All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand NewsRanchi News

وعدہ خلافی ہمارے سماج میں گھر کر چکی ہیے ۔ ہمارے روز مرّہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات سے لیکر بڑے فیصلے اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

Share the post

کفیل احمد
سافٹویئر کنسلٹنٹ بنگلور
kafeel۔bit@gmail۔com
9008399660
“عہد شکنی “
وعدہ خلافی ہمارے سماج میں گھر کر چکی ہیے۔ افسوس یہ ہیے کہ لوگوں میں یہ بر۱ئ عام ہو گئ ہیے ۔ ہمارے روز مرّہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات سے لیکر بڑے فیصلے اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ میں نے اپنے پڑوسی سے اخبار لیا اور یہ کہا کہ میں کل پڑھ کر واپس کرتا ہوں۔ میں اخبار واپس کرنا بھول گیا ۔ یا میرے دماغ میں یہ سوچ چل رہی ہیے کہ اخبار تو صرف پانچ روپیہ کا ہیے۔ کیا فرق پڑتا ہیے۔ جبکہ ہمارا پڑوسی اخبار کی واپسی کا منتظر ہیے۔ یہ بات قابل غور رہے کہ مسلہ کسی عدنہ سی چیز کی قیمت کی نہیں بلکہ اپنی بات پر کھرے اترنے کی ہیے۔ اور یہی آگے چل کر ہماری بڑی کمزوری بن جاتی ہیے۔ اس ماحول میں پلے بڑھے بچے نا اہلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سورہ صف کی آیت ہیے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ ۔ اے لوگوں جو ایمان لائے، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو ۔
اللہ تعالٰی نے بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ کی ہیے ۔ ہمارے قول اور فعل میں تضاد ہیے ۔ ہماری کتھنی اور کرنی میں فرق ہیے ۔ ایسے لوگ بھروسے کے لائق نہیں ۔ ان کے دوست بھی انہیں تنہا چھوڑ جاتے ہیں ۔

یاد کیجئے اس معاہدے کو جو حضرت محمد ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینے کے لوگوں سے کیا تھا ۔ اس معاہدے میں مختلف قبیلے کے لوگ اور یہودی قبائل بھی شامل تھے ۔ اس معاہدے کو ” میثاق مدینہ ” کے نام سے جانا جاتا ہیے ۔ جو لوگ معاہدے پر ثابت قدم رکھے سرخ رو ہوے اور جنہوں نے عہد شکنی کی انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ اور یہ مثال ہیے جو رہتی دنیا تک قائم اور دائم رہیگا ۔
یہ نصیحتیں صرف ایک فرد کے لیئے نہیں ہیے ۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیئے اس میں بسنے والے الگ الگ گروہ، تبقے، تنظیموں کی یہ زمےداری ہیے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں ۔ ہمیں لفّاظ اور لبّاق نمائندوں کی ضرورت نہیں ہیے ۔ جو قول اور فعل کا پکّا ہیے، وہی ہماری رہبری کر سکتا ہیے۔

حضرت انس ابن مالک جنہوں نے دس سال حضور کی خدمت میں لگائے ۔ ان کو ” خادم النبی ” کے لقب سے بھی جانا جاتا ہیے ۔ انہوں نے ایک حدیث روایت کی ہیے ۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اکثر اپنے خطاب میں اس کو شامل کیا ہیے ۔
حدیث کا مفہوم یہ ہیے کہ ” جو شخص امانت دار نہیں وہ لوگوں کا اعتبار کھو دیتا ہیے اور جو شخص عہد شکنی کرتا ہیے وہ اپنے دین سے پھر جاتا ہیے ۔ “

گویا کہ یہ دونوں کردار ایک ایمان والے کے لیئے اہم ہیں ۔ آج کے ہمارے نمائندے ان دونوں کرداروں سے کوسوں دور ہیں ۔ اپنے کردار سے خالی کلام سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں ۔ اور جس کا اثر رتّی برابر کسی پر نہیں ہوتا ۔
اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کی پہلی شرط یہ کہ ہم خود سو فیصد اس پر کھرے اتریں ۔

علامہ اقبال نے بڑے خوبصورت انداز میں لکھا ہیے ۔

اقبال بڑا اپدیشک ہیے، من باتوں میں موہ لیتا ہیے
گفتار کا غازی بن تو گیا، کردار کا غازی بن نہ سکا

Leave a Response