All India NewsRanchi Jharkhand News

انجمن اسلامیہ رانچی کا چناؤ اور آپس کا تناؤ ( مفتی راحت انور قاسمی )

Share the post

مجاہد آزادی اور آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم حضرت مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی چار سالہ اسیری (1916 – 1919) کے دوران رانچی کے مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے سب سے پہلے 1917ء میں ” مدرسہ اسلامیہ ” قائم کیا اور اس مدرسہ کے تعلیمی نظام کو چلانے اور مسلمانوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنی سیاسی و سماجی پسماندگی کو دور کرنے اور مسلمانوں میں قائدانہ فکر اور صلاحیت پیدا کرنے کی خاطر ” انجمن اسلامیہ” قائم کیا ، بد قسمتی سے یہ دونوں ادارے آج بھی قائم ہیں مگر دونوں اپنے مقصد اور مولانا آزاد کی فکر سے بہت دور اور یکسر ہٹے ہوئے ہیں ، اب انجمن اسلامیہ رانچی چناؤ جیت کر آنے والے اکثر وبیشتر عہدیداروں اور عاملہ کے ممبروں کے لئے نام و نمود کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے ، اب انجمن اسلامیہ رانچی میں مولانا آزاد کی روح اور فکر کو تلاش کرنا دیوانے کا خواب بن گیا ہے ، مولانا آزاد کا قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ بہت تلاش کرنے پر اپر بازار میں واقع صرف ایک لال بوسیدہ عمارت کی شکل میں مل جائے گا جہاں نہ مدرسہ کی تعلیم نظر آئے گی اور نہ ہی طلباء نظر آئیں گے ، مولانا آزاد نے جس جوش و جذبے کے ساتھ مدرسہ اسلامیہ قائم کیا تھا وہ ہر دور میں انجمن اسلامیہ رانچی کے عہدیداروں کی بے توجہی اور سوتیلے پن کا شکار ہو کر کہیں گم ہوگیا جسے تلاش کرنا ریگستان کے سراب کی طرح ہے ، مین روڈ پر واقع انجمن پلازہ مارکیٹ کے پیچھے رحمانیہ مسافر خانہ کی زمین پر قائم نو تعمیر عمارت میں جو مدرسہ “مدرسہ اسلامیہ” کے نام سے چلتا ہے وہ مولانا آزاد کا قائم کردہ نہیں ہے بلکہ وہ حاجی نثار صاحب مرحوم صدر انجمن اسلامیہ رانچی کے دور صدارت میں مدرسہ اسلامیہ کے نام سے کاغذی خانہ پری کے بعد سرکاری فنڈ سے تعمیر شدہ مدرسہ ہے جو اپنی کسمپرسی و مسکینی پر آنسو بہا رہا ہے ، مولانا آزاد کے قائم کردہ حقیقی مدرسہ اسلامیہ کی عمارت میں مولانا آزاد کے نام سے ایک کالج 1972ء سے چل رہا ہے جو ہائیر مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت رانچی یونیورسٹی رانچی سے منظور شدہ ہے وہ بھی اپنی زبوں حالی ، یتیمی اور سوتیلے پن کا ہر دور میں شکار رہا ہے کیوں کہ ہر دور میں اس تعلیمی ادارے کے دوست کم اور دشمن زیادہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آئیندہ بھی رہیں ، مدرسہ اسلامیہ کو تو لوگوں نے بھلا دیا اور انجمن اسلامیہ کو اپنی شہرت و مقبولیت اور ذاتی مفاد پرستی و خود غرضی کا زینہ بنا کر اس کے وقار اور اس کی حیثیت کو مجروح کر دیا، آج انجمن اسلامیہ رانچی آپسی اتحاد و یگانگت کے بجائے آپسی اختلاف و انتشار اور ایک دوسرے کو ذلیل و رسواء کرنے کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے ، آج انجمن اسلامیہ رانچی کی موجودہ حالت کو دیکھ کر مولانا آزاد کی روح کو مخاطب کر کے کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد : آپ کو اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے کہ آپ نے نصف صدی تک اپنوں کے طعنہ سہہ کر اور رانچی میں اپنی چار سالہ قید و بند کی سختیاں جھیل کر رانچی کے مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی پسماندگی کو دور کرنے اور ان کی سیاسی و سماجی حیثیت کو بلند کرنے کی خاطر مدرسہ اسلامیہ اور انجمن اسلامیہ کا جو باغ لگایا تھا اس میں کانٹے زیادہ ابھر آئے ہیں اور پھول اب کہیں کہیں رہ گئے ہیں ، مدرسہ اسلامیہ کی ترقی اور فلاح و بہبودی کے لئے ” مدرسہ اسلامیہ بچاؤ مورچہ” کبھی نہیں بنا اور نہ کبھی بنے گا لیکن جیسے ہی انجمن اسلامیہ رانچی کے چناؤ کا وقت آتا ہے تو انجمن اسلامیہ رانچی کی زبوں حالی کا درد کچھ لوگوں کو ستانے لگتا ہے اور اس کو بچانے کے لئے ” ہر تین سال کے بعد عین چناؤ سے پہلے کچھ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں اور” انجمن اسلامیہ بچاؤ مورچہ” کا جھنڈا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور چناؤ ختم ہوتے ہی جھنڈا ، بینر اور نعرہ کے ساتھ پلامو کے جنگل میں گم ہوجاتے ہیں ، انجمن اسلامیہ رانچی کے وقار کو بچانے اور اس کی سماجی حیثیت و اہمیت کو اوپر اٹھانے کے لئے غور و فکر کرنا اور اس کے لئے لوگوں کا سر جوڑ کر مل بیٹھنا بہت اچھی اور قابل ستائش بات ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ انجمن اور انجمن کے تمام ذیلی اداروں میں ہونے والی گڑبڑی اور خرابی کو عین وقت پر دور کرنے کے لئے کسی کے اشارے پر نہیں بلکہ از خود کھڑے ہو جائیں اور مٹبت انداز میں اس کے حل کی راہ تلاش کریں ، مولانا آزاد کا احسان یوں تو پوری ملت اسلامیہ اور ہندوستان پر ہے مگر بالخصوص رانچی کے مسلمانوں پر بڑا کرم ہے کہ انھوں نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال کر ملی کاموں کے لئے اجتماعیت عطا فرمائی اور مختلف مسلک و متضاد رجحانات کے لوگوں کو ایک جگہ مل کر بیٹھنے کا موقع عطا فرمایا مگر آج انجمن اسلامیہ اس کا آئینہ دار نہیں رہا ہے ، ابھی گزشتہ دنوں چناؤ اور چناؤ کنوینر کو لے کر رانچی شہر کے مختلف محلوں میں مسلمانوں کے خود ساختہ رہنماؤں کی جتنی نشستیں ہوئیں وہ سب نے سوشل میڈیا میںں دیکھا گیا لیکن ابھی گزشتہ ماہ جھارکھنڈ سرکار نے مدرسہ بورڈ سے ملحق عالم فاضل کی سند کو ختم کردیا اس کی لڑائی لڑنے کے لئے انجمن انجمن کھیلنے والوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے ، اب تو حالت یہ ہے کہ ہر تین سال بعد جب انجمن اسلامیہ رانچی کے چناؤ کا وقت آتا ہے تو آپسی رشتے خراب ہونے لگتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو گروپ بندی کے آئینے سے دیکھنے لگتے ہیں ، ایک دوسرے سے سلام و کلام کرنا مکروہ سمجھتے ہیں ، انجمن اسلامیہ رانچی کے چناؤ کے وقت آپسی تناؤ کی یہ حالت شروع سے نہیں ہے ، اس کی ابتداء جناب محمد سعید ادریسی صاحب کے دور صدارت سے ہوئی ہے ، جب جناب محمد سعید صاحب انجمن اسلامیہ رانچی کے صدر ہوئے تو انھوں نے انجمن اسلامیہ رانچی کی بے لوث خدمت کی ، انھوں نے مختلف تعمیری کاموں سے انجمن اسلامیہ رانچی کو سیاسی و سماجی پہچان دلائی ، جس کی ایک لمبی فہرست ہے ، اس کی وجہ سے جناب محمد سعید صاحب کو بھی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ محمد سعید صاحب کی صدارت سے پہلے لوگ رمضان المبارک اور عید کے چاند کا اعلان کی وجہ سے انجمن کو جانتے تھے اور محمد سعید صاحب کو بھی جو عوامی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ انجمن اسلامیہ رانچی کا صدر ہونے اور انجمن اسلامیہ کی سیاسی و سماجی حیثیت و اہمیت کو بڑھانے کی وجہ سے ہوئی ، اپنے بارہ سالہ دور صدارت میں انھوں نے انجمن اسلامیہ رانچی کی شہرت و مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا ، آج بھی اگر لوگوں سے محمد سعید صاحب سے پہلے کے انجمن اسلامیہ رانچی کے صدر کا نام پوچھا جائے تو بہت کم ہی لوگ بتاپائیں گے ، اگر محمد سعید صاحب کو انھیں کی طرح چند مخلص اور بے غرض اور بے لوث خدمت کا جذبہ رکھنے والے احباب مل جاتے تو مدرسہ اسلامیہ اور مولانا آزاد کالج کی اپنی عمارت بہت پہلے بن چکی ہوتی ، مجموعی طور پر محمد سعید صاحب نے انجمن اسلامیہ رانچی کے لئے بہت کام کیا ، اس کے صلے میں اپنوں اور غیروں میں وہ بہت مشہور و مقبول بھی ہوئے ،جناب محمد سعید صاحب کی آڑ میں بہت سارے لوگوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھویا جس کی عادت بعد کے کچھ لوگوں کو بھی پر گئی تھی ، جناب محمد سعید صاحب کے بعد تو انجمن اسلامیہ رانچی کا صدر و سکریٹری اور مجلس عاملہ کے ممبر بننے کا تو ہوڑ لگ گیا ، چناؤ آتے ہی فرضی ووٹروں کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ، سیاسی جماعتوں کی طرح مختلف برادریوں میں کسی کو ہرانے یا کسی کو جتانے کے لئے جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہوجاتی ہے ، اس کے لئے گروہ بندی شروع ہوجاتی ہے اور ایک دوسرے کو ذلیل و رسواء کرنے کی کوشش اور جوڑ توڑ کو اسلامی جہاد سمجھا جانے لگتا ہے ، اس کے لئے کون کس حد تک گرے گا کہنا مشکل ہے ، انجمن اسلامیہ رانچی کے دستور میں انجمن اسلامیہ کے دائرہ کار کا ذکر صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے مگر ہر چناؤ میں کنوینر انتخاب سے انجمن اسلامیہ رانچی کا دائرہ کار میں توسیع کرنے کا مطالبہ کرنا دستور سے ناواقفیت کی علامت اور دلیل ہے ، اگر بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر انجمن رانچی کے دائرہ کار میں توسیع ہی کرنا ہے تو لوگوں کو انجمن اسلامیہ رانچی کے عہدیداروں اور مجلس عاملہ کے ارکان سے موجودہ دستور میں ترمیم و تنسیخ کا پُرزور مطالبہ کرنا چاہئے ، اصل میں عین چناؤ سے پہلے کچھ چال باز اور جعلساز لوگ دیہات کے سیدھے سادے مسلمانوں کا ووٹ انھیں گمراہ کرکے اپنے حق میں استعمال کرکے اپنی جیت متعین کرانا چاہتے ہیں ، مگر دیہات کے لوگ اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ ان کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جائیں ، اب انھیں بھی سیاست کرنی آگئی ہے اور وہ بھی حالات اور افراد کو اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں،
انجمن اسلامیہ رانچی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب اس کے چناؤ کو لے کر اتنا اختلاف و انتشار دیکھا گیا ، دو چناؤ کنوینر کی منسوخی کے بعد تیسرے کنوینر پر اتفاق ہوا ، دیکھئے یہ تیسرے چناؤ کنوینر بھی کتنی دور جاپاتے ہیں ، اس کے بعد بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ معاون کنوینر ہمارے علاقے اور ہماری جماعت سے بھی ہونا چاہئے ، جن لوگوں نے کٹھپتلی کا ناچ دیکھا ہوگا وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کٹھپتلی مختلف انداز سے ناچتی تو ہے مگر اس کو نچانے والا ہاتھ اور جس باریک ڈوری سے کٹھپتلی بندھی ہوتی ہے وہ ڈوری نظر نہیں آتی ہے ، کٹھپتلی کے ناچ کا یہی وہ کمال ہے جو لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے ، انجمن اسلامیہ رانچی کے انتخابی اختلاف و انتشار کی حالت بھی کٹھپتلی کے ناچ کی طرح ہے ، اللہ کرے کہ انجمن اسلامیہ رانچی کا چناؤ تیسرے چناؤ کنوینر کی نگرانی میں بحسن وخوبی انجام پا جائے ،مفتی راحت انور قاسمی ابن مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی رانچی جھارکھنڈ۔

Leave a Response