محمد نظام عرف مدنیا کی شخصیت اور ان کی سماجی خدمات ( ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی )


آج میں ایک ایسی شخصیت کا تعارف اور اس کی خدمات کا تذکرہ پیش کر رہا ہوں جس کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے ، وہ کوئی مذہبی و سیاسی رہنما نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بہت بڑا دانشور و فلسفی ، وہ بس ایک عام انسان ہے لیکن اس کے نام سے ھند پیڑھی ندی گراؤنڈ میں ایک بہت بڑا محلہ آباد ہے ،جس کا نام ” نظام نگر” ہے ، آخر یہ بظام نگر ہے کیا ؟ کس کے نام سے آباد ہے یہ محلہ؟ اس کی جانکاری آپ کو حیران کر دے گی ، انسانی معاشرے میں ہمیشہ دو طبقے کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک طبقہ امیروں کا اور دوسرا طبقہ غریبوں کا ہوتا ہے ، امیروں کی ضرورتیں الگ اور غریبوں کی ضرورتیں الگ ہوتی ہیں ، غریبوں کی تین بنیادی ضرورتیں روئی ، کپڑا اور مکان کا نہ ہونا سب سے ذیادہ پریشان کرتی ہیں ، غریبوں کی ان تینوں ضرورتوں یا ان میں سے کسی ایک ضرورت کو جو بھی پورا کردیتا ہے تو وہی شخص ان غریبوں کا ہمدرد اور مسیحا بن جاتا ہے خواہ اس کی زندگی کے دوسرے پہلو کیسے بھی ہوں اس سے ان غریبوں کو کوئی مطلب اور لینا دینا نہیں ہوتا ہے، غریبوں کی کسی بھی قسم کی مدد و نصرت کرنے والا ان کے لئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہوتا ،
غریبوں کو زمین اور چھت دینے والے ایسے ہی ایک مسیحا کا نام محمد نظام ہے جسے اس کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد آج بھی لوگ اس کے اصلی نام کے بجائے ” مدنیا ” کے نام سے جانتے ہیں ، محمد نظام عرف مدنیا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے قطع نظر مجھے اس کی زندگی کے ایک بہت ہی اہم اور نمایاں پہلو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے اور وہ یہ کہ محمد نظام عرف مدنیا ایک غریب پرور اور غریبوں سے سچی محبت اور ہمدردی رکھنے والے انسان تھے ، جو بنیادی طور پر گوالا ٹولی ہند پیڑھی کے رہنے والے تھے ، جن کی پیدائش غالباً 1901 میں ایک غریب خاندان میں ہوئی ، غربت کی وجہ سے صرف اتنی تعلیم حاصل کی تھی جس سے ہندی اور اردو اخبار اور چھوٹی موٹی کتابیں اور پرچے کسی طرح پڑھ لیا کرتے تھے ، محمد نظام عرف مدنیا جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے گھریلو ذمےداریوں اور معاش کا بوجھ بڑھتا گیا ، ابتدائی مرحلے میں دوسرے کا ٹرک چلا کر بال بچوں کی پرورش کرتے تھے ، کچھ آمدنی بڑھی تو بعد میں چار پہیہ گاڑی کرایہ پر چلوانے لگے ، کچھ عرصے کے بعد گوالا ٹولی ہند پیڑھی کا مکان چھوڑ کر بھٹی چوک میں یاسین مولوی صاحب کے مکان میں بطورِ کرایہ دار رہنے لگے ، بھٹی چوک میں ہی مدنیا کا ایک ہوٹل ” مدنیا ہوٹل” کے نام سے چلتا تھا ، بیس پچیس سالوں تک یہ ہوٹل اتار چڑھاؤ کے ساتھ چلتا رہا ، بعد میں محمد نظام عرف مدنیا نے ہوٹل بند کر کے گروسری یعنی چاول دال کی دوکان کھول لی جس سے پہلے کے مقابلے میں کچھ آمدنی ہونے لگی تو ندی گراؤنڈ میں زمین خرید کر مکان بنا لیا اور بھٹی چوک کے کرایہ کا مکان چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے ذاتی مکان ندی گراؤنڈ میں منتقل ہوگئے اور تا حیات ندی گراؤنڈ والے مکان میں ہی رہے ، ندی گراؤنڈ آنے کے بعد ہی ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا اور غریبوں کے تئیں ہمدردی کا ایسا جذبہ پیدا ہوگیا کہ وہ غریبوں اور بے گھروں کے لئے مسیحا بن سامنے آئے ، زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس نے محمد نظام عرف مدنیا کی زندگی کے دوسرے پہلو کو نظر انداز کر دیا اور تمام پہلوؤں پر غریبوں کی مدد و نصرت اور ہمدردی کا پہلو غالب آگیا ، ھند پیڑھی کے ندی گراؤنڈ کا پورا علاقہ کسی زمانے میں کھیت تھا اور پانی سے جل تھل رہا کرتا تھا ، سب سے پہلے ندی گراؤنڈ میں جناب محمد نظام عرف مدنیا نے اپنا گھر بنایا اور دو دو چار چار غریبوں اور بے گھروں کو پانچ سو اور ہزار روپئے میں زمین دے کر بسانا شروع کیا ، غریب اور بے گھر لوگوں نے پانچ سو اور ہزار روپئے میں زمین خرید کر اور مکان بنا کر رہنا شروع کردیا ، محمد نظام عرف مدنیا غریبوں اور بے گھروں سے اپنے انداز میں کہتے تھے کہ ” آوا نا رے سالن ، آدھار زمین لے لیوا اور مکان بنا کے رہا ، دھیرے دھیرے اور تھوڑا تھوڑا جیسے جیسے پیسوا ہو تو ویسے ویسے دیتے جیبا ” مدنیا صاحب کے اس پیشکش نے غریبوں اور بے گھروں کا حوصلہ بڑھا دیا، ان کے اس جذبے اور حوصلے کو دیکھ کر غریب سے غریب لوگ آدمی بھی ندی گراؤنڈ میں زمین لے کر اور جیسے تیسے مکان بنا کر رہنے لگے ، اس طرح ندی گراؤنڈ میں غریب مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہوگئی ، جو لوگ غربت و افلاس کی وجہ سے زمین خریدنی کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن محمد نظام عرف مدنیا کی غریبوں اور بے گھروں کے تئیں ہمدردی و نصرت اور دھیرے دھیرے پیسہ دینے کی پیشکش نے ان کے حوصلے بڑھا دیئے اور ان کو لگنے لگا کہ اب مدنیا بابو سے زمین لے گھر بنانا ممکن ہوگیا ہے ، جب پچیس تیس گھروں کی آبادی ہوگئی تو محمد نظام عرف مدنیا نے دس کٹھہ اپنی زمین ” موتی مسجد ” کے نام سے وقف کردی اور اپنے خرچ سے سات کٹھہ زمیں پر مسجد تعمیر کر کے نماز شروع کرادی ، تین کٹھہ زمین خالی چھوڑ دیا تاکہ بعد میں اس تین کٹھہ چھوڑی ہوئی زمین پر مسجد کی کفالت کے لئے مدرسہ ، اسکول یا دوکان بنائی جاسکے اور اس سے موتی مسجد کے اخراجات کے لئے مستقل آمدنی ہوتی رہے ، آج اس علاقے میں ایک عالیشان مسجد ” موتی مسجد” کی شکل میں موجود ہے ، جب اس علاقے میں مسجد تعمیر ہوگئی اور پنج وقتہ نماز با جماعت اور جمعہ کی نماز باضابطہ شروع ہوگئی تو وہ لوگ جو دوسرے علاقوں میں ایک عرصے سے کرایہ کے مکان میں رہ رہے تھے ، غربت کی وجہ سے زمین خریدنے کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، ایسے لوگوں کے لئے محمد نظام عرف مدنیا غریبوں اور بے گھروں کے لئے مسیحا بن کر سامنے آئے انھوں نے ایسے تمام لوگوں کو ماہانہ جس سے جتنا ہوسکے قسطوں پر زمین فراہم کرادی ، لوگ قسطوں میں رقم کی ادائیگی پر زمین خرید کر اور مکان بناکر رہنے لگے اور ہر مہینہ پانچ سو اور ہزار روپئے یعنی جس سے جتنا ہوتا تھا زمین کی رقم قسطوں میں ادا کرتے تھے ، کسی مہینہ کسی نے قسط کی رقم دی تو کسی مہینہ قسط کی معمولی رقم بھی نہ دے سکا ، ایسے لوگوں کو انہوں نے روپئے کے لئے کبھی پریشان نہیں کیا ، محمد نظام عرف مدنیا کے بڑے لڑکے محمد کلام صاحب بتاتے ہیں کہ
بابا کے مرنے کے تئیس سال کے بعد بھی بہت سارے غریب لوگوں نے زمین کے قسطوں کی رقم اب تک پوری ادا نہیں کی اور رقم دینا بھی بند کر دیا اور پورے اطمینان کے ساتھ رہ رہے ہیں ، ہم لوگ کچھ نہیں کہتے ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ بابا نے ہم لوگوں کو وصیت کی تھی کہ جن غریب اور بے گھر لوگوں کو میں نے جیسے تیسے اور اونے پونے میں زمین دے کرکے ندی گراؤنڈ میں بسایا ہے ان لوگوں کو تم لوگ کبھی پریشان مت کرنا اور نہ ہی روپئے کے لالچ میں ان غریبوں کو اجاڑنے کی کوشش کرنا ورنہ غریبوں کی آہ اور بددعاء لگ جائے گی تو کہیں کے نہیں رہوگے ، غریبوں اور بے گھروں کے ساتھ نصرت و ہمدردی کا یہی وہ جذبہ تھا جس کی بنیاد پر اس علاقے میں بسنے والوں نے اس محلے کا نام محمد نظام عرف مدنیا کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ” نظام نگر” رکھ دیا ، آج وہ پورا علاقہ ” نظام نگر” کے نام سے مشہور و معروف ہے ، ان غریب اور بے گھر لوگوں کے آباد ہونے کے بعد تو بعد میں اس علاقے کی زمین کی قیمت آسمان چھونے لگی اور اب تو اس پورے علاقے میں ہر طرح کے مسلمانوں ایک بڑی مسلم آبادی بس گئی ہے ، اب تو امیر ترین اور دولت مند لوگوں کے مکانات بھی بن گئے ، ندی گراؤنڈ کے علاقے میں موتی مسجد کی تعمیر کے بعد دوسری کئی مسجدوں کی بھی تعمیر ہوئی ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جس ندی گراؤنڈ کے علاقے کی ساری زمین خالی اور ویران تھی ، پوری زمین لہلہاتے ہوئے کھیت اور پانی و کیچڑ سے جل تھل رہتی تھی آج وہاں مسلمانوں کی اتنی گھنی آبادی ہوگئی ہے کہ یقین نہیں ہوتا کہ کیا یہ وہی علاقہ ہے جسے سب سے پہلے خود محمد نظام عرف مدنیا نے اپنا گھر بنا کر اور خود رہ کر آباد کیا
اور پھر دھیرے دھیرے اس کے ذریعے غریبوں اور بے گھروں کے ساتھ رعایت کرتے ہوئے اونے پونے میں زمین دے کر بسانے سے یہ علاقہ آج مسلم آبادی سے گلزار نظر آتا ہے ، غریبوں کے ہمدرد اور مسیحا محمد نظام عرف مدنیا کا تقریبآ ایک سو ایک سال کی عمر میں 2002 میں انتقال ہوگیا ، ان کے جنازے میں غریبوں اور مسکینوں کی کافی بھیڑ دیکھی گئی تھی ، محمد نظام عرف مدنیا کے تین لڑکے محمد کلام جو موتی مسجد کے ذمے دار بھی ہیں ، محمد محمد اسلام عرف بھولا اور محمد سلام جن کا انتقال ہو چکا ہے ، تین لڑکیاں ہیں جو باحیات اور صاحب اولاد ہیں ، اللہ تعالیٰ محمد نظام عرف مدنیا کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین
