انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کے زیر اہتمام پہلی ریاستی اردو کانفرنس کا انعقاد


اردو کی ترقی کیلئے سب سے بہترین پہل یہ ہوگی کہ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اردو میں دیں: ڈاکٹر اطہر فاروقی
ہم سب کو متحد ہو کر اردو کیلئے کام کرنے کی ضرورت: ڈاکٹر عرفان انصاری
رانچی: آج سرزمین جھارکھنڈ مین پہلی ریاستی اردو کانفرنس انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کے زیر اہتمام ریاست میں اردو کی موجودہ صورتحال اور چیلنجز کے موضوع پر منعقد کیا گیا۔ پروگرام کا انعقاد دو سیشن میں ہوا۔ پہلے سیشن کا آغاز انجمن ترقی اردو (ہند) جھارکھنڈ کے مرکزی نمائندہ ایم زیڈ خان کے استقبالیہ کلمات سے ہوا۔ انہوں نے سبھی مہمانوں کا استقبال کیا۔ اس موقع پر بطور مہمان خصوصی انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری اطہر فاروقی موجود تھے۔ جب کہ مہمان اعزازی کے طور پر وزیر صحت ڈاکٹر عرفان انصاری، سابق لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ کامریڈ سبھاشنی علی، راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر مہوا ماجی، سابق برہی ممبر اسمبلی اوما شنکر اکیلا یادو، جے ایم ایم ضلع صدر مشتاق عالم، ڈاکٹر علی امام خان، ڈاکٹر حسن رضا، ڈاکٹر صفدر امام قادری، یٰسین انصاری سمیت دیگر موجود تھے۔

پھر سبھی ضلع سے آئے نمائندوں کا استقبال کیا گیا۔ اس کے بعد انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کی 16 ماہ کی کنوینر رپورٹ ایم زیڈ خان نے پیش کی۔ ساتھ ہی انجمن ترقی اردو ہند کی تاریخ اور خاص کر جھارکھنڈ میں انجمن کے بینر تلے ہوئی سرگرمیوں سے سبھی کو واقف کرایا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت ڈاکٹر عرفان انصاری نے کہا کہ آج کی اس تقریب میں شرکت کا مجھے موقع ملا اور اس اردو کانفرنس کا انعقاد کرنے کیلئے آپ سبھی کو مبارکباد دیتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے آگے کہا کہ سب سے پہلے ہم یہ جان لیں کہ اردو کسی مذہب سے جڑی ہوئی زبان ہے ہی نہیں۔

یہ پورے ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ جھارکھنڈ میں جو مقام اردو کو ملنا چاہئے وہ ابھی تک نہیں مل پایا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اردو کے ساتھ ساتھ سبھی زبانوں کا بھی احترام کریں۔ جب ہمیں سنسکرت سے کوئی دقت نہیں ہے تو پھر اردو سے آپ کو کیوں پریشانی ہے۔ جھارکھنڈ میں کثیر تعداد میں اردو اسکول کا قیام عمل میں آئے اس سمت ہماری مثبت کوشش ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جب اسمبلی میں اردو کی پروسیڈنگ ہوتی تھی کچھ ممبران اسمبلی اس کی مخالفت کیا کرتے تھے کہ ہم اردو پڑھنا نہیں جانتے ہیں تو اردو میں پروسیڈنگ کیوں ہوتی ہے، لیکن ہم نے ان ممبران اسمبلی سے کہا کہ آپ اگر اردو پڑھنا نہیں جانتے ہیں تو اردو پڑھنا سیکھئے۔ لیکن اردو کی پروسیڈنگ بند نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں نہایت ہی ضروری ہے کہ اس طرح کے پروگرام منعقد کئے جائیں۔ آپ لوگوں نے بہتر انعقاد کیا ہے۔ آپ سب وزیر اعلیٰ سے ملاقات کریں اور میں آئندہ سیشن میں اردو سے متعلق مسائل کو رکھوں گا۔ آپ لوگوں سے گزارش یہ رہے گی کہ آپ سب ابھی متحد ہو کر اردو کیلئے کام کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اردو کے مسائل حل کے ساتھ ساتھ آپ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم حاصل کرائیں اور مسابقتی امتحان میں ان کی شراکت داری یقینی بنائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ یہ انجمن کی پہلی ریاستی کانفرنس ہے، لیکن دوسری ریاستی کانفرنس میں منعقد کراؤں گا۔

مہمان اعزازی کے طور پر موجود کامریڈ سبھاشنی علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جھارکھنڈ میں اردو کی کیا حالت ہے اس سے میں تو واقف نہیں ہوں لیکن پورے ملک میں کیا حالت ہے اس سے بخوبی واقف ہوں۔ اس کی بہتری کیلئے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ سب یہ جان لیں کہ اردو کسی بھی مذہب کی زبان نہیں ہے۔ اردو کو کسی مسلمان نے پیدا نہیں کیا اور نہ ہی اسے مسلمانوں نے بچایا ہے۔ کیوں کہ مسلمان تو پوری دنیا میں ہیں۔ تو پھر ان ممالک میں اردو کیوں نہیں ہے۔ اس لئے آپ سب کو یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اردو ہندوستانی زبان ہے۔ اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ صرف اردو اسکولوں اور کالجوں میں شعبۂ اردو کے قیام اور اردو سے متعلق خالی آسامیوں پر بحالی کرا کر اردو کی حفاظت کر لیں گے تو یہ ناممکن ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت کیلئے یہ ضروری ہے کہ آپ کو اپنی عام بات چیت میں اردو کو شامل کرنا ہوگا۔ راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر مہوا ماجی نے اس موقع پر کہا کہ اردو اور ہندی کا فرق صرف ماں اور ماسی کا ہے۔ اس لئے بلا تفریق ہم سبھی کو مل کر اردو کیلئے کام کرنا ہوگا۔ کوئی بھی ہندو بھلے ہی اردو کی مخالفت کرتا ہو لیکن وہ اپنے گھر میں ، اپنی شادی یا کسی بھی تقرب میں اردو غزل ہی سنتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے اس بات کو رکھیں گی اور اس کے حل کیلئے کام کریں گی۔ موقع پر جالب وطنی کی کتاب ’’اڑان کا بھی اجراء کیا گیا۔ موقع پر گڈا سے آئے سشیل ساحل، گریڈیہہ سے آئے مفتی سعید عالم، مولانا قمر الدین، جامتاڑا سے عبدالرقیب رحمانی، عبدالرزاق، گڑھوا سے آئے عمران نے بھی خطاب کیا اور اپنے اپنے اضلاع میں انجمن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے چلائی جا رہی سرگرمیوں اور آئندہ کے لائحہ عمل سے سبھی کو واقف کرایا۔ دوسرے سیشن کا آغاز محفوظ عالم کے خطاب سے ہوا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے۔ اس کے بعد انجمن ترقی اردو جھارکھنڈ کے ذریعہ حکومت سے مطالبات کیلئے بنائی گئی 13 نکاتی تجویز پڑھ کر سنائی گئی اور اتفاق رائے سے اسے پاس کیا گیا۔ موقع پر کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی موجود انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ جھارکھنڈ میں انجمن نے گزشتہ 13 برسوں سے اپنی کاموں میں سست رفتاری دکھائی ہے، لیکن آج ایم زیڈ خان نے جو یہ پہلی ریاستی اردو کانفرنس منعقد کی ہے یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب انجمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگا۔ انجمن کی شاخوں کو چلانے کیلئے جو بھی بہتر طریقہ ہو اسے اپنائیں اور کام کریں۔

میںجھارکھنڈ انجمن کے عہدیداران سے کہنا چاہوں گا کہ آپ حکومت کے پاس درجنوں تجاویز لے جانے کی بجائے صرف 2۔ 4 تجاویز لے کر جائیں تو کام بہتر طریقہ سے ہوگا۔ کم تجویز بنائیں اور اس پر فوکس کریں۔ تاکہ آسانی سے کوئی بھی کام ہو پائے۔ آپ کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اردو میں دیں۔ اردو کی ترقی کیلئے یہ سب سے بہترین پہل ثابت ہوگی۔ انہوں نے اختصار سے لیکن جامع بات رکھی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آپ اردو سے متعلق جو بھی مسائل ہیں آپ ایک کو اپنا ہدف بنائیں، اسے حاصل کریں، پھر آگے بڑھیں۔ اس کے بعد بطور مقرر موجود صفدر علی امام نے کہا کہ میں نے انجمن کے بہت سے اجلاس دیکھے ہیں لیکن ایک کانفرنس میں اتنے اضلاع کے لوگوں کو ایک جگہ پہلی مرتبہ دیکھا۔ انہوں نے اسکولی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ پرائمری، اپر پرائمری و سکنڈری اسکولوں میں کم از کم ایک اردو اساتذہ ضرور ہو۔ اس کیلئے آپ سب حکومت پر دباؤ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی زبوں حالی کیلئے حکومت سے زیادہ ہم خود ذمہ دار ہیں۔ اس لئے آپ سب یہ کوشش کریں کہ اپنے محلے میں چھوٹی چھوٹی لائبریری کا قیام کریں۔ یہ پہل آگے چل کر بہت ہی کارآمد ثابت ہوگی۔ پروگرام سے سے واصف اختر، علی امام قادری، ڈاکٹر یٰسین انصاری نے بھی خطاب کیا۔ شکریہ کی تجویز یاسمین لال نے پیش کی۔ اس کے بعد پروگرام کا اختتام ہوا۔
