All India NewsJharkhand News

انجمن فروغ اردو کی جانب سےڈاکٹر ہمایوں اشرف کے’ مونوگراف قاضی عبد الستار ‘کی رونمائی

Share the post

ڈاکٹر ہمایوں اشرف جھارکھنڈ میں اردو تنقید کے روشن ستارہ ہیں:ڈاکٹر محمد ایوب
رانچی:۲۵؍مئی ۲۰۲۵ء ۔انجمن فروغ اردو (جھارکھنڈ)کی جانب سے مسجد جعفریہ کیمپس میں اردو کے معروف ناقد،صحافی،مترجم اور افسانہ نگار ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے مونوگراف بہ عنوان’’قاضی عبد الستار‘‘کی رونمائی عمل میں آئی۔اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی تین درجن کتابیں شائع ہوکر مقبول خاص و عام ہوچکی ہیںجن میں متن اور مفہوم،فکشن کی بازیافت،فکشن سے پرے،الیاس احمد گدی(مونوگراف)غیاث احمد گدی(مونوگراف)رضانقوی واہی(مونوگراف) اور کلیات منٹو وغیرہ خاص طور پر اہم ہیں۔ان کا ایک اہم کارنامہ قاضی عبدالستار کا مونوگراف بھی لکھا ہے۔پروفیسر قاضی عبد الستار(1933۔2018) اردو کے مشہور افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر اور اُسی کے صدر شعبہ رہ چکے ہیں۔ انھیں ادبی اعتراف کے عوض پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔وہ اترپردیش کے ضلع سیتا پور کے مچھریٹہ گاؤں میں ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوئے۔قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ’’ پیتل کا گھنٹہ‘‘ ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے مرکوز رہیں۔ بعد کے دور میں وہ تاریخی ناول لکھنے لگے۔ ان کی مشہور نگارشات میں دارا شکوہ، خالد بن ولید،غالب،حضرت جان وغیرہ کافی مشہور ہوئے۔قاضی عبدالستار کو لفظیات کا جادو گر کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے اسلوب کے موجد مانے جاتے ہیں جس کی تقلید معاصرین کرتے آئے ہیں۔ جس جاگیردارانہ ماحول میں ان کی پرورش ہوئی اور جو عادات و اطورا ان کی سرشت میں شامل تھے، وہی چیزیں ان کی تحریروں میں بھی جھلکتی ہیں۔ انھوں نے بچپن سے جوانی تک اور طالب علمی سے معلمی تک جس شعور کو اپنا شعار بنایا اسے سبکدوشی سے عمر کے آخری ایام تک اسی شان بے نیازی سے برتا۔ قاضی صاحب کے حوالے سے کئی اصحاب قلم نے خامہ فرسائی کی لیکن ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے مونوگراف لکھ کر اپنی اہمیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔قاضی صاحب کے حوالے سے یہ پہلا مونوگراف ہے جسے ساہتیہ اکادمی،نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔یوں تو ڈاکٹر ہمایوں کئی کتابوں کے مصنف ہیں لیکن اس کتاب کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے کیوں کہ مونوگراف لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز محمد دانش ایاز کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔اس کے بعد محمد مکرم حیات نے نعت پاک پڑھ کر ماحول کو خوشگوار بنایا۔اس کے بعد مومنٹو،گلدستہ اور تحفہ دے کر مہمانوں کا استقبال کیا گیا۔محترمہ شگوفہ تہذیب نے ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی شخصیت اور تصانیف پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا پورا نقشا کھینچ دیا۔اس کے بعد ڈاکٹر ہمایوں اشرف کی کتاب قاضی عبد الستار (مونو گراف) کی رونمائی عمل میں آئی۔پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے محمد غالب نشتر نے کتاب پر اظہار خیال کیا۔اس کے بعد مزاحیہ نگار طبیب احسن تابش نے بھی کتاب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔زاکر رضوی کے مضمون کو عابدہ انجم نے پڑھ کر سامعین کے سامنے پیش کیا۔اس کے مہمانوں نے کتاب کے حوالے سے گفتگو کی۔سب سے پہلے ڈاکٹر اختر آزاد نے ہمایوں اشرف کی طرز نگارش پر کافی اہم باتیں کیں۔اس کے بعد جناب ابرار احمد نے بھی پرانی یادوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے طرز تحریر پر بھی سیر حاصل گفتگو کی۔اس کے بعد ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے اپنے حوالے سے کئی گوشوں پر باتیں کیں جس میں کئی انکشافات کیے۔اس کے بعد پروگرام کے صدر ڈاکٹر محمد ایوب نے صدارتی خطبہ پیش کیا جس میں انھوں نے کھل کر ادب اور سماج پر باتیں کیں۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عبدالباسط نے کی اور شکریے کی رسم ڈاکٹر شگفتہ بانو نے ادا کی۔پروگرام میں شامل رہنے والے اساتذہ اور طلبا میں سیدعزیر حمزہ پوری،محمد اقبال، دلشاد نظمی،محمد کلیم الدین،ڈاکٹر محفوظ عالم،محمد امین الدین،غفران اللہ قمر سلطان پوری،ڈاکٹر تسلیم عارف،حنا آفرین،شعیب اختر،شہاب حمزہ،طیب جمشید پوری، محمد ساجد، سرفراز عالم ، راشد جمال، مکرم حیات، عبدالجبار،جوہی عشرت،ڈاکٹر کفیل احمد،غوثیہ آفرین وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
¦¦¦

Leave a Response