All India NewsJharkhand NewsRanchi JharkhandRanchi Jharkhand News

جناب حاجی معین صاحب گرانڈ شو کی شخصیت اور ان کی خدمات (ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی)

Share the post

انسانی معاشرے کے لئے کچھ لوگ اپنے کردار و عمل کی بنیاد پر ہر دور میں بہت اہم اور خاص رہے ہیں ، وہ اس لئے کہ انھوں نے ہمیشہ عام لوگوں سے اوپر اٹھ کر معاشرے کی ضرورتوں کا خیال رکھا ہے اور جہاں تک ان سے ممکن ہوسکا لوگوں کے لئے سہولتیں اور آسانیاں فراھم کی ہیں ، رانچی کی ایسی ہی ایک بہت مشہور و معروف شخصیت کا نام جناب حاجی معین الدین صاحب ہے ، جن کے جوتے کی بہت مشہور اور پرانی دوکان ” گرانڈ شو” کے نام سے آج بھی مین روڈ اردو لائبریری کے پاس موجود ہے ، جناب حاجی معین الدین صاحب بنیادی طور پر ” کیور کے اسلام پور ضلع نالندہ بہار” کے رہنے والے تھے ، جن کی پیدائش غالباً 1922 کی ہے ، آپ بہت کم عمری میں ہی غالباً 1935 میں رانچی آگئے تھے ، اس زمانے میں رانچی آج کی طرح اتنی ترقی یافتہ شکل میں نہیں تھا ، آپ نے رانچی کے مین روڈ میں ” گرانڈ شو” کے نام سے جوتے چپل کی تجارت شروع کی ، جو بہت کامیاب رہی اور آج بھی ہے ، آپ کی یہ دوکان دھیرے دھیرے اتنی مشہور و مقبول ہوئی کہ شہر و مضافات کے مسلمان عام طور پر تیویاروں اور دوسرے موقعوں پر بلا جھجک ” گرانڈ شو” کی طرف رخ کرتے جس کی وجہ کر آپ کی دوکان میں گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی کیوں کہ حاجی معین صاحب کی کاروباری ایمانداری اور دیانتداری بہت مشہور تھی ، لوگوں کو آپ کی ذات اور آپ کے کاروباری معاملات پر بہت اعتماد اور بھروسہ تھا ، یہی وجہ تھی کہ آپ پر ساری زندگی کبھی بھی بے ایمانی یا کسی کی حق تلفی کا سوال کبھی کھڑا نہیں ہوا ، آپ کی دوکان مقامی و بیرونی علماء کرام اور شہر و مضافات کی معزز شخصیات کی آمد و رفت اور ملاقات کی مرکزی جگہ بن گئ تھی ، مدرسہ قاسمیہ گیا کے بانی و مہتمم حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب کی آپ سے بہت گہرے مراسم اور تعلقات تھے ، مدرسہ قاسمیہ کے سلسلے میں قاری فخر الدین صاحب کا جب بھی رانچی آنا ہوتا تو وہ سب سے پہلے آپ کی دوکان ” گرانڈ شو” میں تشریف لاتے اور قیام کرنا ہوتا تو آپ ہی کے گھر قیام کرتے تھے ، جناب قاری فخر الدین صاحب نے رانچی کے کڈرو بستی میں جب ایک مدرسہ قائم کرنے کا ذکر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور اس مدرسہ کو چلانے کے لئے حضرت مدنی رحمۃ اللہ کی اجازت سے مولانا ازھر صاحب کو رانچی ساتھ لائے تو سب سے پہلے حاجی معین الدین صاحب سے ملاقات کرایا ، ابتدائی مرحلے میں پہلے کڈرو کے حاجی شہود صاحب کے مکان کے باہری حصے میں ایک مکتب قائم کیا گیا جو بعد میں مولانا ازھر صاحب کی انتھک محنت و کوشش اور جناب حاجی معین صاحب کی خصوصی توجہ و دلچسپی اور دوسرے چند احباب کے تعاون سے مکتب ” مدرسہ حسینیہ” میں تبدیل ہو گیا ، مدرسہ حسینیہ کا نام بھی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہُ علیہ الرحمہ کے نام پر رکھا گیا اور مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی مدرسہ قاسمیہ گیا کی شاخ قرار دیا گیا ، ان سب میں حاجی معین صاحب کی رائے کو بڑا دخل رہا ہے ، جس زمانے میں مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی میں قائم ہوا اور اس کے لئے مولانا ازھر صاحب کو لایا گیا تو اس زمانے میں کڈرو بالکل ایک دیہات کی طرح تھا ، مولانا ازھر صاحب کا کڈرو جیسے دیہات میں اس دور میں دل نہیں لگتا تھا تو کڈرو چھوڑ کر اپنے گھرچلے جاتے تھے ، حاجی معین صاحب قاری فخر الدین صاحب کے توسط سے مولانا ازھر صاحب کو سمجھا بجھا کر کڈرو رانچی لاتے ، کچھ دنوں کے مولانا ازھر پھر اپنے گھر چلے جاتے ، قاری معین صاحب پھر سمجھا بجھا کر لاتے ،چونکہ اس زمانے میں مولانا ازھر صاحب بہت ہی کم عمر نوجوان عالم دین تھے ، صحیح سے داڑھی بھی نہیں آئی تھی ، اس لئے ذہنی پختگی میں تھوڑی کمی تھی ، گویا مولانا ازھر صاحب کو کڈرو میں بسانے ، قدم جمانے اور حوصلہ و ہمت دینے میں قاری معین صاحب کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قاری معین صاحب مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے اول دن سے تا حیات خازن رہے ، مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کی مالی فراہمی میں شروع سے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک قاری معین صاحب کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں ، مولانا ازھر صاحب جب بھی کڈرو سے مین روڈ آتے تو ان کا سب سے پہلا مسکن حاجی معین صاحب کی دوکان گرانڈ شو ہوتا تھا اور آپ گھنٹوں وہیں بیٹھتے تھے ، دیوبند ، سہارنپور ، لکھنؤ ، پٹنہ ، گیا یا کہیں سے بھی علماء کرام آتے تو سب سے پہلے حاجی معین صاحب کی دوکان میں آتے تھے اور ان سے ملاقات کرتے تھے ، حاجی معین صاحب صوم و صلوٰۃ کے شروع سے بڑے پابند رہے ہیں ، جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی کرنا آپ کی عادت بن چکی تھی مزاج میں حددرجہ نفاست تھی ، سفید رنگ کے کرتا پاجامہ میں ملبوس دو پلی مدنی ٹوپی میں بڑے خوبصورت اور بہت صاف و شفاف انداز میں رہتے تھے ، ظاہری طور پر پوری شکل و شباہت ایک عالم دین کی طرح تھی ، چونکہ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے اس لئے پوری زندگی حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا رنگ آپ پر غالب تھا ، حاجی معین صاحب اپنے شیخ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح بڑے مہمان نواز تھے ، باہر سے جو بھی علماء کرام آتے تھے تو ان کے کھانے پینے اور ان کے ٹھہرنے کا انتظام اپنے گھر میں کرتے تھے ، اس کے لئے اپنے گھر کا ایک ہال مخصوص کر رکھا تھا ، رمضان المبارک میں جو بھی سفیر اتے تو آپ انہیں اپنے گھر کے اسی ہال میں ٹھہراتے اور ان کی سحری و افطار کا پورا انتظام کرتے تھے اور ان سب کے کرنے میں آپ کو کوئی کوفت نہیں بلکہ خوشی محسوس ہوتی تھی ، حاجی معین صاحب کی خدمات کا سب سے بڑا اور نمایاں کارنامہ حاجیوں کو ہر قسم کی سہولیات اور آسانیاں فراہم کرانا تھا ، جس زمانے میں لوگ آج کی طرح اتنی سہولت و آسانی کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں حج اور عمرہ کے لئے نہیں جاتے تھے ، اس زمانے میں حاجی معین صاحب ممبئی سے حج کا فارم منگواتے تھے ، لوگ آپ کی ” دوکان گرانڈ شو” سے حج کا فارم لیتے تھے اور آپ ہی ان کا فارم بھر کر اور ڈرافٹ و پاسپورٹ وغیرہ بنوا کر ممبئی حج کمیٹی بھیجتے تھے ،وہاں سے ساری چیزیں بن کر آپ کی دوکان کے پتہ پر آتی تھیں اور آپ ایک ایک حاجی کو ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ وغیرہ دے کر بھیجتے تھے ، حاجیوں کی یہ سب خدمات حاجی معین صاحب فی سبیل اللہ انجام دیتے تھے ،

حاجی معین صاحب کی دوسری بڑی سماجی اور دینی خدمت یہ تھی کہ کہیں بھی کوئی نئی مسجد تعمیر ہوتی تھی تو اس کا قبلہ نکالنے یا قبلہ درست کرنے کے لئے لوگ آپ کو لے جاتے تھے چونکہ آپ کے پاس مکہ مکرمہ سے لایا ہوا قبلہ درست کرنے کا ایک آلہ تھا جس سے آپ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب کی طرح مساجد کا قبلہ نکالنے یا قبلہ درست کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ، حاجی معین صاحب کا ایک نمایاں کارنامہ یہ رہا کہ جب ملت اکیڈمی اسکول کی اپنی عمارت بنانے کا فیصلہ لیا گیا تو بلڈنگ کنٹریکش کمیٹی کے کنوینر حاجی معین صاحب بنائے گئے اور نے کھڑے ہو کر ملت اکیڈمی اسکول کی تعمیر کرائی ، حاجی معین صاحب کی تیسری خوبی یہ تھی جو آج کے دور میں بہت ہی کم نظر آتی ہے وہ یہ کہ حاجی معین صاحب اپنے خاندان کی تمام لڑکیوں کی شادی خود کھڑے ہو کر اپنی ذمےداری اور اپنی سرپرستی میں کرائی کیوں کہ آپ اپنے خاندان کے تمام افراد کے لئے ایک سرپرست اور گارجین کی حیثیت رکھتے تھے اور خانداں کے تمام افراد بھی آپ کو اپنا سرپرست اور گارجین سمجھتے اور مانتے تھے تھے ، حاجی معیں صاحب کا شمار شہر رانچی کے معزز ترین شخصیات میں ہوتا تھا اس لئے شہر کے کسی بھی اہم معاملے میں علماء کرام اور دانشورانِ قوم و ملت آپ کی رائے اور مشورہ کو اہم اور ضروری خیال کرتے تھے ، 1967 کے رانچی فساد کے موقع پر متاثریں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا اور ان کے لئے ریلیف کا سامان فراہم کرایا جاتا تھا ، شہر میں امن و امان قائم کرنے میں حاجی معین صاحب کی محنت و کوشش بہت اہم اور نمایاں رہی ہے جس کی بنیاد پر آپ شہر رانچی کی ” امن کمیٹی” کے رکن ہوئے ساتھ ہی دہلی سے بنائی گئی امن کمیٹی کے بھی اہم رکن تھے ،

حاجی معین صاحب کے ہم عمر ساتھیوں میں مولانا نظام الدین قاسمی صاحب ، مولانا عبد الغنی صاحب ، مولانا ازھر صاحب ، مولانا عبد العزیز صاحب ، حافظ جمال الدین صاحب ، مولانا عبد الصمد صاحب راورکیلا ، میرے نانا حافظ جمال الدین صاحب اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد صدیق مظاہری صاحب وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، حاجی عبدالغفور صاحب حواری پنچایت و حواری مسجد کے صدر جناب حاجی معین صاحب کے سب سے خاص و قریبی دوست اور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے ، دوستی کا یہ رشتہ دونوں گھرانوں کے درمیان تا حیات قائم رہا اور آج بھی قائم ہے ، حاجی معین صاحب 1990 میں حج کے لئے گئے ، یہ آپ کا چوتھا حج تھا ، جس موت کی اور جس مقام پر دفن ہوئے کی تمنا اور آرزو بڑے بڑے علماء کرام اور اولیاء کرام کیا کرتے ہیں وہ مبارک موت اور دفن کا وہ مبارک مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل و کرم سے عطاء فرمایا ، بہت سارے لوگوں کو یاد ہوگا کہ 1990 میں حج کے موقع پر منی کے کسی مقام پر آگ لگ گئی تھی اور ایک بھگدڑ سی بچ گئی تھی جس میں جل کر بھیڑ میں دب کر کئی حجاج کرام شہید ہو گئے تھے ،اس موقع پر شہید ہونے والوں میں ایک خوش نصیب نام حاجی معین صاحب کا بھی تھا جن کی نماز جنازہ مسجد حرم کے امام صاحب نے پڑھائی اور ان کو مکہ کے مشہور و معروف قبرستان ” جنت الماوی” میں دفن کیا گیا جہاں سینکڑوں صحابہ و صحابیات اور تابعین و تابعات اور ہزاروں اولیاء کرام و محدثین عظام آرام فرما ہیں ، اللہ تعالیٰ جناب حاجی معین صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین ثم ، حاجی معین صاحب کے چار لڑکے (1) حاجی شہاب الدین مرحوم (2) حاجی حافظ فیاض الدین مرحوم (3) محمد ریاض الدین (4) محمد غیاث الدین ہیں ، حاجی معین صاحب کے پوتوں میں محمد شاذلی اپنے دادا کی طرح سماجی خدماتِ کے لئے ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں ، دادا کی سماجی خدمات کی جھلک پوتے میں اکثر میں نے دیکھا ہے ، اللہ اس سماجی خدمات کے جذبے اور جلا بخشے آمین ثم آمین یا ربّ العالمین ،

Leave a Response