علاؤ الدین انصاری صاحب مرحوم ڈورنڈہ رانچی کی پر کشش شخصیت ( ڈاکٹر عبید اللہ قاسمی)


مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور مذہبی کارکردگی کی بنیاد پر جب ایک شخص عوامی سطح سے اوپر اٹھ کر مشہور و مقبول ہو جاتا ہے اور انسانی و فلاحی خدمات کی بناء پر لوگوں کے دلوں میں ہردلعزیزی کا مقام حاصل کرلیتا ہے تو اس کی وفات پر دنیا آنسو بہاتی ہے اور برسوں ان کی جدائی کے غم کا احساس رہتا ہے ، بیلدار محلہ ڈورنڈہ رانچی کے رہنے والے جناب علاؤالدین انصاری صاحب مرحوم ایسی ہی ایک پر کشش شخصیت کا نام تھا جن کا گزشتہ دنوں 4/ اکتوبر 2025 کو بروز سنیچر 85 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا ، جنازے کی نماز ڈورنڈہ کے منی ٹولہ قبرستان میں ادا کی گئی جہاں ہزاروں لوگوں نے نم آنکھوں سے انھیں سپرد خاک کیا ، جناب علاؤالدین انصاری صاحب مرحوم ڈورنڈہ رانچی کی مشہور و معروف شخصیت جناب قربان استاد کے بڑے لڑکے تھے ، وہ قربان استاد جو فن سپہ گری ، گھڑسواری ، تلوار بازی ، تیر اندازی ، تیراکی ، پہلوانی ، ہاتھ پاؤں میں موچ آجانے ، ناف کے اکھڑ جانے ، بدن کے کسی بھی حصے کی ہڈی کے بے جگہ ہوجانے اور نسوں کے بیٹھ جانے یا دب جانے کی اصلاح کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ، قربان استاد کے اس فن کو ان کے تیسرے لڑکے جناب حاجی محمد اسلام انصاری صاحب بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور اپنے والد محترم کی اس وراثت کو قائم اور باقی رکھے ہوئے ہیں ، قربان استاد جیسے علم دوست اور مختلف فنون میں مہارت و قابلیت رکھنے والے باکمال باپ کا بیٹا علاؤالدین انصاری بےکمال کیسے ہوسکتا تھا ؟ اپنے والد کی تعلیمی و سماجی خدمات کی وراثت کو بیٹے نے پوری زندگی قائم اور باقی رکھا ، جناب علاؤالدین انصاری صاحب اخلاقی اعتبار سے بہت سلجھے ہوئے اور ایک خاموش طبیعت کے انسان تھے ، مگر ان کی خاموشی میں بھی سمندر کی سی گہرائی و گیرائی ہوتی تھی ، بہت کم بولتے اور جب بولتے تو اچھے اچھوں کی بولتی بند ہوجاتی تھی ، متانت اور سنجیدگی ان کا خاص وصف تھا ، کسی نے کسی مجلس میں کبھی ان کو کسی بات پر چلاتے ، لڑتے ، جھگڑتے ، غصہ کرتے یا بدزبانی کرتے نہیں دیکھا ، حتی کہ اونچی آواز سے بھی وہ گفتگو نہیں کرتے تھے ، وہ ہر بات کو نہایت ہی سنجیدگی اور متانت سے کہنے کے عادی تھے ، رانچی شہر کے کئی اداروں کے سرپرست ، صدر اور جنرل سیکریٹری رہنے کے باوجود انھوں نے کبھی بھی اپنی رائے یا اپنی کوئی بات منوانے کی ضد نہیں کی اور نہ ہی کسی مجلس میں ان کی ذات کی وجہ سے کبھی کوئی اختلاف ہوا ، مسلم معاشرے میں پھیلی ہوئی مختلف برائیوں اور خرابیوں کی اصلاح وہ مسلمانوں کی تعلیمی و فلاحی تنظیموں اور اداروں کے ذریعے کرنا چاہتے تھے ، اس کے لئے انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی ، جناب علاؤالدین انصاری صاحب ہاتھی خانہ ڈورنڈہ رانچی کے اسماعیلیہ مؤمن اردو مڈل/ ہائی اسکول کے بانیوں میں سے تھے ، اس اسکول سے انھیں اپنے والد کی طرح ایک جذباتی تعلق اور لگاؤ تھا ، اسکول کی بنیاد میں علاؤالدین انصاری صاحب جیسے لوگوں کا خون پسینہ پیوست ہے ، اپنے والد قربان استاد کے انتقال کے بعد وہ اسکول کے فاؤنڈر سکریٹری رہے اور اسکول کی تعمیر و ترقی میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے رہے اور ان کے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے میں اس وقت تک لگے رہے جب تک ان کی جان قفس عنصری سے پرواز نہ کر گئی ، تعلیمی و فلاحی کاموں میں جنون کی حد تک لگے رہنے کی انھیں خوبیوں کی وجہ کر ہی علاؤالدین انصاری صاحب کو مولانا آزاد کے قائم کردہ رانچی کے سب سے بڑے سماجی ادارہ ” انجمن اسلامیہ رانچی” کا جنرل سیکریٹری مجلس منتظمہ نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا ، اپنے دور نظامت اپنے ہم خیال اور ہم مزاج افراد کے نہ ملنے کی وجہ سے انھوں نے بہت سارے کام تو نہیں کئے لیکن انجمن اسلامیہ رانچی کے دو تعلیمی ادارے خصوصاً ” آزاد مڈل/ ہائی اسکول اور مولانا آزاد کالج ” کو اپنے تعلیمی منصوبوں کے مطابق بام عروج پر لے جانا چاہتے تھے ، وہ انجمن اسلامیہ رانچی کے کو بدلتے ہوئے حالات اور تقاضے کے پیش نظر ایک نئی شکل دینا چاہتے تھے تاکہ انجمن اسلامیہ رانچی اور اس کے ماتحت آنے والے تمام ذیلی اداروں کی کارکردگی سے عوام وخواص زیادہ سے زیادہ مستفیذ ہو سکیں لیکن افسوس صد افسوس کہ انجمن اسلامیہ رانچی میں منظم اور منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے کا علاؤالدین انصاری صاحب کا انداز اور طور طریقہ انجمن کے چند خود غرض ، مفاد پرست اور موقع پرست ارکان کو پسند نہیں آیا ، انھوں نے علاؤالدین انصاری صاحب کی ایمانداری و امانت داری کو اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی کی راہ میں رکاوٹ محسوس کیا ، علاؤالدین انصاری کے کام کرنے کے انداز اور طور طریقے کی مختلف انداز میں مخالفت کرنے لگے اور کروانے لگے ، پوری زندگی بے لوث و بے غرض تعلیمی و سماجی خدمات میں لگے رہنے والا ایماندار و امانت دار شخص خود غرض اور مفاد پرست ارکان کے دباؤ میں کب آ سکتا تھا ؟ انجمن اسلامیہ رانچی میں بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ و حوصلہ رکھنے والے علاؤ الدین انصاری صاحب نے چند خود غرض اور مفاد پرست ارکان کے درمیان گھٹن محسوس کرتے ہوئے آخر کار جنرل سیکریٹری کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ، ان سے پہلے انجمن اسلامیہ رانچی کے نائب صدر کے عہدہ سے جناب مظہر پال صاحب اسی بنیاد پر استعفیٰ دے چکے تھے ، ان دونوں کا استعفیٰ قبول بھی کر کیا گیا ، مجلس عاملہ نے استعفیٰ واپس لینے کا اخلاقی دباؤ ڈالنا بھی ضروری نہیں سمجھا ، معلوم ہوا کہ انجمن اسلامیہ رانچی اور اس کے ذیلی اداروں کو بہتر بنانے کا جذبہ اور حوصلہ رکھنے والوں کا خواب انجمن کے ہی وہ لوگ چکنا چور کردیتے ہیں جن کی ساری محنت و کوشش انجمن کو بہتر بنانے کے بجائے اپنے آپ کو بہتر بنانے کی ہوتی ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ، جناب علاؤ الدین انصاری صاحب ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی جس کے تحت مولانا آزاد کالج چلتا ہے کے بھی سینئر رکن رہے ، ہمیشہ مثبت طریقہ کار اختیار کیا ، سینئر رکن ہونے کے باوجود آپ نے کبھی بھی کسی کام میں رخنہ اندازی کا طریقہ اختیار نہیں کیا ، جناب علاؤالدین انصاری صاحب سماجی و فلاحی کاموں میں پوری دلچسپی کے ساتھ ہمیشہ مصروف رہتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ، غریبوں ، مسکینوں اور معاشی اعتبار سے کمزور لوگوں کی مدد نام و نمود کے بغیر کیا کرتے تھے ، رانچی میں ایک بڑا نام و مقام اور شہرت و مقبولیت رکھنے کے باوجود علاؤالدین انصاری صاحب کے اندر فخر و غرور اور انانیت کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا ، انصاری برادری میں ان کا ایک بڑا نام اور الگ ہی مقام تھا ، وہ کئی مرتبہ رانچی ضلع جمیعۃ المؤمنین کے صدر رہے ، علاؤ الدین انصاری صاحب ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کے بہت بڑے علمبردار تھے ، بہت سارے لوگوں کو آج بھی یاد ہوگا کہ ڈورنڈہ بازار کی مرکزی مسجد کے سامنے سے رام نامی کا جلوس گزرنے کو لے ہر سال ہندو مسلم کے درمیان تناؤ اور کشیدگی پیدا ہو جاتی تھی اس دور میں جناب علاؤالدین انصاری صاحب جیسے لوگ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بغیر کسی آپسی ٹکراؤ کے حل کر لیا کرتے تھے جس سے پولیس انتظامیہ کے لئے لااینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا تھا ، زندگی کے آخری لمحات میں بیماری اور جسمانی کمزوری کی وجہ کر اپنے آپ کو گھر ہی میں محدود کرلیا تھا پھر بھی وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے تمام بھائیوں اور پورے اھل و عیال کے لئے ایک سایہ دار درخت کی طرح ہمیشہ کھڑے رہے ، آخر میں یہ بوڑھا سایہ دار درخت وقت اجل کے جھونکوں سے گر پڑا ، اللہ تعالیٰ جناب علاؤالدین انصاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین ،
