وعاشقانہ تعلق رکھتے ہیں ، ان کی شان اقدس میں ادنیٰ قسم کی حرف گیری بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔مسلمانوںکے قلوب میں اپنے پیغمبر ؐ کے تئیں جو عظمت اورمحبت ہے اس سے سارا زمانہ واقف ہے ۔ اس کے باوجود دنیا میں اورخاص طورپرہمارے ملک ہندوستان میں کچھ شرپسند عناصر جن میں کچھ لوگ مذہبی بہروپ میں بھی ہوتے ہیں ، نیز کچھ لوگ سیاسی اور معاشی خدمت گار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، وقتاً فوقتاً شان رسالت ؐمیں بد زبانی اورگستاخی کرتے رہتے ہیں ، ان کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ ایسے شرپسند لوگ کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہوتی ، ایسا لگتاہے کہ حکومتوں کی جانب سے ایسے بدمعاشوں کو مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوی ہے ۔ہم مرکزی اورریاستی حکومتوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ توہین رسالتؐ کامعاملہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے دوارب سے زائد مسلمانوں کامعاملہ ہے ، دنیا کاہر مسلمان شان اقدس ؐ کی حرمت وتقدس کی حفاظت میں اپنا سب کچھ قربان کرسکتاہے ، ایسی حرکتوں سے بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کی زبردست بدنامی ہوتی ہے ، ہماری جمہوریت کے خلاف دنیا میں غلط پیغام جاتاہے ۔آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی یہ کانفرنس حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے حضرت رسالت مآب ؐ کی شان اقدس میں گستاخی اوراس کے ذریعہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا جو سلسلہ چل رہاہے اس کو روکا جائے ، ایسے گستاخوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے ، ورنہ مسلمان انتہائی سخت احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے، ہمارے ملک کادستور وقانون بھی ایسے احتجاج کی اجازت دیتاہے ۔۱۰۔ اتنی بڑی تعداد میں اس کانفرنس میں تشریف لانے پر مجلس استقبالیہ تحفظ اوقاف کانفرنس، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ذمے داران، کارکنان اور خدام آپ حضرات کی خدمت میں جذبات تشکر پیش کرتے ہیں۔ وقف اور توہین رسالت ؐکے مسئلہ پر آپ کی حساسیت ، سرگرمی اور فکر مندی کی ہم سب قدر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین !